انبیاء اور سماجی زندگی

 
انبیاء انسانوں میں سے مبعوث کئے جاتے ھیں اور انسانوں کی ھدایت کے لئے چنے جاتے ھیں – وہ اپنے عمل سے وہ راہ متعین کرتے ھیں جس پر چلنے سے اللہ کی رضا حاصل ھوتی ھے – تا کہ کل کلاں کوئی شخص اس راہ کو ناقابلِ عمل نہ کہہ سکے –
جامع ترین اسوہ نبئ کریم ﷺ کا ھے کہ جو اللہ پاک کے آخری رسول ﷺ ھیں اور جن کے ذریعے اللہ پاک نے انسانیت سے اپنا آخری خطاب فرمایا ھے اور آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو رہتی دنیا تک انسانیت کے لئے معیارِ حق کے طور پر متعین فرمایا ہے –
رسول اللہ ﷺ سے پہلے بھی دنیا میں کسی نیک شخص کے بارے میں یہی تصور پایا جاتا تھا کہ ھر وہ شخص جو ایسی زندگی گزارے جو کوئی عام انسان نہ گزار سکے وہ ولی اللہ اور اللہ کا نیک اور مقرب بندہ ھوتا ھے ، جو اپنی اس مشقت بھری زندگی کے عوض رب کے قرب کے اس درجے کو پا لیتا ھے کہ رب اس کی بات کو رد نہیں کرتا ، بدقسمتی سے قرآن اور سنت کی موجودگی میں یہ تصور آج بھی اسی طرح قائم و دائم ھے ،جو کسی ذھنی بیماری کی وجہ سے کپڑے اتار دیتا ھے یا نہانا دھونا چھوڑ کر گندہ رھنا شروع کر دیتا ھے ، ادھر ادھر کی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ھے لوگ اس کو ” پہنچا ھوا ” سمجھ کر اس کے سامنے لائنیں بنا کر اپنی حاجتیں پوری کروانا شروع کر دیتے ھیں –
لوگ تو بس یہی پسند کرتے ھیں کہ کبھی کبھار کوئی مفلوک الحال اجنبی کہیں کسی جنگل میں سے نکل کرآئے اور وہ اس کو چوم چاٹ کر اور اس سے ہاتھ پھروا کر جلوس کی صورت میں دوبارہ اسی جنگل میں چھوڑ آئیں وہ بھلا اس شخص کو کیوں پسند کریں گے جو ان کی منڈی پر نظر رکھے اور گندم کے ڈھیر میں ہاتھ دے کر نیچے سے گیلے دانے نکال کر تاجر سے کہے کہ یہ کیا ھے ؟ تاجر عذر پیش کرے کہ رات بارش میں بھیگ گئے تھے ، اور وہ ھستی ﷺ اسے کہے کہ گیلے الگ رکھنے تھے اور سوکھے الگ ، یہ ملاوٹ میری امت کا شیوہ نہیں ” من غشنا فلیس منا ” جس نے ھمیں دھوکا دیا وہ ھم میں سے نہیں –
نیک آدمی کا یہ تصور اسلام سے پہلے عیسائی راھبوں میں بھی پایا جاتا تھا کہ جن کے نزدیک رب کے قرب کے درجات اس بات سے متعین ھوتے تھے کہ فلاں صاحب تو دس سال سے نہیں نہائے ، اور فلاں صاحب چنے کا ایک دانہ ایک ماہ میں کھایا کرتے تھے – اور فلاں صاحب نے ساری زندگی شادی نہیں کی اور فلاں صاحب دس سال اپنی ماں سے نہیں ملے اور جب ماں ملنے کے لئے غار پہ آئی تو انہوں نے باھر نکلنے سے انکار کر دیا اور جب ماں نے وھیں مر جانے کی دھمکی دی تو بھیس بدل کر اس سے ملنے آئے اور اس پر اپنا آپ طاھر کیئے بغیر اس کو سمجھاتے رھے کہ تو اپنے بیٹے کو مل کر اس کی تپسیا کو ضائع کرنے کے لئے آئی ھے اور تجھے شیطان اس کام کے لئے اکسا کر لایا ھے بہتر ھے کہ تو اپنے شیطان سمیت یہاں سے چلی جا –
یہ تصور نبئ کریم ﷺ کے زمانے میں بھی موجود تھا اور کفار مکہ یہی اعتراض کیا کرتے تھے کہ نعوذ باللہ ذرا ان کے لچھن تو ملاحظہ فرمائیے کہ دعوی تو رسالت کا کرتے ھیں اور شادی بھی کر رکھی ھے، اور صرف نام کی شادی نہیں بلکہ سرکار دھڑا دھڑ بچے بھی پیدا فرما رھے ھیں ، اس پر طرہ یہ کہ بازاروں میں شاپنگ بھی ھوتی ھے اور ٹٹول ٹتول کی چیزیں خریدی جاتی ھیں یوں دنیا کے بھی مزے لئے جا رھے ھیں اور دینداری کا دعوی بھی ساتھ ساتھ چل رھا ھے ،،
وَقَالُوا مَالِ لِهَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا (الفرقان-7)
یہ کیسے انوکھے رسول ھیں کھانا بھی کھاتے ھیں اور بازاروں میں پھرتے ھیں ؟
اللہ پاک نے اس کے جواب میں فرمایا کہ پہلے رسول بھی شادیوں سمیت یہ سارے کام کرتے تھے-
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا( الفرقان -20)
آپ سے پہلے مرسلین بھی کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی پھرتے تھے ، اور ھم نے تمہیں ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ھے ، کیا تم صبر کے ساتھ اس کا سامنا نہیں کرو گے اور آپ کا رب سب دیکھ رھا ھے ،،
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ (الرعد -38)
اور ھم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے اور ان کو بیویاں اور بچے بھی دیئے اور کوئی رسول خود سے معجزہ نہیں دکھا سکتا تھا ، ھر اجل لکھی ھوئی موجود ھے ،،
اسلام لوگوں کو غاروں سے بازاروں میں لایا ھے تا کہ لوگ نیک لوگوں کی نیکی سے مستفید ھوں اور ان کو دیانتدار تاجر میسر ھو ، عادل قاضی میسر ھوں ، شفیق استاد دستیاب ھوں اور رحیم و کریم پڑوسی نصیب ھوں ، جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ، نیک غاروں میں ھی مر گئے تو انسانیت کا کیا فائدہ ؟
اس لئے رسول اللہ ﷺ نے خطبہ تبوک میں فرمایا کہ ” خیر الھَدیِ مَا اتُبِعَ ” بہترین اسوہ وھی ھے جس کو پریکٹس بھی کیا جا سکے ، جس کی پیروی کی جا سکے ، نہ کہ اس کو چوم چاٹ کر طاق پر رکھ دیا جائے ، لوگ عموماً اپنے اکابر کو بڑا ثابت کرنے کے لئے ان کی وہ صفات بیان کرتے ھیں جو عام انسان کی دسترس سے باھر ھوں اور لوگ عش عش کر کے ان کے اکابر کی جوتیاں چاٹیں ،، فلاں نے 40 سال عشاء کے وضو سے فجر پڑھی ھے ،، حالانکہ یہ لوگ علماء ہیں اور ان کی نظر سے یہ بات اوجھل نہیں ھو گی کہ اللہ کے رسولﷺ نے ساری رات جاگنے کو تقوے کی نشانی قرار نہیں دیا بلکہ اس کی مذمت کی ھے ،،
جب تین صحابہؓ نے ام المومنینؓ سے نبئ کریم ﷺ کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا تو آپؓ نے فرمایا کہ آپ رات کا کچھ حصہ آرام فرماتے تھے اور کچھ میں عبادت کیا کرتے تھے ، اس پر ایک صاحبؓ کہنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ تو خیر رسول ھیں گناھوں سے پاک ھیں ، انہیں تو اتنی عبادت بھی کافی ھے ، جبکہ میں تو ساری رات عبادت کرونگا ،، دوسرے نے کہا کہ میں زندگی بھر شادی نہیں کرونگا اور تیسرے نے کہا کہ میں ساری زندگی مسلسل روزے رکھونگا ،،
جب اللہ کے رسول ﷺ تشریف لائے تو ام المومنینؓ نے آپ ﷺ سے ان اصحاب اور ان کے عہد کا ذکر کیا ، جس پر آپ ﷺ نے ان کو بلایا اور تصدیق کہ کہ کیا ان لوگوں نے ایسا ایسا کہا ھے ؟ اثبات میں جواب ملنے پر رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کا تقوی رکھنے والا ھوں اس کے باوجود میں رات کو سوتا بھی ھوں اور عبادت بھی کرتا ھوں ، نفلی روزے رکھتا ھوں تو درمیان میں وقفہ بھی کرتا ھوں ، اور میں نے شادیاں بھی کی ھیں ، نکاح میری سنت ھے اور جس نے میری سنت کو ناپسند کیا وہ میری امت میں سے نہیں یا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ،،
پھر یہ سوال اٹھانا کہ شادی کرنا افضل ھے یا مجرد رھنا ؟ بہت بڑی جرأت کی بات ھے ،لوگ اپنے بزرگوں کے اقوال کی تاویل کر کے ھر صورت ان کو حق پر ثابت کرنا چاھتے ھیں اور نبئ کریم ﷺ کی تکذیب اور مقابلہ کرنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے ، اللہ کے بندو افضل وھی ھے جس کو نبئ کریم ﷺ نے اختیار فرمایا ھے اور عمل کر کے اس کو امت کے لئے سنت بنا دیا ھے ، اور جس کا واضح حکم اللہ پاک نے قرآن میں دیا ھے ، اب یہ سوال اٹھانا کہ نبئ کریم ﷺ کا عمل افضل ھے یا آپ کے مرشد کا قول اور عمل؟ یہ توھین رسالت کے سوا کچھ نہیں ،، آپ کے مرشد کے بارے میں صرف ایک جملہ لکھ دیا جائے کہ ان کا کام بس تصوف کے میدان میں تھا آپ کو غضبناک کر دیتا ھے ،جبکہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں اپنے اقوال و اعمال کو اعلی و افضل کہنے والوں کو آپ سر پہ بٹھاتے ھیں ،، ؎
"ھوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ھے تصویریں ”
پھر سوال اٹھاتے ھیں کہ نبوت افضل ھے یا ولایت ،،،
اور بڑی جرأت سے کہتے ھیں کہ ولایت افضل ھے کیونکہ نبوت کا رخ انسانوں کی طرف ھوتا ھے اور ولایت کا رخ خدا کی طرف ،،
سبحانک ھذا بھتان عظیم ،،
نبوت کا رخ اللہ کی طرف ھوتا ھے ،جسے اللہ پاک انسانوں کی طرف موڑ دیتا ھے اور رسولﷺ اللہ سے لے کر انسانوں کو دیتا ھے ، طرفہ بیداللہ اور طرفہ بایدیکم ،، نبی کا ایک ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا ہاتھ امت کے ہاتھ میں ھوتا ھے یوں ان کی نورانیت اللہ سے کلام کو اخذ کرتی ھے اور ان کی بشریت اسے انسانوں کو سناتی اور عمل کر کے دکھاتی ھے ،، نبی ﷺ کے لائے ھوئے کو چھوڑ کر کوئی ولی نہیں بن سکتا ،،
خیر لوگ اپنے اپنے مزعومہ تصورِ تقدیس کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر کے سمجھتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عائلی زندگی آپ ﷺ کے شایانِ شان نہیں ھے لہذا اس کا تذکرہ نہ کیا جائے ،، سبحان اللہ – نبی کسی کے تھوپے گئے پیمانے کا پابند نہیں ھوتا بلکہ وہ تو خود معیارِ حق اور پیمانے طے کرنے والا ھوتا ھے ، ان کا عمل ھی پیمانہ بنتا ھے ،
دور مت جایئے ذرا اپنے اعتکاف کے پیمانے کو ھی دیکھ لیجئے ،اعتکاف کے بارے میں جو ھمارا تصور ھے اور جس پر تقریباً سارے اعتکاف والے عمل کرتے ھیں وہ نبئ کریم ﷺ سے زیادہ ھندو پنڈت کے جاپ منڈل سے زیادہ مماثل و قریب ھے ، جس میں جاپ کی بجائے کوئی بات منہ سے نکل جائے تو جاپ اسپھل ھو جاتا ھے ، کسی سے بات نہیں کرنی ، ضرورت کے لئے مسجد سے نکلے تو منہ سر لپیٹ کر نکلے نہ کسی کو سلام کلام کرے اور نہ سلام کا جواب دے ،اگر دینا ھے تو دل میں دے ، اگر گھر والوں سے کوئی چیز منگوانی ھے یا کوئی ڈش پکوانی ھے تو پرچی پر ” بھنڈیاں ” لکھ کر کھڑکی سے باھر پھینک دے ،وغیرہ وغیرہ ،،
جبکہ اللہ کے رسول ﷺ سے ان کی ازواج اعتکاف کے دوران ملنے بھی تشریف لاتی تھیں اور حال احوال سے آگاہ ھو کر جاتی تھیں آپس میں ضروری بات چیت بھی ھوتی تھی اور اللہ کے رسول ﷺ ان کو حجرے تک واپس چھوڑنے بھی جاتے تھے ،، اس کے علاوہ آپ ﷺ اعتکاف کے دوران لوگوں کو دین کے مسائل بھی بتاتے رھتے تھے جیسا کہ حضرت صفیہؓ کے واقعے میں ھوا ،،
نبئ کریم ﷺ کے اسوئے کا قابلِ عمل ھونا عیب نہیں خوبی ھے اور زندگی کے ھر شعبے میں آپ ﷺ کے نقشِ قدم کا پایا جانا آپ کی ختم رسالت کی شان ھے کہ اب مزید کسی شعبے کے لئے کسی نبی کی کوئی ضرورت نہیں ،،
===================================================================
#۱سلام #قرآن #قاری حنیف ڈآر