پتے کی بات ! ( رضی اللہ عنھم )

قرآن مجید پڑھتے ہوئے کبھی کسی بات پر دماغ میں سوالیہ نشان بنا، ہم نے جھٹ سے اس سوالیہ نشان کو ڈیلیٹ کیا، وہ پھر بن گیا،کبھی فرض نمازوں میں بنتا تو کبھی تراویح میں، ہم skip کرتے وہ ںوٹیفیکیشن کی ٹن کے ساتھ پھر سےکھڑا ہو جاتا ایک دو دن کی بات نہیں سالوں ہم اس سوالیہ نشان کو بزرگوں کے تقدس کے کارپٹ تلے دباتے آئے مگر وہ نہ مرا نہ ہی عمر رسیدہ ہوا، ہم بوڑھے ہو گئے مگر وہ سؤال جوان سے جوان ہوتا چلا گیا۔ آخر اللہ پاک نے ہی وہ مسئلہ حل فرما کر مسائل حل کرنے کی شاہ کلید ہمارے ہاتھ میں دے دی۔ اس” ماسٹر کی” سے ہر سوال پیدا ہوتے ہی حل ہو جاتا۔ اور قرآن پڑھنے کا مزہ بھی آتا ہے
قرآن پاک اللہ رب العزت کے یہاں لوح محفوظ میں مندرج و ثبت ہے۔ آپ اس کو اللہ پاک کی ڈائری کہہ سکتے ہیں، آرکائیو کہہ سکتے ہیں جہاں سے یہ دنیا میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نجما نجما یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے جبرائیل امین نے پہنچایا ، ” "بل ھو قرآن مجید، فی لوح محفوظ ”
ڈائری جب بندہ لکھتا ہے تو وہ اس دن کی روداد ہوتی ہے، اگلے دن کی روداد و کیفیات اگلے دن بیان ہونگی ، مثلآ آپ نے بہترین گریڈ کے ساتھ بی اے یا ایم اے کیا۔ ریزلٹ والد صاحب کو معلوم ہوا بہت خوش ہوئے اور ڈائری پر لکھا آج میرے شہزادے نے بہترین گریڈ کے ساتھ گریجویشن یا ماسٹر کیا ہے۔ اس نے وہ کر دکھایا جس کی مجھے اس سے امید تھی۔ آج میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا ہے، لگتا ہے میں پھر سے جوان ھو گیا ہوں، اور کیوں نہ ہو جس باپ کے ایسے ہونہار بیٹے ہوں وہ بوڑھا ہوتا ہی کب ہے۔ یہ تحریر فرسٹ جنوری دو ھزار بیس کو لکھی گئی، فروری کی پہلی تاریخ کو آپ کو فون آیا کہ آپ کا شہزادہ تھانے میں بند ہے، کسی لڑکی کے ساتھ ہوٹل سے پکڑا گیا ہے ۔۔ آپ نے جیسے تیسے بیٹے کو تھانے سے نکلوایا ، اور اس دن کی روداد ڈائری میں لکھتے ہوئے فرمایا آج میں شرم سے سر اُٹھانے کے قابل نہیں رہا، آج ظہر کی نماز میں امام صاحب غائب تھے تو لوگوں نے حسبِ معمول مجھے دھکیل کر امام صاحب کے مصلے پہ کھڑا کر دیا، آج مجھے تکبیر تحریمہ کہنے میں کافی دیر لگی، میں ڈر رہا تھا کہ پیچھے سے کوئی کہہ نہ دے کہ بھائی صاحب آپ اس مصلے کے لائق نہیں، میری نماز آپ کے پیچھے نہیں ہوتی، میں ایسی ہی کسی آواز کی توقع میں تکبیر تحریمہ کہنے میں تاخیر کر رہا تھا کہ نماز توڑ کر پیچھے ہٹنے کی بجائے نماز شروع کرنے سے پہلے ہی پیچھے ہو جاؤنگا ، خیر لوگ تو حیا کر گئے کوئی نہیں بولا ،مگر خود مجھے میرے ضمیر نے اجازت نہیں دی اور میں معذرت کر کے پیچھے ہٹ گیا ، کچھ مخلص دوستوں کی آنکھوں میں نمی واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی جو میری کیفیت سے واقف تھے جبکہ کچھ کی آنکھوں میں سوالیہ نشان تھے ‘‘ یہ تبصرہ بھی اسی ڈائری میں درج ہے جس ڈائری میں تعریف والا تبصرہ محفوظ ہے ـ اب اس بیٹے کی اولاد دوسروں کو وہ پہلے والا تبصرہ کھول کھول کر دکھاتی ہے کہ دیکھو ہمارے دادا جان نے ہمارے والد صاحب کے بارے میں کیا لکھا ہے کہ ایسے بیٹے ہوں تو باپ بوڑھے نہیں ہوتے ‘‘ سبحان اللہ، گلوری بی ٹو اللہ ، مگر دوسرے والے تبصرے کے بارے میں کہتے ہیں کہ پہلے والے تبصرے کے مد نظر تاویل کی جائے گی ـ
یہی معاملہ اصحابِ رسول ﷺ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے ، کہ جب انہوں نے شاباش والا کام کیا تو اس دن کی ڈائری میں فورا رضی اللہ عنھم کا تبصرہ لکھ بھی دیا گیا اور نازل بھی کر دیا گیا ،، اور جس دن لڑائی میں ذرا ڈھیل دکھائی تو ؎
[يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ (38) توبہ
اے ایمان والو کیا ہو گیا ہے تمہیں کہ جہاں کہا جائے نکلو اللہ کی راہ میں ’’ لڑائی کے لئے‘‘ تو تم زمین سے چمٹ جاتے ہو ؟ کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر ہی راضی ہو گئے ہو ؟
والا تبصرہ لوح محفوظ والے قرآن میں لکھ بھی دیا گیا اور زمین والے میں نازل بھی کر دیا گیا ـ
جب وہ رسول اللہ ﷺ کو جمعے میں خطبہ دیتے کھڑا چھوڑ کر تجارتی قافلے کی طرف لپک گئے تو انہی کے بارے میں تبصرہ نازل کیا گیا ہے ؎
[وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (11) الجمعہ
وغیرہ وغیرہ ،، رضا کے تبصرے بھی ہوئے، اور خبردار کرنے اور دھمکی والے تبصرے بھی نازل کیئے گئے ،
سب سے پہلے سزائیں انہی پر نافذ کی گئیں ، کبھی نہیں کہا گیا کہ چونکہ میں ان سے راضی ہونے والی آیت نازل کر چکا ہوں لہذا چودھویں صدی سے کسی مسلمان کو اٹھا لاؤ اور کوڑے مارو،، یا جرم چونکہ رضی اللہ عنہ نے کیا ہے لہذا چودھویں صدی کے کسی نکمے مسلمان کو لا کر سنگسار کر دو ، یا چوری تو فاطمہ مخزومیہ نے کی ہے تم عاصمہ جہانگیر کو لا کر اس کا ہاتھ کاٹ دو ،
صحابہ رضی اللہ عنھم ایک دوسرے کو کبھی بھی بھول کر بھی رضی اللہ عنہ نہیں کہتے تھے وہ سیدھا نام لیتے تھے حضرت بھی نہیں کہتے تھے ، کوئی چاپلوسی اور مکھن لگانے والا معاشرہ نہیں تھا ،ایک فطری معاشرہ تھا ، وہ رضی اللہ عنہ کے ]پس منظر اور پیشن منظر دونوں کو جاننے والے لوگ تھے ،
ہم بھی جب کسی بیوہ کو چھت بنا کر دے رہے ہوتے ہیں ، کسی مریض کا خون دے رہے ھوتے ہیں ، یا کسی یتیم کی کفالت کرتے ہیں ، قرض لے کر یتیموں بیواؤں کی مدد کرتے ہیں تو یہ سب تبصرے ہمارے بارے میں ہوتے ہیں ، اور جب دو نمبری کرتے ہیں تو مذمتی تبصرے بھی ہمارے بارے میں ہی ہوتے ہیں ، یہ تو ڈے ٹو ڈے ڈائری کی طرح ہے اور حشر میں وہ ڈائری ہمارے ہاتھ میں دے کر کہا جائے گا کہ اپنی ڈائری خود پڑھ لو ، اقرأ کتابک ، کفی بنفسک الیوم حسیبا ـ یہی کچھ صحابہ سے بھی کہی جائے گی ،،
[
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ـ توبہ ۱۰۰
اس آیت میں ہمارا بھی ذکر خیر ہے کہ اگر ہم بھی رضی اللہ عنھم کے اتباع میں رضی اللہ والا کام کرین گے تو اللہ ہم سے بھی انہی کی طرح راضی ہو گا اور ہمارے لئے جنتیں تیار کر دے گا ،
قصہ کوتاہ یہ کہ صحابہؓ معصوم نہیں ہیں اور نہ رضی اللہ عنھم ان کی عصمت کی دلدیل ہے ، بلکہ ان کی زندگی کے اس لمحے کی قبولیت کا اعلان ہے جو انہوں نے اللہ کی اطاعت میں گزارۃ ـ
صحابہؓ کرام کی نجات بھی قرآن اور رسول اللہ ﷺ کے اتباع میں ہے ، اور ہماری نجات بھی قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں ہے ،ہم دونوں کا نصاب اور امتحان ایک جیسا ہے ،
وہ ہماری ہی طرح کے کوتھرے انسان تھے ، ہر برائی ان میں موجود تھی یہانتک کہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف لڑنے جیسا جرم بھی ان سے سر زد ہوا ، مگر رسول اللہ ﷺ نے ان کی تربیت فرمائی ، اوروہی لوگ رضا کے سرٹیفکیٹ لینے لگے، ان میں سے جس سے بھی کوتاہی ہوئی اس کو رضی اللہ عنہ کی آیت پڑھ کر اگنور نہیں کیا گیا ، جب حضرت ابوذرؓ نے بلال کو کالی کلوٹی کے بیٹے کہا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال کو نہیں سمجھایا کہ یہ رضی اللہ عنہ ہے چپ کر جاؤ، آپ نے بلالؓ کی شکایت سنی اور ابوذرؓ سے فرمایا ، ((إنك امرؤٌ فيك جاهلية)) مسلم ،، تیرے اندر ابھی جاھلیت باقی ہے ـ
رسول اللہ ﷺ کی صحبت کے باوجود ان کی بشریت زائل یا معطل نہیں ہوئی تھی نہ ان کو انبیاء کی عصمت حاصل تھی ـ دنیا کہ حب ان میں موجود تھی ، ایک دفعہ مالِ غنیمت آیا ، رسول اللہ ﷺ نے مسجد نبوی کے صحن میں ڈھیر لگا دیئے ،اور اعلان کیا کہ جو شخص جتنا خود اٹھا کر لے جا سکتا ہے وہ لے جائے، اٹھوانے میں کسی سے مدد نہ لے ، حضرت عباسؓ نے طاقت سے زیادہ بھر لیا ،جب اٹھایا تو اٹھایا نہ گیا ، رسول اللہ ﷺ سے ہی درخواست کر دی کہ بھتیجے ذرا ہاتھ دینا ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ چچا جو آپ خود اٹھا سکتے ہیں وہی لے جا سکتے ہیں ،، انہوں نے کچھ کم کیا پھر ٹرائی ماری نہیں اٹھایا گیا ، پھر رسول اللہ ﷺ سے مدد کی درخواست کی ،آپ ﷺ نے پھر وہی جواب دیا کہ جو اصول سب کے لئے ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے چچا کے لئے بھی ہے ، آخر بڑی مشکل سے اٹھا کر لے چلے تو راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بہت دور تک ان کو تعجب کی نظر سے دیکھتے رہے ـ
وہ لوگ بدترین تھے رسول اللہ ﷺ نے بہترین بنا دیئے ؎

خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے ـ
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحاکردیاـ
مگر پھر بھی انسان تھے ، رسول ﷺ کی قربت کے باوجود وہ لغزش کا شکار ہوئے ،وہ لغزش ہی کہلائے گی ، اور اللہ کے یہاں بخشش کے امیدوار ہونگے،، جس طرح ہم ہیں ـ
[ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ )
ان کے بارے میں پہلے نازل ہوئی ہے ، بعد میں ہمارے لئے ہے ،، شرک کے سوا ہر گناہ کی معافی کا اعلان پہلے ان کے لئے ہے پھر ہمارے لئے ہیں ـ الصحابۃ کلھم عدول ، اھلحدیث کا بنایا گیا اصول ہے ،قرآن کا فرمایا گیا نہیں ، قرآن کی ہر وعید پہلے صحابہؓ کے لئے ہے پھر ہمارے لئے ہے ، قرآن کی ہر بشارت پہلے صحابہؓ کے لئے ہے پھر ہمارے لئے ہے ، سب سے پہلے تعزیرات اور حدود کا نفاذ صحابہ اور صحابیات پر ہوا ، پھر بعد والوں کے لئے روا ہوا ـ
سب اللہ کے بندے اور غلام ہیں ، کوئی اللہ پاک کا بیٹا یا بھتیجا یا بھانجا نہیں ،
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1) اللَّهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (4).
اللہ عادل ہے ، کسی کی نیکی اللہ کو عدل کرنے سے مانع نہیں ہو سکتی ـ
اللہ اور قرآن کے بارے میں پوچھنا ہے تو کسی نومسلم سے پوچھیں وہ آپ کو بہتر اور بلا تعصب دو ٹوک بتا سکتا ھے ،
ہم نے اپنے اپنے معصوم چنے ہوئے ہیں ،
عسیائیوں نے صرف چار معصوم چنے تھے عیسائیت کا نقشہ تبدیل ہو کر رہ گیا،

اسی سی اپنے اسلام کی درگت کا اندازہ لگا لیں ـ
قاری حنیف ڈار بقلم خود

فیس بک پوسٹ