تمام مسلمانوں کو اگر ان کی نیکی کے صدقے اللہ پاک تبلیغی جماعت والوں جتنا کھُلا دل عطا فرما دے تو ان کا بیڑہ پار ھو جائے –
سارے علماء اگر مولانا طارق جمیل جیسے وسیع المشرب قلب سے نواز دیئے جائیں تو اس امت کے آدھے مسائل ایک دن میں ختم ھو سکتے ھیں ،،،،،،،،،،،،،
مگر یہ عطا کچھ صفتوں کا تقاضہ کرتی ھے –
1- اپنی انا کی قربانی ، میں کا خاتمہ ،،، مکمل عاجزی –
2- اس امت کا درد-
3- نبئ کریم ﷺ کی ختم نبوت کے صدقے اپنا احساسِ ذمہ داری کہ اب اس دین کی عزت و عصمت ، دعوت و تبلیغ ،، اس کی اصلاح کا کام ھم مسلمانوں کے ذمے ھے ، ھم جیسے بھی ھیں کام ھم نے ھی کرنا ھے ،،،،،،،،
عام طور پر اصحابِ تبلیغ کو شھروں میں کام کرتے دیکھ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ھے ، بالکل اسی طرح جیسے کوئی ایم اے پاس شخص کچی اور پکی کلاس کے اساتذہ اور طالبِ عملوں پر اعتراض کرے کہ دنیا چاند پر پہچ گر مریخ کی جانب رواں دواں ھے اور یہ لوگ ابھی تک اک دونی دونی دو دونی چار پر ھی لگے ھوئے ھیں،، اور یہ بھُول جائے کہ کل تک اس کی تعلیم کی ابتدا بھی اک دونی دونی سے ھوئی تھی اور قیامت تک دنیا کی تعلیم کی ابتدا ،، اک دونی دونی سے ھی شروع ھو گی ،،
تبلیغ والوں کا دیکھنے کا کام دیہات اور ڈھوکوں اور جھوکوں میں ھے ،جہاں انہیں میلوں کے حساب سے پیدل چلنا ھوتا ھے ، ان پیدل چلنے والوں میں وہ امریکی ،برطانوی نژاد بھی ھوتے ھیں ،جن کے پاس برطانیہ اور امریکہ میں جدید ترین مہنگی گاڑیاں ھوتی ھیں ، پیدل چلنا ان کی عادت نہیں ھوتی مگر وہ خیر البشر ﷺ کی سنت سمجھ کر چل رھے ھوتے ھیں ،، بریلویوں کی مساجد میں ان کی تشکیل ھوتی ھے ،سامان بار بار اٹھا کر باھر پھینکا جاتا ھے ، انہیں کافر کہا جاتا ھے ،مگر وہ بار بار اس مسجد میں سامان رکھ لیتے ھیں ، اس امام کے پیچھے نماز پڑھتے ھیں اور دھراتے بھی نہیں ھیں ، فتوے کا جواب فتوے سے نہیں دیتے ،،، ان مسجد والوں میں کوئی نہ کوئی ایسا انسان بھی ھوتا ھے جس کے دل میں انسانیت کی رمق باقی ھوتی ھے ، جو ان کی اس عاجزی کو دیکھ کر مسجد والوں کو ان کی بات سننے پر آمادہ کر لیتا ھے ،، بات میں وہ کسی کو مشرک اور کافر نہیں کہتے ، انہیں اپنے سے اچھا مسلمان کہتے ھیں ، نبی پاک ﷺ کا امتی کہہ کر انہیں بتاتے ھیں کہ وہ ان کے پاس مدد لینے آئے ھیں کہ دنیا جھنم کی طرف جاری ھے اور یہ آپ کے نبی ﷺ کی ذمہ داری تھی کہ وہ دنیا کو سیدھی راہ دکھائیں ، آج یہ ذمہ داری نبئ پاک کے امتی کی حیثیت سے ھماری بن گئ ھے ،،
دل سے جو بات نکلتی ھے اثر رکھتی ھے !
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ھے ،،،،،،،، !
ھونا تو یہ چاھیئے تھا کہ سوشل میڈیا پر بھی وھی رویہ اپنایا جانا چاھئے تھا جو تبلیغی حضرات مساجد میں اپناتے ھیں ، تا کہ مسجد میں ان کا کام آسان ھو جاتا ،خصوصاً جب کہ دیوبندی ، بریلوی عقائد میں بس 19/20 کا فرق ھے ، اور دونوں کی فقہ بھی ایک ھے ، اور دونوں سلاسلِ اربعہ میں ایک ھی قسم کے اکابر کے تابع ھیں ،، قبروں سے استفادہ دونوں کرتے ھیں اور مختلف اوراد اپنے بزرگوں کو ھدیہ کر کے انہیں متحرک کر کے ان سے مدد کا دعوی بھی کرتے ھیں ،، فرق صرف عرس اور بھنگڑے کا ھے ، اگر یہ کشادہ دلی سے باقی پر اتفاق کر لیں تو ناچ گانے ،چرس گھانجے والوں کے خلاف مل کر کام کر سکتے ھیں ،،،،،،، جس طرح سہ روزے کے دوران اپنے اکابر کی تحریروں سے اعلانِ برأت کرتے ھیں کہ "جناب جنہوں نے جو لکھا وہ رب کے حضور حاضر ھو گئے ھیں اور اپنے لکھے کے وہ خود ذمہ دار ھیں اور خود ھی جوابدھی کریں گے ، اگر آپ ھم سے اس قسم کے الفاظ سنیں تو ضرور ھم پر اعتراض کریں ” اسی طرح سوشل میڈیا پہ بھی کریں ،، دیوبندی بریلوی تفرقہ عقائد کا نہیں چند حضرات کی تحریروں کے سوءِ تعبیر سے ھے ،، اور چند حضرات کی خاطر پورے تبلیغی ڈھانچے کو مسمار نہیں کیا جا سکتا ،،، اس کام کی خاطر نبئ کریم ﷺ نے اپنے ھاتھ سے محمد رسول اللہ مٹا کر محمد بن عبداللہ اگر لکھایا تھا تو اللہ کے رسول ﷺ سے بڑھ کر نہ کوئی معزز و معصوم ھے اور نہ اس کا دفاع کرنے کی خاطر دین کا نقصان کیا جا سکتا ھے ،، میں نے جب بھی دیوبندی عقائد پر بات کی ھے تو اسی پسِ منظر میں کی ھے کہ ،،کشف و الہام پہ دونوں ایمان رکھتے ھو ،، مردوں کے ما فوق الاسباب مدد پر دونوں یک ایمان ھو ،، دونوں حیاتی ھو ،، تو تین بزرگوں کی خاطر اپنے درمیان دیوارِ برلن کیوں بنائے بیٹھے ھو ؟
گزارش یہی ھے کہ دیوبندی حضرات سوشل میڈیا پہ نفرتیں بڑھا کر تبیلیغی جماعت کی مشکلات میں اضافے کا سبب نہ بنیں بلکہ مولانا طارق جمیل صاحب کی طرح کشادہ دلی اور وسعتِ مشرب کا سبب سیکھیں ،، جو شیعہ امام بارگاہ میں جا کر بھی خطاب فرما لیتے ھیں