پردہ ! عادت یا عبادت ؟

الحمد للہ رب العالمین،والصلوۃ و السلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین !
اما بعد ، آج کل پردے پر کچھ یوں چڑھائی ھو رھی ھے کہ گویا دنیا بھر کے مسائل کی بنیادی اور اھم وجہ پردہ ھی ھے،جتنے زنا بالجبر اور اغوا برائے تاوان کے
کیس ھیں ،سارے پردہ دار خواتین کی وجہ سے ھو رھے ھیں،،مہنگائی کی حقیقی وجہ بھی پردہ ھی ھے،، خواتین پردے کے لئے اتنا کپڑا خرید رھی ھیں کہ بچیاں بیاہنے کو کپڑا دستیاب نہیں، الیکشن میں دھاندلی بھی پردے کی وجہ سے ھوئی ھے،کیونکہ پردے میں رہ کر مردوں نے ووٹ ڈالا ھے،، الطاف کی مشکلات کی بڑی وجہ بھی پردہ ھے ،کیونکہ اسی نے ” پردے میں رھنے دو،پردہ نہ اٹھاؤ” کو دوبارہ اپنے اوپر فلما کر اپنی تباھی کا سامان پیدا کیا،،گویا سارے مسائل حل ھو جائیں گے،صرف پردے پر پابندی عائد کر دی جائے
کچھ لوگ پردے کو منکر سمجھ کر مٹا کر ھی چھوڑنے کا عزمِ صمیم رکھتے ھیں،،جس حقارت کے ساتھ وہ پردے کی نفی کرتے ھیں ،اور پردے کی مذمت میں جو الفاظ کا انتخاب ھے وہ بتاتا ھے کہ مقصد تحقیق نہیں تحقیر ھے ! میں صرف اتنی گزارش کرنا چاھتا ھوں کہ مان لیجئے کہ پردہ عبادت نہیں، اک سماجی عادت ھے،مگر سوال یہ ھے کہ اس عادت سے حیاء پروموٹ ھو رھا ھے یا بے حیائی؟ اور اگر حیاء کو تقویت ملتی ھے تو کیا حیاء کا شمار ایمان اور معروف میں کیا گیا ھے یا نہیں؟ پھر کیا مومن کو معروف کی مذمت کے لئے اٹھایا گیا ھے یا مدد کے لئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا علی وہ دن کیسا ھو گا جب لوگ معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھیں گے، پھر منکر کی تبلیغ کریں گے اور معروف سے روکیں گے؟ تو حضرت علیؓ نے پریشان ھو کر پوچھا تھا کہ اے اللہ کے رسول کیا ایسا بھی ھو گا،، وہ سب کچھ ھم آج دیکھ رھے ھیں،،
دلائل جو کچھ بے پردگی کے حق میں نقل کیئے جاتے ھیں ان میں اتنی جان نہیں جتنی بیان کرنے والوں کے یقین سے جھلکتی ھے،،اور قران ایک ایسی کتاب ھے کہ جو قیامت تک باطل کے سامنے سدِ سکندری کی طرح سینہ تانے کھڑی ھے، لا یأ تیہ الباطل من بینِ یدیہ ولا من خلفہ،،باطل اس میں نہ فرنٹ ڈور سے آ سکتا ھے،نہ ھی بیک ڈور سے ،،پردے کے مخالفوں کو چودہ صدیوں میں چار عورتیں ملی ھیں ،جن کے نام پر پردہ اتارنے کی بنیاد رکھی گئی ھے،، دوسری جانب جس طرح قرآن میں سے اپنے مقصد کی تشریح حاصل کرنے کے لئے ،اپنے مقصد کے خلاف آیات کو جس طرح نظر انداز کیا گیا ھے،وہ ایک الگ المیہ ھے،،
دلیل نمبر ایک – چہرے کا پردہ صرف ازواج النبیؐ کے لئے تھا،اور اس کی دلیل قران کی یہ آیت ھے کہ ” اے نبیؐ کی بیویو ! تم عام عورتوں کے جیسی نہیں ھو-( الاحزاب ) اللہ تو فرما رھا ھے کہ ائے نبیؐ کی بیویوں ! تم عام عورتوں جیسی نہیں ھو، بلکہ جسطرح نبیؐ مردوں کے لئے اسوہ اور نمونہ ھیں اسی طرح تم عورتوں کے لئے اسوہ اور نمونہ ھو ، اور قیامت تک دنیا تمہاری پیروی کرے گی،،اگر تم نے تقوے کی روش اپنائی تو اگرچہ اج یہ مشکل لگے ،مگر قیامت تک آنے والی نسلیں جو تمہاری پیروی کریں گی تو تمہیں اس میں تمہارا حصہ ملے گا،،اگر آج تم بے پردگی اور بے حیائی کی روش اپناؤ گی تو قیامت تک جو عورت تمہاری کاپی کرے گی اس کا عذاب تمہیں ملے گا ، لہٰذا اللہ تمہیں اس گندگی سے بچانا چاھتا ھے،، یہ پورا مضمون آپ کو سورہ الاحزاب کی آیات نمبر 30 سے 33 تک دیکھ لیں،،(خصوصاً دھرا عذاب30 اور دھرا اجر31) اور میں چاھتا ھوں کہ آپ دیکھیں،تا کہ آپ کو پتہ چلے کہ ایت کے صرف ایک ٹکڑے کو کاٹ کر کسطرح باطل کا محل تعمیر کیا جاتا ھے، اور یہ جتانے کی کوشش کی جاتی ھے،کہ جناب اللہ تو یہ فرما رھے ھیں کہ یہ اقدام صرف تمہارے اوپر لاگو کیا جا رھا ھے کیونکہ تم عام عورت نہیں ھو،،گویا یہ عام عورتوں کے لئے نہیں ھے!!!
میں نے تو ھر طریقے سے سوچا ھے مگر مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں لگی کہ جب اللہ پاک نے امھات المومنین کو مومنوں کی مائیں قرار دے کر نکاح حرام کر دیا تھا ، تو پھر ان پر پردہ کیوں تھوپ دیا ؟ انہیں تو کھلے چہروں کے ساتھ اپنے بیٹوں میں پھرتے رھنے دینا چاھئے تھا ، وہ اپنے بیٹوں کی محرم تھیں اور بیٹے ان کے محرم تھے !! البتہ باقی کی عورتوں پہ پردہ لاگو کرنا چاھئے تھا کیونکہ ان کے درمیان محبت کے جذبات کے امکانات روشن تھے !
جو محرم تھیں وہ پردے میں بند ،، یعنی ماں بیٹے کا پردہ کرا دیا ،،
جو نامحرم تھے انہیں کھُلا چھوڑ دیا گیا،، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟
اگر انسان بات کو سمجھنا چاھے تو سمجھ کوئی اتنے دُور بھی نہیں ،،
اللہ پاک نے دینی احکامات ،حکم اور عمل دونوں کی صورت میں پہنچائے ھیں ،، یعنی تھیوری اور پریکٹیکل کے ساتھ،، مردوں کے لئے اسوہ ھیں نبئ کریمﷺ ،، عورتوں کے لئے پریکٹیکل ھیں امھات المومنین ،، امھات المومنین سے فرمایا گیا کہ تم عام عورتوں کی طرح اپنی ذات کی ذمہ دار نہیں ھو بلکہ تم نمونہ اور اسوہ ھو،، اگر تم تقوی اختیار کرو گی تو دھرا اجر پاؤ گی کیونکہ تمہارے تقوے کی پیروی کی جائے گی ، اگر تم بے حیائی کی روش اختیار کرو گی تو دوسری عورتوں کی طرح صرف اپنی جان کے کئے کو نہیں بھگتو گی بلکہ تمہاری روش کی پیروی کرنے والیوں اور تمہارے عمل کو دلیل بنا کر عمل کرنے والیوں کا گناہ بھی تمہیں اٹھانا ھو گا ،،
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (الاحزاب 30)
وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا (31)
! سورہ النور کی آیت نمبر31 میں ذکر فرمایا کہ اپنی زینت ظاھر نہ کرو سوائے اس کے کہ جو خود بخود ظاھر ھو جائے،، یہ خود بخود ظاھر ھونے والی کیا چیز ھے؟ ، اس کے ساتھ فہرست کہ یہ لوگ اس زینت کو دیکھ سکتے ھیں اور باقی لوگ نہیں دیکھ سکتے،، میں آج سوال کرتا ھوں کہ ” جنابِ عالی ،ایک عورت کا پورا بدن ستر ھے ،سوائے چہرے کی ٹکیہ اور ھاتھ پاؤں کے” یہ وہ تین چیزیں ھیں جن کے علاوہ چوتھی چیز نہ تو عورت کا باپ دیکھ سکتا ھے،نہ بیٹا ،نہ، بھائی، اب سوال یہ اٹھتا ھے کہ اللہ پاک نے زینت دیکھنے والوں میں عورت کے بھائی کو شامل کیا ھے اور مرد کے بھائی کو نکال باھر کیا ھے،، مجھے سوال کا جواب دیں کہ وہ کونسی چیز ھے جو عورت کا بھائی تو دیکھ سکتا ھے،مگر مرد کا بھائی نہیں دیکھ سکتا؟؟ کیا مرد کے بھائی پر پابندی ان تین چیزوں کو دیکھنے پر ھی نہیں لگی؟ اگر مرد کا بھائی اور پورا محلہ عورت کا چہرہ اور ھاتھ پاؤں دیکھ سکتا ھے تو پھر اس فہرست کا فائدہ؟
عورت کا ھاتھ ،پاؤن اور چہرہ اگر ستر قرار دے دیا جاتا تو ہھر وہ باپ کے سامنے بھی چہرہ کھول کر نماز نہیں پڑ سکتی تھی،، بلکہ اکیلی بھی چہرہ کھول کر نماز نہیں پرھ سکتی تھی کیونکہ نماز میں ستر ڈھاننپنا فرض ھے،،تو ستر کے احکام الگ نازل کیئے گئے،،اور حجاب کے الگ،، عورت کا چہرہ محلِ حجاب ھے،، محلِ ستر نہیں،، حجاب عورت کے بھائی سے نہیں (او اخوانھن) مگر مرد کے بھائی سے وہ حجاب کرے گی،،یہ ھے پوری آیت کا مطلب،، اگر کوئی نہیں مانتا تو جواب اس کے ذمے ھے کہ عورت کے بھائی اور مرد کے بھائی میں کیا فرق ھے؟ اب بات کریں ان خواتین کی جن کا حوالہ دے کر چہرہ کھلا رکھنے کی بات کی جاتی ھے، تو اس سلسلے میں عرض ھے کہ حضرت اسماء کے باریک کپڑے کا حوالہ تو ھے،مگر چہرہ حسبِ آرزو ننگا کروا لیا گیا ھے،ورنہ ننگے چہرے کا ذکر نہیں ھے،، نبی کریمﷺ نے ھاتھوں کی ہتھیلیوں اور چہرے کی ٹکیا کا ذکر ستر کو واضح کرنے کے لئے کیا ھے کہ عورت کا ستر کہاں تک ھے،اور یہ ھی امام ابو حنیفہ کا موقف ھے کہ چہرہ محل حجاب ھے،محلِ ستر نہیں،، اگر چہرے کو ستر قرار دیا جاتا تو عورت کی نماز اکیلے میں بھی کھلے چہرے سے نہیں ھو سکتی تھی،، دوسری عورت جس کے کھلے چہرے کا بہت زور و شور سے حوالہ دیا جاتا ھے،وہ بنو خثعم کی عورت ھے،جو بہت خوبصورت تھی اور جناب فضل بن عباسؓ اس کو دیکھے ھی چلے جا رھے تھے ،، تو وہ بے چاری احرام میں تھی اور نبیﷺ کریم کے ساتھ حجۃ الوداع پہ جا رھی تھی لہٰذا اس کا چہرہ ڈھکنا بنتا ھی نہیں تھا،، ایک مثال حضرت ابوذرؓ غفاری کی بیوی کی دی جاتی ھے،،ابی اسماء کہتے ھیں کہ میں ابوذرؓ کے یہاں داخل ھوا تو ان کے پاس ایک کالی عورت بیٹھی تھی،جس پر نہ تو کنگھی پٹی اور نہ خوشبو کے کچھ آثار تھے،،انہوں نے کہا کہ دیکھتے ھو یہ کالو مجھے کیا کہہ رھی ھے،،کہتی ھے عراق چلو، اگر میں عراق گیا تو وہ دنیا لے کر مجھ پر ٹوٹ پڑیں گے اور مجھے میرا خلیلﷺ دنیا سے منع کر کے گیا ھے،،تو جناب وہ ستر سال کی عورت تھی،اور قرآن نے اس کو چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت دے دی تھی،دیکھ لیجئے سورہ النور آیت نمبر60،اور ازدواجی زندگی سے ریٹائرڈ عورتیں جو نکاح کی عمر سے نکل چکی ھیں ،ان کو کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے ثیاب اتار دیں،،،،، اب یہاں ایک سوال اور پیدا ھوتا ھے،کہ جب عورت پر سوائے دوپٹے کے کچھ ڈالا ھی نہیں گیا تو ،پھر یہ کونسے کپڑے ھیں جو اتارنے کی اجازت دی جا رھی ھے؟ کیا دوپٹہ بھی اتروایا جا رھا ھے ،یا یہ دوپٹے کے علاوہ کوئی ایکسٹرا چادر تھی جسے باھر نکلنے سے پہلے عورتیں ڈال لیتی تھیں،،اس چادر سے استثناء دیا جا رھا ھے،، ثوب کہتے ھیں ان سلے کپڑے کو جسے اپ انگریزی میں کلاتھ کہتے ھیں،، تو جناب وہ ستر سال کی خاتون تو استثناء کو استعمال کر رھی تھی،،آپ ستر سالہ بڑھیا کو مثال بنا کر سترہ سال کی لڑکی کا پردہ اتروا رھے ھیں ؟ اگلی مثال ان عورتوں کی دی جارھی ھے جن کو نبی کریمﷺ نے وعظ فرمایا اور پھر ان سے صدقہ قبول کیا ،اس حوالے سے راوی کہتے ھیں کہ مجمعے میں سے ایک خاتون جس کے گال کالے یا پیلے پیلے تھے اس نے اٹھ کر سوال کیا،،،اب یہاں بھی بھرے مجمعے میں ایک ھی عورت ان کو بے پردہ نظر آئی ھے،وہ عورت بھی بوڑھی تھی جس کو منہ کھولنے کی اجازت سورہ النور کی آیت 60 میں دی گئی ھے،،آپ پوچھ سکتے ھیں کہ جناب آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وہ بوڑھی تھی؟ میں کہتا ھوں مجھے اسی راوی نے بتایا ھے کہ وہ ان کی والدہ کی عمر کی تھی،کیونکہ اگر وہ جوان تھی تو راوی ھی سے پوچھا جا سکتا ھے کہ جناب جب اللہ پاک نے نظریں جھکا کر رکھنے کاحکم دیا تھا تو آپ نبی کریمﷺ کی بغل میں بیٹھ کر اس جوان خاتون کے گالوں کا معائنہ کیوں فرما رھے تھے؟ تو میرا خیال یہ ھے کہ راوی یہ الزام سر لے کر روایت نہیں کر سکتا،،جناب یہ تھیں پوری اسلامی تاریخ کی چار عورتیں جن کو مثال بنا کر پردہ ساکت کیا جاتا ھے،، باقی ایک لاکھ 44 ھزار صحابہؓ میں سے کتنوں کی بیویوں،بیٹیوں ،بہنوں ،بھانجیوں، کو زمانے نے دیکھا تھا؟ بڑے بڑے ائمہ جن کے یہاں سیکڑوں طالبِ علموں کا جھمگٹا لگا رھتا تھا،،کسی نے کسی امام کی بیوی ،بہن ،بیٹی کو دیکھنے کا واقعہ بیان نہیں کیا،اسی پر ان کی دلیل کی قوت کا اندازہ کر لیجئے،، مدنی حالات اور پردے کی ابتدائی شکل پر میں آگے چل کر لکھوں گا
اسلامی قوانین کے ضمن میں ایک اصولی بات یاد رکھ لیں کہ یہ قوانین ایک گاؤں نما شہر میں نازل ھوئے ھیں،،اور اسی گاؤں میں نافذ ھو کر جاری ھوئے ھیں،، اب جب ھم ان قوانین کو کراچی ،لندن ، نیو یارک جیسے شہروں میں نافذ کرنا چاھتے ھیں تو ھم اس کی فلیکسیبلٹی سے فائدہ تب تک نہیں اٹھا سکتے جب تک ھم اس کو پہلے اسی ماحول میں لے جائیں،پھر آج کے شہروں اور معاشروں کے ماحول کا تقابل کریں، اور پھر جہاں جتنی گنجائش نکلتی ھے وھاں اس کو نکالیں اور استعمال کریں،، پردے کی ابتدائی اور دیہاتی شکل یہ ھے کہ ایک عورت سے اتنا مطلوب ھے کہ وہ گھر مین رھے تو دوپٹہ سر پہ رکھے، جب آٹا وغیرہ گوندھنے بیٹھے تو دوپٹہ آگے کر لے کیونکہ آٹا گوندھتے وقت جب وہ بیٹھتی ھےتو گھٹنوں کے دباؤ کے سبب اس کے پستان ابھر کر سامنے آ جاتے ھیں ،جو کہ محرموں کا دیکھنا بھی جائز نہیں،، جب باھر کام کو نکلے تو بڑی چادر لے لے اور اس کا اوپر کا کچھ حصہ اس طرح چہرے پر بڑھا لے کہ چہرے کی کشش ختم ھو جائے، ، جب اپنے باغ میں پہنچے تو چادر اتار کر نیچے رکھ دے اور کمر کس اور سر ڈھک کر کھجور پر چڑھ جائے،، اب جب یہ احکامات شہروں میں پہنچے اور عورت کی ذمہ داریاں بھی مختلف ھو گئیں تو چادر نے بھی نئی صورتحال میں نئے روپ اختیار کر لئے،،اب اس کے ساتھ بچے ھیں اور وہ بس کا سفر کر رھی ھے،،بچے کے دودھ کی کوئی ٹائمنگ نہیں ھوتی ،اب بچے کو دودھ چاھئے تو اس کے لئے شٹل کاک برقعہ ایک میک شفٹ گھر کی مانند ھے،،وہ بچے کو اس کے اندر کر لیتی ھے اور آرام کے ساتھ بچہ دودھ بھی پی لیتا ھے اور دیگر مسافر بھی آرام کرتے ھیں،،اس پر نہ اللہ کو کوئی اعتراض ھے نہ رسولﷺ کو ،،نہ عورت کو اور نہ عورت کے شوھر کو،،لہذا این جی اوز کو بھی اعتراض نہیں ھونا چاھئے،، دوسری عورت شاپنگ کرنے نکلی ھے،، دونوں ھاتھ سامان سے لدے ھیں، وہ اگر اس مدینے والی چادر کو سی لیتی ھے تا کہ اس کے ھاتھ فارغ ھو جائیں تو بھی اسلام کو کوئی مسئلہ نہیں،وہ سلا ھوا برقعہ پہن لے اور دونوں ھاتھوں کی ازادی کو استعمال کرے، پردے کی کوئی مخصوص شکل نازل نہیں ھوئی،،شکل وقت اور ضرورت کےمطابق بدلتی رھتی ھے آصل چیز حیاء ھے،،پاکستان کے دیہات مین جس طرح خواتین،فصلیں کاٹتی اور ڈھوتی ھیں،،اور جس طرح کولہو کا بیل بنی ھوئی ھیں،،ان حالات میں اس سے پردے کا مطالبہ ایک مذاق ھی لگتا ھے !