ولا تزر وازرۃ وزر اخری ۔

جب قرآن نے صاف فرما دیا کہ کوئی جان کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاتی نہ اٹھائے گی، تو پھر یہ کہنا کہ زنا قرض ہے جو اس شخص کی بیوی یا بیٹی کو ادا کرنا ہو گا گویا عورتوں کو اللہ کے خلاف بھڑکانے والا شیطانی کام ہے ، شیطان بھی اسی طرح حیلوں بہانوں سے انسان کو اللہ کے خلاف بھڑکاتا ہے ،، یہ لوگ ایک بیوی کو جو پہلے ہی شوہر کی بےوفائی کی شاکی ہے کہ اللہ پاک اس کو زنا سے روکتا کیوں نہیں ، وہ اس کو بشارت دے رہے ہیں کہ ابھی تو صبر کر اللہ پاک تیرے شوہر کے زنا کے بدلے تجھ سے زنا کروائے گا بلکہ کسی کو تجھ سے زنا کرنے پر آمادہ بھی کرے گا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ ،، یعنی مرد کو زنا سے روکنے پر اپنی قدرت کو صرف کرنے کی بجائے خدا اس قدرت کو زانی کی بیوی یا بیٹی کو زنا کرانے پر صرف کرے گا ؟،،
اپنی طرف سے یہ دولے شاہ کے چوہے زنا کے خلاف مہم چلا رہے ہوتے ہیں اور مردوں کو ڈرا رہے ہوتے ہیں ،مگر حقیقت میں عورتوں کو خدا کے خلاف بھڑکا کر الحاد کی طرف دھکیل رہے ہوتے ہیں ـ اسی طرح یہ کہنا کہ غیبت چھتیس زنا سے بدتر فعل ہے اصل میں زنا کو ہلکا کرنے کی کوشش ہے کہ زانی سوچے کہ میں نے زنا ہی کیا ہے کوئی غیبت تو نہیں کی ،ابھی بھی ۳۵ زنا میرے کارڈ میں دستیاب ہیں ،، اس قسم کی ڈھیر ساری روایات بےاصل اور حکمت کے خلاف ہیں ـ
[وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ] فاطر ۱۸
جب یہ روایت بیان کی گئ کہ لوگ جب میت پر روتے ہیں تو اس کو عذاب ھوتا ھے تو حضرت عائشہ صدیقہؓ نے یہی آیت پڑھ کر فرمایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی اور کے گناہ کی سزا کسی دوسرے کو دی جائے ؟
اسی طرح یہ جو مشہور کر دیا گیا ہے کہ ایک عورت چار مردوں کو جھنم لے کر جائے گی ، اپنے والد کو ، اپنے بھائی کو ، اپنے شوھر اور اپنے بیٹے کو[ یہ سارے بیچارے مشوم ] جب کوئی بالغ ہو جاتا ھے تو اپنی نیکی اور اپنی بدی میں خودکفیل ھو جاتا ھے ، حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی نیکی ان کی بیویوں کے کام نہیں آئے گی اور فرعون کے کرتوت کی اس کی بیوی سے کوئی پوچھ نہیں ہو گی ـ حضرت نوح علیہ السلام کا غیر مسلم بیٹا اپنے والد کو جھنم نہیں لے کر جا سکتا اور نہ آزر کے شرک کی پرسش ان کے بیٹے ابرھیم علیہ السلام سے ہو گی ،
قاری حنیف ڈار بسلسلہ نشر مکرر۔