گفتگو کے کنائے اور صریح عبارات ،،،،

ھمارے یہاں روزمرہ گفتگو میں مختلف کنائے استعمال کیئے جاتے ھیں جن کو کہنے والے کی نیت پہ چھوڑ دیا جاتا ھے ،مثلاً میرے گھر سے دفع ھو جاؤ ، ماں باپ کے گھر دفع ھو جاؤ ، میری جان چھوڑو ، پکی پکی چلی جاؤ،، اب گئ تو پکی پکی جاؤ گی ،، میری طرف سے اپنے آپ کو فارغ ھی سمجھو ،، یہ تمام کنائے ھیں مگر ان پر طلاق کا حکم نہیں لگایا جاتا ، بلکہ صاحب قول سے پوچھا جاتا ھے کہ اس کی مراد کیا ھے ؟
اس کے برعکس جب کوئی لفظ طلاق بول دے تو پھر قسم بھی کھائے کہ اس کی مراد یا اس کی نیت طلاق نہیں تھی تو اس کی قسم کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ قولِ صریح کے مطابق طلاق کے نفاذ کا حکم لگایا جاتا ھے کیونکہ شریعت قول کے تابع ھے ، نیت معلوم کرنا نہ اس کے بس میں ھے اور نہ وہ سماجی معاملات میں نیتوں پہ انحصار کرتی ھے ،،
اگر کوئی یہ کہتا ھے کہ ،، اللہ نے میرے دل میں خیال ڈالا کہ یہ کاروبار ٹھیک رھے گا ،، اللہ نے دل میں خیال ڈالا کہ ان لوگوں سے رشتہ داری ٹھیک رھے گی ،، یونہی اللہ کی طرف سے خیال آیا کہ آج اس رستے سے دبئ چلتے ھیں ،، اللہ نے دل میں ڈالا کہ قرآن کی تفسیر کی جائے ، اللہ کی طرف سے دل میں آیا کہ حدیث کی شرح لکھی جائے اللہ کی طرف سے خیال آیا کہ آج امی سے فون پہ بات کر لیں ،، یہ تمام اقوال ھم روز کسی نہ کسی سے ضرور سنتے ھیں ،، نہ کہنے والے کی مراد اس سے ” اصطلاحی وحی ” ھوتی ھے ، نہ اسے گمان ھوتا ھے کہ وہ نبی ھے اور نہ ھی سننے والا اس کو اصطلاحی وحی سمجھتا ھے اور نہ کہنے والے کو وہ نبی سمجھتا ھے کیونکہ خود وہ بھی اسی قسم کے کلمات کہتا رھتا ھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
موسی علیہ السلام کی والدہ کے پاس جبرائیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں ” اصطلاحی وحی ” لے کر نہیں آئے تھے اور نہ وہ نبی بن گئ تھیں ، نہ انہوں نے نبوت کا دعوی کیا اور نہ ھی آج تک کسی نے ان کو سمجھا ،،حالانکہ قرآن بار بار ان الفاظ کو دھراتا ھے ،، اذ اوحینا الی امک ما یوحی ،،،، فاوحینا الی ام موسی ”’ یہاں بھی وحی سے مراد دل میں خیال ڈالنا ھے ،،، اسی طرح حواریوں کو وحی کرنا ان کو رسول بنانا نہیں ھے بلکہ دل میں خیال ڈالنے کے معنوں میں ھے کہ یاد کر وہ نعمت جب ھم نے حواریین کے دل میں خیال ڈالا کہ وہ مجھ پر میرے رسول پر ایمان لائیں” و اذ اوحیت الی الحوارین ان امنوا بی برسولی ” شھد کی مکھی کے بارے میں اللہ پاک نے انہی معنوں میں وحی کا لفظ استعمال فرمایا ھے ،،” و اوحی ربک الی النحل ” تیرے رب نے شھد کی مکھی کے دل میں ڈالا کہ وہ پہاڑوں میں اور درختوں پر نیز ھر اونچی جگہ پہ چھتہ لگائے ، پھر پھلوں میں سے رس چوسے ،،،،،،،،،،،،،
شیاطین انسانوں اور جنوں کے بارے میں بھی لفظ وحی خیال ڈالنے کے معنوں میں استعمال فرمایا نہ کہ فرشتے کے ذریعے بھیج گئ وحی ” یوحون الی اولیائھم زخرف القول ” اپنے دوستوں کے دل میں ملمع کی ھوئی بمعنی پرکشش بنا کر کوئی اسکیم ڈال دیتے ھیں ،
صوفیاء کے اقوال کو بھی انہی معنوں میں لیا جاتا ھے ، اس کی وجہ سے یہ ھے کہ انہوں نے کبھی بھی اس موضوع کو بنیاد بنا کر اپنی بات منوانے ،، یا اس وحی یا الھام کی بنیاد پر کوئی جماعت کھڑی کرنے یا مناظرے بازی کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ھی اپنے اقوال و الھام کے منکروں کو کافر قرار دینے کی بات کی بلکہ خود آگے بڑھ کر یہ عذر پیش کیا کہ ھماری بات عام مسلمان کی سمجھ میں نہیں لگے گی ،،
احادیث میں کثرت یہ یہ بات نقل ھوئی ھے کہ انسانوں کے دل اللہ پاک کے ھاتھ میں ھیں جس طرح چاھتا ھے تصرف فرماتا ھے اور الٹتا پلٹتا رھتا ھے ،یہی بات ھمارے اقوال میں یوں ظاھر ھوتی ھے کہ اللہ نے خیال ڈالا ،،،
چنانچہ صوفیاء کے اقوال کو غلام احمد کے دعوئ نبوت کے ساتھ تشبیہہ دینا ایک خود فریبی ھے ، اس نبوت کے بارے میں مسلسل مناظرے ، لوگوں کو اپنی نبوت پہ ایمان لانے کی پر زور دعوت اور پھر اپنی نبوت کے منکروں پہ کفر کا اطلاق کرنا ، کسی صورت مسیلمہ کذاب اور دیگر مدعیانِ نبوت سے کم نہیں ھے ،جن سے اصحابِ رسول رضوان اللہ علیہھم اجمعین نے قتال کیا ،، قومی اسمبلی میں یحی بختیار نے جو مقدمہ پیش کیا اور جس پر اخری لمحے تک بحث ھوتی رھی وہ یہی تو تھا کہ قادیانی ھم منکرین غلام احمد کو بھی مسلمان سمجھ لیں ، جبکہ اسمبلی میں موجود قادیانی قیادت کسی کمپرومائز پہ تیار نہیں تھی ،، انہیں اپنے بین الاقوامی اثر و رسوخ ،، سر ظفراللہ خان کی طرف سے ملک سے باھر سفراء اور دیگر سفارت کاروں نیز وزارتِ خارجہ کو قادیانی افسروں کی طرف سے بھر دینے ،فوج اور خاص طور پر ائیر فورس میں موجود اپنے افسروں جن میں فضائیہ کے کئ چیف بھی شامل رھے ھیں ، نیز سیکولر پارٹیوں کی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر زعم تھا کہ یہ ملک ان کی مٹھی میں آیا ھی چاھتا ھے ،، جبکہ اب اسمبلی کے سامنے تیسرا کوئی رستہ نہیں تھا کہ وہ یا تو مسلم اکثریت کو کافر ڈکلیئر کر دے یا قادیانی اقلیت کو بیک بینی و دو گوش اسلام سے نکال باھر کرے ،،،،،،،،،
غلام احمد قادیانی کے کفر کا دفاع کرنا ایک ھاری ھوئی جنگ جیتنے کی سعئ نامشکور ھے ،، جسے مسلم ضمیر کبھی قبول نہیں کرے گا ،،،،،،