نا آسودہ نسلیں ۔

جن بچوں کو پانچ سات سال کی عمر میں والدین مدرسے والوں کے حوالے کر کےبھول جاتے ہیں گویا جنت کے لئے شیئر خرید لئے ہیں،ان بچوں کا بچپن نا آسودہ رہتا ہے، جب یہ عالم بن کر نکلتے ہیں تو دوسرے بچوں کو کھیلتے کودتے،ناچتے گاتے دیکھتے ہیں تو ان کو آگ لگ جاتی ہے کہ ہمارا بچپن تو جنت کے نام پر کچل دیا گیا جبکہ یہ بچے ناچنے گانے کے باوجود جنت میں چلے جائینگے۔ ان کے نزدیک یہ ظلم اور نا انصافی ہے، لہذا چار پانچ سال کی بچی کے بیساختہ رقص پر بھی فتوے شروع ہو جاتے ہیں، جبکہ انکے بڑے بڑے قطب دین کے نام پر رقص کرتے رہے ہیں اور چشتی تو اس میں پی ایچ ڈی ہیں۔ بچے کو میٹرک کے بعد ہی مدرسے بھیجنا چاہئے، تب تک اس کا بچپن بھی آسودہ ہو جاتا ہے اور اس کا جنسی استحصال بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔