نیل پالش

اللہ پاک نے حکم دیا کہ اس کو سجدہ کیا جائے – یہ سجدہ سات اعضاء کے ساتھ مشروع ھے یعنی یہ اعضاء زمین کو چھوئیں تو سجدہ ادا ھوتا ھے – دو ھاتھ ، دو گھٹنے ، دو پاؤں اور پیشانی – شیعہ امامیہ کے نزدیک پیشانی کا مٹی کو چھونا واجب ھے کیونکہ سجدے کی اصل زمین پر ماتھے کا لگنا ھے باقی اعضاء ماتھا ٹیکنے کا ذریعہ ھیں اصل سجدہ پیشانی کا مٹی پر رکھنا ھے ، پھر ان کے یہاں مٹی کی بحث چلتی ھے کہ پہلے کہاں کی مٹی افضل ھے اور پھر کہاں کی مٹی افضل ھے کہ جس کی ٹکیہ بنا کر ماتھا اس پر ٹیکا جائے –
ھمارے بزرگ کہتے ھیں کہ چونکہ مصلی یا قالین کا ایک سرا زمین کو چھو رھا ھوتا ھے اور دوسرے سرے پر ھم نے سر رکھا ھوتا ھے تو گویا ھمارا سر زمین کو ھی چھو رھا ھوتا ھے – اللہ چاھتا ھے کہ ھم مٹی پر سر رکھ کر اپنی اصل کو پہچانیں اور عاجزی و انکساری اور ذلت و فروتنی کا اظہار کریں مگر ھم ھر سال لاکھوں کا کارپٹ بچھا کر خود مٹی پہ ماتھا رکھنے کی بجائے مٹی کو اپنے شان کے مطابق بنا لیتے ھیں ، یہ بالکل مکے کے اس بوڑھے کا سا رویہ ھے کہ جس نے مٹی پر سجدہ کرنے کی بجائے مٹی زمین سے اٹھا کر اپنے ماتھے پر لگا لی تھی کہ میرے لئے یہی کافی ھے –
خیر صحابہؓ کو اجازت دی گئ تھی ان کی سہولت کے لئے کہ وہ دھوپ کی تپش میں توے کی طرح گرم زمین پر اپنے عمامے کا پلو نیچے بچھا کر کے اس پر سجدہ کر لیں ،مگرھم نے اس میں سے 4 ۔ 4انچ کے موٹے قالین برآمد کر لئے ھیں ،،
سوال یہ ھے کہ آپ کا ماتھا زمین پر لگتا نہیں ،، مگر آپ کا اجتہاد ھے کہ چونکہ قالین زمین پر لگا ھوا ھے لہذا ھمارا ماتھا بھی زمین پر لگا ھوا ھی تصور کر لیں ، یہی معاملہ عورت کی نیل پالش کا ھے کہ نیل پالش کا ایک سرا سختی کے ساتھ اس کے بدن کے ساتھ چمٹا ھوا ھے اور دوسرے سرے کو وہ دھو دیتی ھے ، یہ اجتہادی معاملہ ھے کیونکہ نبئ کریم ﷺ کے زمانے میں یا فقہاء کے زمانے میں یہ چیز موجود ھی نہیں تھی ، اگر نیل پالش عورت کے ناخن پر لگی ھے اور نیل پالش سمیت جب وہ کھانا کھانے کے لئے ہاتھ دھوتی ھے تو ھر کوئی اس کو ہاتھ دھونا ھی تسلیم کرتا ھے پھر وضو میں جب وہ ھاتھ دھوتی ھے تو کون کہہ سکتا ھے کہ اس نے ھاتھ نہیں دھوئے ؟ نیل پالش زیرِ بحث ھی کیوں آتی ھے ؟ اللہ نے اس کو ہاتھ دھونے کا حکم دیا ھے اور وہ ہاتھ ھی دھوتی ھے ، جو نیل پالش اس کے ناخن کا مکمل جزو بن چکی ھے اس پر پانی پھرتا ھے تو آپ کو قبول نہیں ،مگر مصلی جو ساری نماز میں دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں چلتا رھتا ھے اس پر آپ کا سر کیسے زمین پر لگا ھوا مان لیا جائے ؟ ناخن اگر پانی پیتا ھے تو وہ آپ کے استنجے کا پانی بھی پیتا ھے ، اس کو پاک کرنے کی فکر کریں ، نیل پالش استنجے کے پانی کو نہیں پیتی – یہ سب بعد والوں کا تشدد ھے اس میں کوئی نص قطعی نہیں ھے – ہاتھ کو تیل لگا ھوا ھو تو بھی وضو ھو جاتا ھے اگرچہ چکنائی کی وجہ سے پانی ھاتھ تک نہ بھی پہنچے ، اور صابن وغیرہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ھوتا نہیں تھا ،چکنائی سمیت ھی وضو اور غسل ھوتا تھا ، رسول اللہ ﷺ کا سر تیل سے گَچ رھتا تھا جس پر ایکسٹرا کپڑا رکھا جاتا تھا جو تیل کی چکناہٹ سے لت پت ھوتا تھا ، اس حالت میں سر پر پانی بہا دینے سے غسل ھو جایا کرتا تھا اگرچہ تیل نے پانی کو سر کی جلد تک نہ پہنچنے دیا ھو مگر پانی جب سر پر سے بہہ جاتا تھا تو وہ سر دھونا ھی کہلاتا تھا ، ورنہ ڈیڑھ دو لیٹر پانی سے کوئی غسلِ جنابت کر کے دکھائے ؟ ھر مسام اور ھر بال تک پانی پہنچانا ان کی فقہ ھے جو دجلہ و فرات کے کنارے رھتے تھے ،جو پینے کے لئے بھی پانی خرید کر لیتے تھے وہ دو صاع پانی سے غسلِ جنابت کر لیتے تھے ، وضو کر کے دو چلو پانی سر پر ڈال کر سر کو مل لیتے تھے اور باقی پانی سر پر سے پورے بدن پر بہا دیتے تھے ، اس کا نام غسل تھا ، وہ پکڑ کر فوارے کانوں یا ناف یا بغلوں کے نیچے نہیں مارا کرتے تھے – چارپائی کے پیچھے سے کپڑوں سمیت یہی غسل کر کے حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اپنے بھانجے کو دکھایا تھا کہ بیٹھ کر وضو کیا اور کھڑے ھو کر باقی پانی اپنے سر پر سے بہا دیا اور فرمایا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا غسل تھا ،، یہی مسئلہ پوچھنے حضرت عائشہؓ کے محرم کو چنا گیا تھا کہ لوگ حیران ھوتے تھے کہ بعد والوں کی غسل کی تفصیلات سے تو لگتا تھا کہ غسل کے لئے ایک بالٹی پانی بھی ناکافی ھے ،جبکہ روایت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ ایک صاع میں وضو اور دو صاع میں غسل کر لیا کرتے تھے ،فقیہوں کا تشدد دیکھو تو دو صاع چھوڑ چار صاع سے بھی غسل ناممکن لگتا تھا ،فیصلہ کیا گیا کہ ازواج مطھرات کو تکلیف دی جائے کہ وہ غسل کی کییفیت واضح کریں کہ وہ کیسا غسل تھا جو دو صاع ( گندم ماپنے والا پیالا جس کو ھمارے علاقے میں چواہ کہتے ھیں ) پانی سے ھو جاتا تھا ،، عورت اپنے بالوں کا جوڑا بنا کر سر سے دور کر لے گی تا کہ وہ خشک رھیں اور دو چلو پانی سر پر ڈال کر سر کو اچھی طرح مل کر سر پر سے پانی بہا دے گی اور ھاتھ سے جہاں تک ممکن ھے اس کو مل دے گی ، اگر نیچی زمین پر کھڑے ھیں جہاں پاؤں کیچڑ سے بھر جائیں تو آخر میں پاؤں دھو لے یہ غسل ھو گیا – وضو کے بعد اصل میں سر ھی غسل کا محل ھے ، ھمارے زمانے میں اور شاید اب بھی جنابت یا حیض کی حالت کو ” سر پلید ھونا” کہا جاتا تھا – خیر بات لمبی ھو گئ ھے مگر عورت پر نیل پالش کے سلسلے میں تشدد ایک اجتہادی معاملہ ھے ، اس لئے کہ نیل پالش بعد کے دور کی پیدائش ھے جبکہ شریعت مکمل ھو چکی تھی، اور اجتہاد ھمیشہ امت کو سہولت فراھم کرنے کے لئے کیا جاتا ھے نہ کہ امت کا گلا گھونٹنے کے لئے –
نیم علماء کے لئے –
1- ارشاد الساری ، ج۱ ص۴۰۵ ۔ ”قال (ص) لمعاذ : عفّر وجھک فی التّراب “
رسول اللہ ﷺ نے معاذؓ سے فرمایا کہ پیشانی کو خاک میں خوب جما کر رکھو –
2- (۴) کنز العمال ج۴/ص۹۹/۲۱۲دوسرا طبع، ج۷/ص۳۲۴ ،الاصابۃ ج۱/ص/۵۰۲،شمارہ /۲۵۶۲۔اسد الغابۃ ج۲/ ص/۱۶۱ ۔ ” قال النّبی (ص) یا رباح ترّب “
نبئ کریم ﷺ نے حضرت رباحؓ سے فرمایا کہ : اے رباح ماتھے کو خاک آلود ھونے دے-
3- النھایۃ (ابن اثیر ) ج۲ مادہ رغم ۔ ”اذا صلیٰ احدکم فلیلزم جبہتہ و انفہ الارض حتیٰ تخرج منہ الرغم ان یظہر ذلہ وخضوعہ“
تم میں سے جو سجدہ کرے وہ ناک اور ماتھے کو زمین پر خوب جمائے تا کہ اس کی اکڑ نکلے اور انکساری و خضوع جگہ پکڑے-
4- (۶) سنن بیہقی ج۲/ص۱۰۵۔ ”ان رسول اللّہ (ص) رای رجلاً یسجد بجنبہ وقد اعتم علیٰ جبہتہ،فحسر رسول اللّہ (ص) عن جبہتہ “۔
اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو ماتھا ٹیڑھا کر کے اپنے عمامے پر سجدہ کرتے دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا عمامہ ہٹا دیا –
5- سنن بیہقی ج۲/ص۱۰۵۔ ” رای رسول اللّہ (ص)رجلاً یسجد علیٰ کور عمامتہ فاوما بیدہ: ارفع عمامتک و اوما الیٰ جبہتہ “
رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو اپنے عمامے کے فالتو حصے پر سجدہ کرتے دیکھا تو اس کو ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ کہ عمامہ ہٹا کر ماتھا زمین پر رکھے –
6- احکام القرآن (جصاص حنفی ) ج۳/ص/۲۰۹طبع بیروت۔ ” رایت النبی (ص) اذا سجد وضع جبہتہ و انفہ علیٰ الارض “
میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنا ماتھا اور ناک زمین پر رکھتے –
7- مجمع الزوائد ،ج۲/ ص/ ۱۲۶ : ” سجد رسول اللّٰہ (ص) فی یوم مطیر حتی انی لأنظر الی اٴثر-
رسول اللہ ﷺ نے بارش والے دن اس طرح سجدہ فرمایا کہ میں نے گیلی مٹی کا نشان آپکے چہرے پہ دیکھا –
آج ھم چار انچ موٹے قالین کو تو زمین کہنے پر تیار ھیں مگر انڈے کی جھلی سے بھی باریک نیل پالش کی تہہ کو ناخن تسلیم کرنے کو تیار نہیں –