کیا اب سوچنا منع ھے؟

ایک دفعہ کا ذکر ھے کہ،،
نہ امام مالکؒ ھوتے تھے نہ ان کے اصولِ فقہ ،،،
نہ امام ابو حنیفہؒ ھوتے تھے نہ ان کے اصولِ فقہ ،،،،
نہ امام شافعی ھوتے تھے اور نہ ان کے اصولِ فقہ ،،
نہ امام احمد ھوتے تھے اور نہ ان کے اصولِ فقہ ،،
نہ امام بخاری ھوتے تھے اور نہ ان کے اصولِ حدیث ،،
امام مسلم ھوتے تھے اور نہ ان کے اصولِ حدیث ،،،
نہ امام نسائی ھوتے تھے اور نہ ان کے اصولِ حدیث ،،،
نہ امام ترمذی ھوتے تھے اور نہ ان کے اصولِ حدیث ،،
نہ ابن ماجہ ھوتے تھے اور نہ ان کے اصولِ حدیث ،،
نہ امام ابوداؤد ھوتے تھے اور نہ ان کے اصولِ حدیث ،،
نہ عبدالرزاق صنعانی تھے اور نہ ان کے اصولِ حدیث ،،
نہ امام غزالی ھوتے تھے اور نہ ان کے فلسفے ،،،
نہ امام رازی ھوتے تھے اور نہ ان کی تفسیر ،،
اور دین تب بھی مکمل تھا ،،
ھے ناں تعجب کی بات ؟
بھلا لوگ نمازیں کیسے پڑھتے ھونگے ؟
اس وقت کے لوگ ھاتھ کہاں باندھتے ھوں گے ؟
یا باندھتے ھی نہیں ھونگے کہ کوئی آئے اور طے کرے کہ وہ ھاتھ کہاں باندھیں ،،
لوگوں کے یہاں شادیاں بیاہ اور موت و جنازے بھی ھو رھے تھے ،،
پتہ نہیں یہ سب کچھ لوگ کسی امام کا ریفرینس دیئے بغیر کیسے کر لیتے ھوں گے ،،
کپڑے اس وقت بھی پلید ھوتے تھے اور لوگ بھی پلید ھو جاتے ھونگے کیونکہ اس وقت کے لوگوں کو بھی جنابت تو لاحق ھوتی ھو گی ،،
اب کس فقہ کے ریفرینس سے پاک ھوتے ھوں گے یہ بھی ایک قابلِ تحقیق مسئلہ ھے ،،
سب سے بڑا سوال یہ ھے کہ اماموں اور صحاح ستہ کے بغیر دین کو جس نے مکمل کہا ھو گا اس پہ فتوی کیا لگا ھو گا ؟
کیونکہ فتوے کے لئے بھی تو کوئی مثل موجود ھونی چاھئے ، مثلاً وھابی، پرویزی،نیچری ، غامدی، مودودی وغیرہ وغیرہ ،،
نیز جب لوگ کتاب و سنت کہتے ھوں گے تو ” سنت ” سے ان کا دھیان کس کتاب کی طرف جاتا ھو گا ؟ کیونکہ آج کل تو دھیان صحاح ستہ کی طرف جاتا ھے ،، کیا سنت بھی کوئی کتاب تھی یا قرآن کے احکامات پر عملی طور پر چلنے کو سنت کہتے تھے ؟
کیا دین کی تکمیل ،،ضروریاتِ دین کی بھی تکمیل تھی ؟
کیا اسلاف کے تمام ائمہ و مجتہدین نے دین کی ضروریات کا احاطہ کر کے قیامت تک کے لئے اپنی کتابوں میں محفوظ کر دیا ھے ؟
اتنے سست زمانے میں کہ جب 72 کلومیٹر تین دن رات میں طے ھوتا تھا دین کی ضروریات اتنی زیادہ تھیں کہ کتابوں کے پہاڑ کھڑے کرنے پڑے ،، پھر بعد والوں نے اس پر شرحیں لکھ لکھ کر لائبریریاں بھر ڈالیں ،،
اور پھر سوپر سونک دور شروع ھوتا ھے ،دنیا پہلے عالم سے گاؤں میں اور پھر گاؤں سے محلے میں تبدیل ھو جاتی ھے ،صرف ایک کلک اور بندہ نیویارک ، ٹرانٹو ،لنڈن اور ملبورن میں ھوتا ھے ،،
پھر اچانک دین کو فالج کس طرح ھو گیا کہ وہ ضروریات سے بے نیاز ھو گیا بس اس کو سابقہ ائمہ و مجتہدین کا فیڈر پلا کر محدثین کے اصولوں کا پیمپر باندھ کر جھلنگے میں ڈال دیا گیا ھے کہ اب کوئی مائی کا لعل اس کی ضروریات کا استقصا نہ کرے ،،، اگر اسی پر بریک لگانا تھا تو صحابہؓ پر ھی بریک لگا دیتے کہ وہ انسانیت میں سے منتخب کردہ لوگ تھے جن کو اللہ نے اپنے رسولﷺ کی صحبت کے لئے چنا تھا اور ان کی نشانیاں سابقہ کتب میں بیان کی تھیں ،،؟
انسان مسلسل آ رھے ھیں ،زمانے کو پر لگ گئے ھیں ،کیا آج کل پیدا ھونے والے ذھنی معذور ھیں جو اپنے زمانے میں دین کی ضرورتوں سے نابلد ھیں ؟ کیا ھمارے حصے کا سوچنا ھماری ذمہ داری نہیں ؟ یا ھمارے لئے پچھلی صدیوں والے سوچ گئے ھیں ؟ کیا صحابہؓ نے ائمہ اربعہ کے حصے کی سوچ سوچی تھی ؟ کیا صحابہؓ کا ویژن ائمہ کے ویژن سے کم تھا ؟ اگر صحابہؓ اپنے سے سو سال بعد کے مسائل کا ادراک نہیں کر پائے تو ائمہ کے پاس کونسا ریڈار تھا جس کے ذریعے انہوں نے امت کے قیامت تک کے مسائل کا احاطہ کر لیا تھا ،،؟؟
چلیں اتنا مت سوچیں پہلے ھی گرمی کے لمبے روزے ھیں ،