**چہرے کا پردہ عبادت یا عادت !**

**چہرے کا پردہ عبادت یا عادت !**
اللہ پاک نے جو بھی احکامات دیئے ھیں وہ امر کے صیغے میں ھی دیئے ھیں مگر ان میں سے کچھ فرض ھیں تو کچھ مستحب ھیں ،، سورہ بقرہ میں حکم دیا ھے کہ ” وقولوا للناس حسناً و اقیموا الصلوۃ ” اور لوگوں کے ساتھ احسن طریقے سے بات کیا کرو اور نماز قائم کرو ،، یہاں صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں غیر مسلموں کے ساتھ بھی بہترین طریقے سے گفتگو کرنے کا حکم دیا ھے کیونکہ تم اللہ کی نمائندگی کرتے ھو لہذا اچھی گفتگو اچھا تأثر پیدا کرتی ھے جس سے انسان آپ سے مانوس ھوتا ،پھر آپ کا دوست بنتا اور پھر آپ کے خیالات کو اپناتا ھے ،، مگر سب سے زیادہ بدتمیزی کے ساتھ گفتگو ھی مذھبی طبقہ کرتا ھے ،، ملحدین کے پیج پر چلے جاؤ تو ان کی سچی بات پر بھی ان کو ماں بہن کی ننگی گالیاں دیتے ھیں ،، اپنے مسلمان بھائی سے ذرا سا بھی اختلاف ھو جائے تو اسے بھی ماں بہن کی سناتے ،کافر ،مرتد اور ملحد قرار دیتے ھیں گویا اس بارے میں کوئی حکم شریعت نے دیا ھی نہیں ،کتاب اللہ وراء ظھورھم کأنھم لا یعلمون ،، اللہ کی کتاب انہوں نے پشت پیچھے پھینک رکھی ھے جیسے یہ اسے جانتے تک نہیں ، کتاب اللہ کے وہ احکامات جو ان کی قبائیلی زندگی کو سوٹ کرتے ھیں اور ان کی مردانہ فطرت کی تسکین کرتے ھیں ،، وہ مستحب بھی ھوں تو یہ ان کو فرض بنائے بغیر نہیں رھتے مگر جو ان کے اپنے اختیار کردہ تصور کے خلاف ھو وہ فرض بھی ھو تو پسِ پشت چلا جاتا ھے ،، دین کے بھی ھم نے ٹکڑے کر رکھے ھیں اور ” کل حزبٍ بما لدیھم فرحون” کا نقشہ کھینچ رکھا ھے کہ جو ٹکڑا جس کے پاس ھے وھی پورا اسلام اور پوری شریعت ھے ،،،،
جو لوگ پردے کی فرضیت کے قائل نہیں وہ بھی پردے کے مخالف نہیں ، مگر یہ فرضیت سے انکار کو بہانہ بنا کر ان کی مستورات پر بھی زبانین دراز کرتے ھیں ، اور خود کو اسلام کا خادم بھی کہتے ھیں ،، اخلاق کے اسی مظاھرے کی وجہ سے پڑھا لکھا نوجوان ان سے متنفر ھے ،وہ چونکہ انہی کو دین کا نمائندہ سمجھتا ھے لہذا دین سے بھی دور ھوتا جا رھا ھے ،،
آپ کہہ سکتے ھیں کہ پردہ تو پردہ ھے کوئی اس کو مستحب سمجھ کر کرے یا فرض سمجھ کر کرے فرق کیا پڑتا ھے ،،
عرض کروں گا کہ اس میں زمیں آسمان کا فرق ھے، جس طرح نماز میں فرض اور سنن ونوافل ھیں ،وضو میں فرض و سنن ھیں ، اسی طرح دین کے ھر معاملے میں ایک اعلی تر صورت ھے جو لازمی ھے اور ایک ادنی ھے جو آپ کی مرضی پر ھے کریں گے تو اجر پا لیں گے نہیں کریں گے تو نکیر کوئی نہیں کر سکتا اور جبر کوئی نہیں کر سکتا ،، پردہ مستحب ھے جو خاتون بڑی چادر سے اپنے آپ کو لپٹ لتی ھے اگرچہ اس کا چہرہ اور ھاتھ پاؤں نظرآتے ھوں تو وہ شریعت کا حکم پورا کر دیتی ھے ، اگر اس کی مثال دیکھنی ھو تو ایرانی خواتین کو دیکھ لیں چاھے حج پر یا یونیورسٹی اور اسپتال میں یا سڑک پر وہ جس طرح اپنے آپ کو چادر میں لپیٹے ھوتی ھے ، اس کا نام ھے شرعی پردہ یا فرض پردہ ،چہرے کا پردہ مستحب ھے ،،،جس کے دلائل میں ان شاء اللہ اگلی قسط سے شروع کرونگا ،،
جو لوگ چہرے کے پردے کو فرض سمجھتے ھیں ان کی نفسیات میں زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ھے ، وہ اپنے آپ کو ساتویں آسمان پر سمجھتی ھیں اور جس نے چہرہ ننگا رکھا ھوتا ھے اس کو پاتال میں سمجھتی ھیں ،کئ لوگ ننگے چہرے مگر جلباب میں لپٹی عورت کی تصویر لگا کر نیچے کیپشن دیتے ھیں کہ ” یہ پردہ نہیں ھے ” یہ کام زیادہ تر خواتین کرتی ھیں ،،، یہ ھوتا ھے پردے کو فرض سمجھنے کا اثر ،، جبکہ مستحب میں کرنے اور نہ کرنے والا کسی کو نکیر نہیں کر سکتا ،،یہ پسندیدہ ھے ،، جب شریعت چہرے کے پردے کو ” ان شاءت ” اگر وہ کرنا چاھے تو کر لے ،،کہہ کر عورت کی مرضی پر چھوڑتی ھے تو یہ دین کا کام کرنے والے آئستہ آئستہ شارع بن کر ان پر تھوپنا کیوں شروع ھو جاتے ھیں ،، معاشرتی زندگی پر اس سوچ کا دوسرا اور عملی فرق یہ پڑتا ھے کہ ،ایک بچی والدین کے گھر پردہ کرتی ھے ،، اگر والدین کی اطاعت کرتی ھے تو بہت اچھی بات ھے اللہ پاک سے دھرا اجر پائے گی ،، لیکن جب اس کی شادی ھو جاتی ھے اور اس کا سسرال یا شوھر کہتا ھے کہ تم بس چادر لے لیا کرو چہرہ مت ڈھانکا کرو تو اسے چہرہ ننگا کر لینے میں کوئی حرج نہیں وھاں شوھر کی اطاعت کرے اور آرام سے گھر چلائے ،، مگر متشددین یہ سبق دیتے ھیں کہ طلاق لے لینا مگر پردہ مت اتارنا ،، یوں گھر اجڑ جاتے ھیں ،،
چہرے کا پردہ اور ائمہ اربعہ ،،،
1- امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی ،،
قال الامام محمد بن الحسن فی "” الموطا "
ولا ینبغی للمرأۃ المحرمۃ ان تنتقب، فان ارادت ان تغطی وجھھا فلتسدل الثوب سدلاً من فوق الخمار و ھو قول ابی حنیفہ والعامۃ من فقہائنا ،،
و قال ابوجعفر الطحاوی فی ” شرح المعانی الآثار-2 /392-393
ابیح للناس ان ینظروا الی ما لیس بمحرۜم علیھم من النساء الی وجوھھن و اکفھن ، و حرم ذالک علیھم من ازواج النبیﷺ و ھو قول ابی حنیفہ و ابی یوسف و محمد رحمھم اللہ ،،
امام محمد بن حسن الشیبانی فرماتے ھیں کہ عورت کو احرام کی حالت میں اپنا چہرہ نقاب میں نہیں چھپانا چاھئے اگر اس نے چہرہ چھپانا ھے تو دوپٹے کے اوپر سے کپرا لٹکا لے ، اور یہی قول ابوحنیفہ اور ھمارے دیگر فقہاء کا ھے ( الموطا محمد )
امام طحاوی شرح معانی الآثار مین لکھتے ھیں کہ لوگوں پر عام عورتوں کے چہرے اور ھاتھ دیکھنا مباح ھے اور ازواج النبی ﷺ کا چہرہ اور ھاتھ دیکھنا حرام ھے ،، یہی قول ابی حنیفہ، اور ابی یوسف اور محمد رحمھم اللہ کا ھے ،،
2،، امام مالک
روی صاحبہ عبدالرحمان بن قاسم المصری فی المدونہ (2/221) نحو قول امام محمد فی المحرمہ اذا ارادت ان تسدل علی وجھہا، وزاد فی البیان فقال ،
” فان کانت لا ترید ستراً فلا تسدل "
و نقلہ ابن عبدالبر فی ” التمھید ” (15/111) وارتضاہ
وقال بعد ان ذکر تفسیر ابن عباس و ابن عمر لآیۃ” الا ما ظھر منھا ” بالوجہ والکفین "
و علی قول ابن عباس وابن عمر الفقھاء فی ھٰذا الباب( قال ) فھذا ما جاء فی المرآۃ و حکمھا فی الاستتار فی صلاتھا و غیر صلاتھا ،،
یعنی ما ظھر منھا کی تفسیر مین تمام فقہا ان دونوں کی رائے پر ھیں کہ نماز یا نماز کے باھر عورت پر چہرہ اور ھاتھ ڈھانپنا واجب نہیں ۔( الموطا 935/2)
موطا میں یحی کی روایت ھے کہ امام مالک سے پوچھا گیا کہ کیا عورت غیر محرم کے ساتھ کھانا کھا سکتی ھے یا اپنے غلام کے ساتھ ؟؟
تو امام مالک نے جواب میں فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ شوھر کے ساتھ دوسرے جاننے والے مردوں کے ساتھ کھانا کھا سکتی ھے ،، اس سے استدلال کرتے ھوئے فقہ مالکی کے فقیہہ الباجی ” المتقی شرح الموطا” میں کہتے ھیں کہ اس سے یہی موکد ھوتا ھے کہ عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھا جا سکتا ھے کیونکہ یہی کھانے کے دوران نظر آتے ھیں ( المتقی شرح الموطا 252/7 )
3- امام شافعی ،،،
امام شافعی اپنی کتاب ” الام ” میں لکھتے ھیں کہ عورت کو احرام میں چہرہ نہیں ڈھانپنا چاھئے ، اگر چہرہ چھپانا چاھتی ھے تو کپڑا چہرے کے ساتھ نہ لگنے دے ،،
امام بغوی شرح میں لکھتے ھیں کہ کسی آزاد عورت کے بدن کو دیکھنا کسی مرد کے حق میں جائز نہیں وہ اس کی کسی چیز پر نظر نہیں ڈال سکتا سوائے اس کے چہرے اور ھاتھوں کی ہتھیلیوں کے گِٹوں تک،، اور اگر اسے اپنے اوپر فتنے کا خدشہ ھے تو مرد پر واجب ھے کہ اپنی نظر کو نیچا رکھے ( نہ کہ عورت کو منہ چھپانے پر مجبور کرے کہ میرا ایمان گیا )
4- امام احمد بن حنبل
امام احمد کے بیٹے صالح مسائل میں لکھتے ھیں کہ ،،،
احرام والی عورت نقاب نہ ڈالے البتہ کپڑا تھوڑا سے لٹکا دے تو کوئی حرج نہیں ،، کوئی حرج نہیں کا جملہ بتا رھا ھے کہ عورت کی مرضی پر معاملے کو چھوڑ دیا گیا ھے ،،
اپنی تبصرے میں لکھتے ھیں کہ اگر چہرہ اور ھاتھ ستر ھوتے تو ان کو چھپانے سے منع نہ کیا جاتا کیونکہ خرید و فروخت اور لینے دینے کے لئے چہرے اور ھاتھوں کا کھلا ھونا فطری بات ھے ،،
اس پوری بحث میں چاروں فقہاء اس پر متفق ھیں کہ سدل یعنی چہرے پر پردہ لٹکانا عورت کی اپنی مرضی پر ھے نہ کہ اس پر واجب ھے ،،
حضرت عائشہ صدیقہؓ کا قول بہیقی نے نقل کیا ھے کہ ” المحرمہ تلبس من الثیاب ما شاءت الا ثوباً مسہ ورس او زعفران، ولا تتبرقع ،ولا تلثم ،، وتسدل الثوب علی وجھہا ” ان شاءت”
احرام والی عورت ھر قسم کا لباس پہن سکتی ھے سوائے اس کے کہ جس کو ورسیا زعفران وغیرہ لگی ھو اور نہ ھی برقع کرے اور نہ ھی چہرے پہ ڈھاٹا باندھے ” البتہ اگر چاھے تو اوپر سے کپڑا لٹکا لے ،، اس پورے قول میں لفظ ” ان شاءت ” اھم ھے کہ عورت اگر چاھے ،نہ چاھے تو کوئی جبر نہیں ،
ابوداؤد حضرت عائشہؓ سے روایت لائے ھیں کہ ،،
و عن عائشۃ عن اسمآء بنت ابی بکر دخلت علٰی رسول اللّٰہ ﷺوعلیہا ثیاب رقاق فاعرض عنھا وقال یا اسماء انّ المراۃ اذا بلغت المحیض لن یصلح ان یریٰ منھا الّا ھذا و ھذا و اشار الی وجھہ وکفّیہ ‘‘ (ابو داؤد)
ام المومنین عائشہؓ فرماتی ھیں کہ اسماء بنت ابی بکرؓ پتلے کپڑے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ نے ان کی طرف سے منہ موڑ لیا اور فرمایا کہ اے اسماء عورت جب بالغ ھو جائے تو اس کے لئے ٹھیک نہیں کہ اس کے چہرے کی ٹکیہ اورہتھیلیوں کے سوا کچھ اور کسی مرد کو نظر آئے ،، اور آپ نے ھاتھ کانوں کے آگے سے لے کر چہرے کی ٹکیہ کے دونوں اطراف اپنے ھاتھ رکھ کر اور پھر ھاتھوں کی گٹھیا کو پکڑ کر دکھایا ” الا ھذا و ھذٰا "
بس یہی پردہ ھے ،، جو عورت پر واجب ھے ،پھر حج پر احرام کی حالت مین عملاً کرا کر بھی دکھا دیا ،،
ابن المفلح امام احمد کی فقہ کے فقیہہ ھیں ان کو امام احمد فرمایا کرتے تھے کہ تم ابن مفلح نہیں ھو بلکہ خود مفلح ھو ، اور ابن قیم ان کے بارے میں فرماتے ھیں کہ اس آسمان کے گنبد کے نیچے کوئی شخص امام احمد کی فقہ کا ابن مفلح سے بڑھ کر واقف نہیں ،،
ان ابن مفلح سے سوال کیا گیا کہ ” رستے میں چہرہ کھلا رکھ کر چلنے والی عورتوں کو ملامت کی جا سکتی ھے اور چہرہ کھولنے سے منع کیا جا سکتا ھے ؟
اس پر آپ نے فرمایا کہ ،، قاضی عیاض نے جریرؓ سے جو حدیث نقل کی ھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اگر عورت کے چہرے پر اچانک نظر پڑ جائے تو بندہ کیا کرے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بندہ بس اپنی نظر ھٹا لے ( مسلم ) اس سے علماء نے استدلال کیا ھے کہ ” فی ھذا الحدیث حجۃۤ علی انہ لا یجب علی المراۃ ان تستر وجہھا فی طریقھا ، و انما ذالک سنۃ مستحبہ لھا ،، ویجب علی الرجل غض البصر عنھا فی جمیع الاحوال ،،، الا لغرضٍ شرعی )
اس حدیث مین حجت تمام ھو گئ ھے کہ عورت پر رستہ چلتے چہرہ چھپانا واجب نہیں ھے بلکہ مستحب سنت کی قسم سے ھے ،، مگر مرد پر نظر پھیر لینا ھر حال میں واجب کیا گیا ھے ،، سوائے اس کے کہ شعرعی عذر اس عورت کو دیکھنے کا موجود ھو یعنی شادی کے لئے دیکھنا یا ڈاکٹر کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ ( مگر مردوں نے نہایت چالاکی سے اپنا فرض بھی عورت پر تھوپ دیا ھے تا کہ خود جی بھر کر اس کا تھارولی اسکین فرما سکیں ) امام نووی نے مسلم کی شرح میں اس جواب کو کوٹ کرنے کے بعد اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا یعنی اس رائے سے اتفاق کیا ھے ،،
اس کے بعد ابن مفلح کہتے ھیں کہ ھمارا اور شوافع نیز دیگر فقہاء( مالکیہ و احناف ) کا اس پر اتفاق ھے کہ ” ان النظر الی الاجنبیہ جائز من غیر شھوۃ ولا خلوہ ، فلا ینبغی الانکار ،، کہ اجنبی عورت کے چہرے کو بلا شہوت اور بلا خلوت دیکھنا جائز ھے اور عورت کو نکیر نہیں کی جائے گی ،، یعنی چہرہ کھولنے پر اس کو ملامت نہیں کی جائے گی ،،