ملحدین کا غزوہ بدر پہ اعتراض

ملحدین کے بقول مسلمان بیچارے ابو سفیان کے پر امن تجارتی قافلے کو لوٹنے نکلے تھے ،خوش قسمتی سے وہ قافلہ بچ گیا تو بدلے کے طور پہ قریش نے چڑھائی کی ،، زیادتی مسلمانوں کی طرف سے ھوئی تھی ،،،،،،،،،،،،،،،،
اصل صورتحال ،،،
مسلمانوں کو ایک مخصوص نظریہ رکھنے کی بنیاد پر 13 سال ظلم و ستم کی چکی اور معاشی بائیکاٹ جیسے عذاب سے گزرنا پڑا ،، جب وہ ھجرت کرنے لگتے تو انہیں اس شرط پہ مکہ چھوڑنے کی اجازت ملتی تھی کہ وہ اپنا سب کچھ ان کے حوالے کر کے مکہ چھوڑ سکتے ھیں یوں کچھ دین کی وجہ سے اور کچھ مسلمانوں کی جائداد کی لالچ کی وجہ سے ھر ایک نے مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ،،، مسلمان جب یہ سب کچھ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے تو قریش کی چوپال میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں سے لی گئ غیرمنقولہ جائداد تو ان کے رشتے دار اپنے قبضے میں رکھیں مگر مال و دولت کو ایک تجارتی قافلے پہ لگا دیا جائے جو یمن وغیرہ سے سامان کی خریداری کر کے شام جائے اور اس قافلے سے جو بھی منافع ھو اصل رقم ساتھ ملا کر اس ے اسلحے کی خریداری کی جائے اور مدینے پر چڑھائی کر کے مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا جائے ،،، جب یہ خبر مدینے پہنچی تو مہاجرین نے طے کیا کہ جس قافلے میں ان کا ان کے خلاف استعمال کرنے کی پلاننگ کی گئ ھے اس قافلے سے اپنا اپنا مال چھین لیا جائے تو کفر کی پلاننگ بھی ناکام ھو جائے گی اور ھمارے حالات بھی کچھ بہتر ھو جائیں گے ،،یہی وجہ تھی کہ اس فیصلے میں صرف مہاجرین مکہ شریک ھوئے انصار کے کسی آدمی کو تکلیف نہیں دی گئ ،، ابو سفیان اپنی حکمتِ عملی کی وجہ سے بچ کر نکل گیا تو اسے یقین تھا کہ واپسی پر اسے ضرور شب خون کا سامنا ھو گا لہذا اس نے مکہ پیغام بھیج دیا کہ مدد کو پہنچو ،،،،،،،،،،،،،،،، ادھر اللہ پاک نے وعدہ فرما لیا کہ تم جس گروہ کو چنو گے تمہیں فتح دونگا ،،، عام مکی صحابہؓ کا رجحان تجارتی قافلے کی طرف تھا جبکہ اللہ کے نزدیک اب کفر پہ عذاب کا کوڑا برسانے کا وقت آ گیا تھا ،، لہذا اللہ کے رسول ﷺ نے قریش کے جنگی لشکر کا سامنا کرنے کا فیصلہ کر لیا جس کی اللہ پاک نے تصویب و تائید فرمائی یوں کفر کے امام بدر میں مکی مھاجروں کے ھاتھوں کھیت رھے جن میں اس امت کا فرعون ابوجھل بھی شامل تھا ،،، یہ جنگ مکی مظلوموں اور مکی ظالموں کے درمیان تھی ،انصار کو اس میں شمولیت کی دعوت ھی نہیں دی گئ ،،
ملحدین کو یہ نظر نہیں آتا کہ آخر مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر پہلے حبشہ اور پھر مدینہ آنا ھی کیوں پڑا ؟ اپنا مال واپس لینا کوئی ڈاکا نہیں ھے بلکہ انسان کا حق ھے ،، سورہ الانفال میں اللہ پاک نے دسویں پارے کے شروع میں اس کی تفصیل بیان فرما دی ھے کہ کیوں یہ جنگ ضروری تھی اور اس ٹکراؤ کے لئے اللہ پاک نے کس طرح دونوں گروھوں کو آمادہ کیا ،،، اس جنگ میں اللہ نے رسول کو جھٹلانے والی قوم پر آسمان سے عذاب برسانے کی سنت میں تبدیلی فرمائی اور کہا کہ قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم ،، ان کو قتل کرو اللہ ان پر تمہارے ھاتھوں عذاب بھیجے گا تا کہ تمہارے دلوں کا غصہ نکلے اور تمہیں سکون ملے ،،