اسلام اور مظلومیت

اسلام کی طاقت اس کی مظلومیت ھے ، اس کا ظلم نہیں –
اسلام کی شروعات ھی مظلومیت بھری ھے ، جوں جوں یہ مظلومیت کی بھٹی میں جل رھا تھا سلیم الفطرت لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آ رھے تھے ، وہ اس آگ میں جلتے لوگوں سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ ان کے ساتھ جلے بغیر وہ سکون نہیں پاتے تھے ، وہ اس درد کو اپنے اندر سمو لینا چاھتے تھے، یہ انسان کی فطرت ھے ،لبنان میں جب شیعہ ملیشیا امل نے فلسطینی کیمپوں کا محاصرہ کیا تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگوں نے کتے اور بلیاں کھانا شروع کر دیئے اور اس کے ساتھ ریڈ کراس کے کارکن جو یورپ کے ممالک کے شہری تھے ، انہوں نے اپنے اپنے ممالک کی جانب سے اخراج کی تمام اپیلوں کو مسترد کر کے ان فلسطینی مظلوموں کے ساتھ کتے اور بلیاں کھا کر جینے کا عزم کر لیا ،نوبت اینجا رسید کہ کتے بلیاں ختم ھو گئے تو لوگوں نے مسئلہ پوچھا کہ کیا وہ جینے کے لئے اپنے عزیزوں کی لاشیں کھا سکتے ھیں جس پر انہیں شیعہ لیڈر محمد حسین فضل اللہ نے فتوی دیا کہ ھاں جائز ھے کھا سکتے ھو مگر محاصرہ پھر بھی نہ اٹھایا گیا ،،
عیسائیت اپنی مظلومیت کی وجہ سے پھیلی ھے نہ کہ ظلم کی وجہ سے ،ظلم نے عیسائیت کو چرچ میں محصور کر دیا ھے ،امتوں میں عیسائیت سب سے زیادہ ظلم کا شکار ھوئی ھے ،ھم جب ظلم کا بدلہ ظلم سے دے کر ظالموں کی صف میں شامل ھو جاتے ھیں تو ھمارے نفس کی تو تسکین ھو جاتی ھے کہ چلو ھم نے بھی تو اتنے مار لیئے مگر اسلام اپنی جنگ ھار جاتا ھے ،دل ظلم سے نہیں مظلومیت سے جیتے جا سکتے ھیں ،،
آپ کو اچھی طرح تجربہ ھو گا کہ جب تک والد ظلم کرنے کی پوزیشن میں ھوتا ھے زھر لگتا ھے ،مگر جب وھی والد فالج کے بعد بچے کی طرح لڑکھراتا چلتا ھے تو کتنا اچھا اور نورانی چہرے والا فرشتہ لگتا ھے ،انسان اپنا گوشت بھی کاٹ کر اسے کھلانے پہ تیار ھو جاتا ھے ،، جبکہ کل تک وھی ھمیں قصائی لگتا تھا ،،،،،،،،،
مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آرھا ھے ، باھر کھیتوں میں لوگ فصلیں کاٹ رھے تھے ، میں کوئی دس بارہ سال کا تھا ،، ایک لڑکے کے پیچھے اس کا باپ بکتا جھکتا دوڑ رھا تھا جبکہ لڑکا بھی بھاگ کر جان بچانے کی تگ و دو کر رھا تھا ، اچانک باپ لڑکھڑانا شروع ھو گیا ، بیٹے نے جو بار بار مڑ کر فاصلے کا اندازہ لگا رھا تھا جب باپ کو لڑکھڑاتے دیکھا تو پہلے تو وہ رک گیا پھر باپ کی طرف واپس مڑا اور تیزی کے ساتھ والد کی طرف لپکا ،مگر سب سے دلچسپ پات اس کے الفاظ تھے ، وہ باپ کو کہہ رھا تھا ” آپ کو اپنی صحت کا پتہ ھے ناں ، کیا ضرورت تھی سب لوگوں کے سامنے میرے پیچھے دوڑنے اور گالیاں دینے کی ، میں نے بھاگ تو نہیں جانا تھا ،گھر ھی آنا تھا ناں ، وھاں جی بھر کر مار لیتے ،،
ساتھ ساتھ اس نے اپنا جوتا اتار کر ھاتھ میں لے لیا اور باپ کو ہکڑ کر بٹھایا ،پھر اپنا جوتا اس کے ھاتھ میں دیا اور بولا ،اچھا اچھا مار لیں اور غصہ چھوڑ دیں ، اپنی حالت دیکھیں غصے میں کیا کر لی ھے ،وہ اپنا سر باپ کے آگے رکھے بیٹھا تھا مگر باپ سے جوتی بھی نہیں سنبھالی جا رھی تھی ، بیٹا اس کا ھاتھ جوتی سمیت پکڑ کر اپنے سر میں مار رھا تھا کہ شاید اس طرح ابا کا بلڈ پریشر کم ھو جائے مگر شاید باپ کو اسٹروک ھو گیا تھا ، بیٹے نے شور کر کے دوسروں کو بھی بلا لیا اورباپ کا سینہ ملنے لگا ، لوگ پانی لائے اور اس کے باپ کو پلانے کی کوشش کرنے لگے ،،
میں صرف یہ بتانا چاھتا ھوں کہ باپ پر ترس آتے ھی بیٹے نے خود کو مار کے لئے پیش کر دیا ،، جونہی باپ ظالم سے مظلوم میں تبدیل ھوا سامنے والے فریق کا رد عمل بھی تبدیل ھو گیا،،
ایک دوست لکھتے ھیں کہ میں تین سال سے آپ کا پیچھا کر رھا ھوں ، کبھی کمنٹ نہیں کیا کیونکہ آپ بلاک کے بارے میں کافی مشہور ھین ، میں ملحدین میں شامل تھا پھر ایک دن آپ کا ایک کمنٹ پڑھا تو آپ کے پیچھے چلا آیا کہ دیکھیں مولوی صاحب کیا بیچتے ھیں ، آپکی پوسٹیں میں پڑھتا تھا ،کچھ سمجھ میں آتی تھیں تو کچھ پہ ھنستا تھا ، آئستہ آئستہ آپ ھر جگہ زیرِ بحث آنے لگے ،ھمارے یہاں بھی آپ کے چرچے بڑھ گئے اور خود اپنوں میں بھی آپ کی مخالفت بڑھتی جا رھی تھی ، ھر دوسرے اکاؤنٹ پر آپ زیر بحث ھوتے ، فتوے لگتے تمسخر ھوتا منصوبے بنتے اور آپ ولن بنا دیئے گئے ،مگر عجیب بات یہ تھی کہ میں جب آپ کی وال پر آتا کہ مولوی صاحب کیا رد عمل دیتے ھیں تو پتہ چلتا کہ یہاں تو راوی چین ھی چین لکھتا ھے گویا دنیا میں اور کچھ ھو ھی نہیں رھا ،، کسی کی ذات ،کسی کے الزام کو اپنی وال پر زیرِ بحث نہ لانا اور اپنی بات یکسوئی سے کیئے چلے جانا ،،،
اب مجھے آپ پر ترس آنا شروع ھو گیا تھا ،یار یہ بندہ کس قدر نشانہ بن رھا ھے مگر کسی کو بھی جواب دینے کی بجائے اپنی بات کیئے چلا جا رھا ھے ، ھمارے یہاں یہ بات اب زور پکڑ رھی تھی کہ قاری کے مخالف جلد یا بدیر اسے دھکیل کر ھمارے پاس لے آئیں گے اور یہ بھی جعلی آئی ڈی بنا کر ھمارے ساتھ شامل ھو جائے گا مگر مجھے اس بات سے تکلیف ھوتی تھی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب سے مجھے آپ سے ھمدردی ھوئ آپ کی بات بھی میری سمجھ میں آنا شروع ھو گئ تھی ،جن باتوں کو پہلے میں ھنسی میں اڑا دیتا تھا اب ان پر غور کرنا شروع کر دیا تھا اور میرے ستر فیصد اشکالات آپ کی تحریروں سے حل ھو گئے تھے لہذا اب میرا جھکاؤ الحاد کی نسبت اسلام کی طرف زیادہ تھا ،، اب الحمد للہ میں نے اپنے سابقہ موقف سے توبہ کر لی ھے ، اپنی سابقہ فیک آئ ڈی ختم کر کے اصلی نام سے بنانے لگا ھوں اسی لئے آپ کو اپنے اصلی نام سے یہ تحریر لکھ رھا ھوں تا کہ آپ مجھے میرے نام سے ایڈ کر لیں ،لیکن یاد رکھیں مجھے آپ کی طرف ترس اور ھمدردی کا جذبہ لے کر آیا ھے ،، یہ آپ کا بہت بڑا ہتھیار ھے ،، اسی پالیسی کو جاری رکھئے ،،،
دی میسج فلم نے جہاں متشددین کو غصے میں پاگل کر دیا تھا وھیں دنیا میں اسلام کے لئے نئ راہیں کھول دی تھیں ،، مکی مسلمانوں پر مظالم کی عملی تصویریں دیکھ کر عالمِ عیسائیت میں اسلام کے بارے میں صدیوں کا وہ کانسیپٹ نمک کی طرح گھل گیا تھا کہ یہ ایک خونخوار اور استبدادی دین ھے ،، عیسائیوں نے اس کو اپنے ماضی کی مظلومیت سے مشابہ جانا اور دھڑا دھڑ مسلمان ھونا شروع ھو گئے،، ھم اگر یہ سمجھتے ھیں کہ ھم دنیا پر ایٹم بم مار کر اور فلاں فلاں ملک کو صفحہ ھستی سے مٹا کر ،اسلام کی خدمت کریں گے تو یقیناً یہ ایک فریب اور مغالطہ ھے ،مٹے ھوئے ملک پھر بن جاتے ھیں ، جاپان کی مثال آپ کے سامنے ھے ،مگر سینوں پہ لگے گھاؤ کبھی نہیں بھرتے ،، اسلام شروع سے مظلوم ھے ، اسے مظلوم ھی رھنے دیجئے ظالموں کی صف میں مت لائیے ،