اپنوں کے ھاتھوں علم کی بے حُرمتی

تلوار پہ زور دینے والوں نے زمین اور مٹی تو مسلمانوں کو دے دی مگر یہ تلوار باز ھمیشہ علم دشمن ثابت ھوئے ، علمی میراث پہ بھی اسی طرح شب خون مارتے رھے جس طرح دشمن پر یلغار کی جاتی ھے ،اور آج بھی بندوق اور علم کی آپس کی یہ دشمنی برقرار ھے !
1۔ 503ھ میں طرابلس (لیبیا)پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو وہاں کے کتب خانوں کو جلا دیا۔
2۔ 656ھ میں ہلاکو خان نے بغدادتاراج کرنے کے بعد وہاں کے عظیم الشان کتب خانوں کو دریائے دجلہ میں پھینکوا دیا دریائے دجلہ میں غرق کی جانے والی کتب کی تعداد چھ لاکھ سے متجاوز تھی ۔بغداد میں علامہ سید رضی موسوی کا کتب خانہ جہاں نہج البلاغۃ جیسی معرکۃ الآرا کتاب تالیف ہوئی دریا برد ہو گیا ۔
3۔ تاتاریوں نے بغداد کے کتب خانے تباہ کئے اور تمام کتب دریا میں ڈال دیں جس سے دریا کا پانی سیاہ ہو گیا۔ تاتاریوں کا یہ سیلاب صرف بغداد تک ہی محدود نہ رہا بلکہ ترکستان ،ماوراء النہر ،خراسان،فارس،عراق ،جزیرہ اور شام سے گزرا اور تمام علمی یادگاریں مٹاتا چلا گیا
4۔ صلیبی جنگوں کے دوران عیسائیوں نے مصر ،شام ،سپین اور دیگر اسلامی ممالک کے کتب خانوں کو بری طرح جلا کر تباہ وبرباد کر دیا ۔ان کتب کی تعداد تیس لاکھ سے زائد تھی ۔
5۔ سپین میں عیسائی غلبے کے بعد وہاں کے کتب خانے جلا دیئے گئے ۔
6۔Cardinal Ximenes نے ایک ہی دن میں اسی ہزار کتب نذر آتش کر دیں ۔
7۔فاطمین مصرکے دور میں قاہرہ کے قصرشاہی کا عدیم النظیرکتب خانہ تمام اسلامی دنیا کے کتب خانوں پر سبقت لے گیا تھا جسے صلاح الدین ایوبی نے جلا کر خاکستر کر دیا۔
8۔420ھ میں سلطان محمود غزنوی نے رے فتح کیا تو وہاں کے کتب خانوں کوجلوا دیا۔
9۔صاحب بن عباد وزیر کا عظیم الشان کتب خانہ’’ جو دارالکتب رے ‘‘کے نام سے معروف تھا، سلطان محمود غزنوی نے جلا کر تباہ کر دیا
10۔ قاضی ابن عمار نے طرابلس میں عالیشان کتب خانے کی تاسیس کی جس میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں تھیں ۔یہ کتب خانہ صلیبی جنگوں کے دوران برباد کر دیا گیا ۔
11۔ اسلامی دنیا کے سب سے پہلے عمومی کتب خانہ میں جسے ابو نصر شاپور وزیر بہاء الدولہ نے381ھ میں بغدادا کے محلہ کرخ میں قائم کیا تھا اس کتب خانے میں دس ہزار سے زائد ایسی کتب تھیں جو خود مصنفین یا مشہور خطاطوں کی لکھی ہوئی تھیں۔یاقوت الحموی جس نے دنیائے اسلام کے بہتر سے بہترین کتب خانے دیکھے تھے، لکھا ہے کہ دنیا میں اس سے بہتر کوئی کتب خانہ نہ تھا ۔ اس کتب خانہ کو مورخین نے ’’دار العلم ‘‘کے نام سے موسوم کیاتھا ۔یہ مایہ ناز کتب خانہ 451ھ میں طغرل بیگ سلجوقی نے جلا دیا۔
12۔ بغداد میں ابو جعفر محمد بن حسن طوسی کا کتب خانہ 385ھ تا 420ھ کئی مرتبہ جلایا گیا ۔آخری مرتبہ 448میں اسطرح جلایا گیا کہ اس کا نام بھی باقی نہ بچا ۔
13۔ 549ھ میں ترکوں کے ایک گروہ نے ماوراء النہر سے آکر نیشا پور کے کتب خانے جلا دیئے ۔
14۔ 586ھ میں ملک الموید نے نیشا پور کے باقی ماندہ کتب خانوں کو جلا کر تباہ کر دیا ۔
حوالہ جات :
1۔ تاریخ ادبیات، ص85 ،مطبوعہ برلن پروفیسر براؤن
2۔ رسائل شبلی ،ص50،51،مطبوعہ امرتسرٍٍ علامہ شبلی نعمانی
3۔ تاریخ تمدن اسلام ،ج 3 جرجی زیدان
4۔ تاریخ ابن خلدون مؤرخ ابن خلدون
5۔تاریخ آداب اللغۃ ،ج 3 جرجی زیدان و مقدمہ ابن خلدون
6۔کتاب الخطاط المقریزی ،ج 1،ص254،مطبوعہ مصر
7۔ معجم الادباء،ج6،ص259،مطبوعہ مصر یاقوت الحموی
8۔ زوال سلطنت روما ،ج 3 ایڈورڈ گبن
9۔الاعیان ،ج1،مطبوعہ دمشق
10۔تاریخ کامل ،ج 9،ص100 علامہ ابن اثیر
11۔کشف الظنون ،ج2 و الاعلام الزرکلی ، ج3،ص884،مطبوعہ مصر
12۔تاریخ کامل ،ج 11،ص102 علامہ ابن اثیر
13۔ تاریخ کامل ،ج 11،ص103 علامہ ابن اثیر