نبئ کریمﷺ میں نورانیت بھی تھی اور بشریت بھی تھی ،،

وحی کے نزول کے وقت آپ ﷺ کی نوارنیت غالب آ جاتی تھی جو جبریل سے جڑتی اور وحی کو اخذ کرتی تھی بلکہ جبریل بھی لائن مین تھے نبی میں نورانیت کو Activate کرتے تھے پھر رابظہ خالقِ کائنات سے ھو جاتا تھا ،، نارمل ھو کر آپ وہ وحی محفوظ کروا دیتے تھے اور آپ کی بشریت دوبارہ غالب آ جاتی تھی ،، ورنہ وحی کا بوجھ تو اونٹنی بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی !
آپ نورانی ھاتھ سے لیتے تھے اور بشری ھاتھ سے تقسیم فرماتے تھے !
وحی کی سخت ترین قسم کا نزول نبئ کریم ﷺ پر ھی ھوا ھے ،جس کا ذکر اللہ نے عیسی علیہ السلام کے کی بشارت کے ذریعے کر دیا تھا کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا ،، موسی علیہ السلام پہ پہلی وحی درخت کے ذریعے کی گئ اور درخت نے دعوی کیا کہ ،انی انا ربک ،، اننی انا للہ لا الہ الا انا ۔۔ باقی انبیاء کے کانوں نے سنا ھے جب کہ نبئ کریمﷺ کے قلب نے اللہ پاک کی وہ صوتِ قدیم سنی ھے جس میں نہ الفاظ ھیں نہ آواز ،، اسی لئے آپ کو آخر میں رکھا گیا تھا کہ اس وحی کا ابد الاباد کے لئے محفوظ کرنا مقصود تھا ، باقی رسولوں کے ساتھ ان کی کتابیں بھی گئیں ،، مولانا سلیم اللہ خان کی کشف الباری کی کتاب ” کیف بدء الوحی ” میں تفصیل پڑھی جا سکتی ھے !