معجزہ ، کرامت اور سائیکومیٹری !

 
اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں کہیں بھی معجزے کا ذکر ” معجزے ” کے لفظ سے نہیں کیا ! بلکہ آیت کے لفظ سے کیا ھے ، یعنی نبوت اور رسالت کی نشانی ! وما کان لنبیٍ ان یأتی بآیتٍ الا باذن اللہ ،، اور کسی نبی کے بس میں نہیں کہ آیت یعنی معجزہ دکھا دے مگر اللہ کے اذن سے ! جب قریش کے ایک وفد کے اس اصرار پر کہ اگر اسے فلاں معجزہ دکھا دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے جب کہ اللہ پاک جانتا تھا کہ وہ جھوٹے ھیں،نیز اس قسم کے معجزے کے دکھانے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو پھر لازماً اس کو عذابِ الٰہی کا سامنا کرنا پڑتا ھے ،، چنانچہ نبی ﷺ کا رجحان اس طرف تھا کہ معجزہ دکھا دیا جائے ،، اور جب اللہ نے انکار فرما دیا اور وہ وفد اٹھ گیا اور اس کا جانا نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی پہ گراں گزرا تو اللہ پاک نے فرمایا ،، و ان کان کبرَ علیک اعراضھم ، فان استطعت ان تبتغی نفقاً فی الارضِ او سلماً فی السماء فتاتیھم بآیۃٍ، ولوا شاء اللہ لجمعھم علی الھدی فلا تکونن من الجاھلین ( الانعام 35 ) اگر ان کا منہ پھیر کر چل دینا آپ کو گراں گزرا ھے ،، تو پھر آپ اگر استطاعت رکھتے ھیں تو زمین میں خندق کھود کر یا آسمان سے سیڑھی لگا کر معجزہ لے جایئے ( اور انہیں دکھا دیجئے ) اور اگر آپ کا اللہ چاھے تو انہیں ( جبراً ) ھدایت پر جمع کر دے ، پس آپ ناواقف لوگوں کی سی بات مت کریں !
پورے قرآن میں ایسی مثالیں جگہ جگہ مل جائیں گی !
نبی چونکہ اللہ کا نمائندہ ھوتا ھے اور اس پر ایمان لانا اخروی نجات کی پہلی شرط ھے ،لہذا لوگوں کا حق ھے کہ وہ معجزہ طلب کریں اور اللہ ان کا اخلاصِ نیت دیکھ کر معجزہ دکھاتا بھی ھے،،مگر اس وفد پر اتمام حجت ھو چکا تھا اور وہ اپنی ھٹ دھرمی پہ قائم تھا ،بس وہ چاھتا تھا کہ صبح صبح روزانہ اٹھ کر نبی سے ایک آدھ معجزہ بطور انٹرٹینمنٹ دیکھ کر اپنے اپنے کاموں پر جایا کریں !
تو نبی پہ ایمان لانا ضروری ھے اور اس سے معجزہ اللہ اتمام حجت کے لئے دکھاتا ھے ،، نبی اللہ کا نمائندہ ھے اور اس پر ایمان لانے کے بعد احکامت کے اس سارے سلسلے کو ماننا ضروری ھوتا ھے جو اس نبی کے ذریعے ملتا ھے ،،
مگر کسی کو ولی ماننے نہ ماننے سے کسی کی جنت جہنم کا کوئی معاملہ نہیں ،، اگر ولی ھے اور آپ نے نہیں مانا تو اس کی ولایت پر ایمان لانا جنت میں جانے کے لئے ضروری بھی نہیں تھا اور نہ کسی کی ولایت کا انکارکرنا کفر ھے ! لہذا معجزے اور نام نہاد کرامت کا آپس میں کسی طرح بھی تعلق نہیں ھے !
پھر آپ دیکھتے ھیں کہ اللہ کی مرضی کے بغیر نبی معجزہ نہیں دکھا سکتا ،یہ اس کے بس میں نہیں ھے !
مگر دوسری جانب ولی کرامتوں کی ٹوکری بھرے گلی گلی ھاکرا لگا رھے ھیں کہ ۔۔ کرامت ویکھ لو ،، کرامتاں ویکھ لووووووووو ! پھر کرامت ولی کے بس میں کیوں ھے ؟ کیا ولی نبی سے بھی اوپر کی چیز ھے جو اللہ کی اجازت کے بغیر اسٹور سے کرامت ڈاؤن لؤڈ کر لیتا ھے ؟
پہلی بات یہ کہ نبی تو اللہ کی طرف سے بھیجے جاتے ھیں ، وہ اس دنیا میں ھو کر بھی اللہ کی بیوروکریسی کا حصہ ھوتے ھیں جس طرح عدالت کا پورا عملہ سمن کی تعمیل کرانے والے ھرکارے سے لے کر اھلمد اور جج سارے عدالتی عملہ کہلاتا ھے ،، جہاز میں سوار ھونے کے باوجود جہاز کا عملہ مسافر نہیں کہلاتا بلکہ الگ اصطلاح کریو ممبرز کے تحت آتا ھے ! اسی طرح نبی ھم میں ھونے کے باوجود ربانی عدالت کے عملے سے تعلق رکھتے ھیں ،، اور ھر نبی اپنی امت کا حساب بحیثیت پبلک پراسیکیوٹر کروائے گا ،، خود نبی کریم نے اپنے آپ کو اس دنیا سے الگ بیان فرمایا ھے،،حُبِۜب الی من ” دنیاکم ” ثلاث ،، میرے لئے تمہاری دنیا میں سے تین چیزیں پسند کی گئ ھیں ،،، !
اللہ ھر مومن کا ولی ھے اور ھر مومن اللہ کا ولی ھے ،، اللہ ولی الذین آمنوآ۔۔۔ اللہ دوست ھے ایمان والوں کا ،، جب اللہ دوست ھے تو ظاھر ھے مومن اللہ کے دوست ھی ھونگے ،، دشمن تو نہیں ،، اگر ایک شخص آپ سے ایک میٹر دور ھے تو آپ بھی تو اس سے ایک میٹر دور ھیں ،، لہذا صدق دل سے ایمان رکھنے والا ھر مومن اللہ کا ولی ھے ،، اور اللہ ان کا ولی ھے !
البتہ یہ جو ولیوں کے نام پر ایک الگ نسل تیار کر لی گئ ھے ،، جو فلاں فلاں مجاھدہ کر لے یا کپڑے اتار دے وہ اللہ کا ولی ھو جاتا ھے ، اسکی کوئی دلیل کتاب و سنت میں نہیں ملتی ،، البتہ جس مٹی کی ھم پیدائش ھیں اس مٹی میں یہ وائرس کثرت سے پایا جاتا ھے ! اور تپسیا کے ذریعے بھگوان بننے کا فارمولا بھی ادھر ان میں ھی پایا جاتا ھے،،صحابہ میں ھمیں کوئی اس فارمولے پہ عمل کرتا دکھائی نہیں دیتا ! وھاں تو ان کے بقول عمر فاروق کو بھی نفاق کا خدشہ تھا اور یہاں ولی نہ صرف اپنے اپنے مقام سے آگاہ ھیں بلکہ دوسروں کو معزول کر کے نئے بھرتی کرنے والے ابدال بھی ھیں !
کرامت ، سائیکو میٹری اور غیر مسلم قطب !
جب ھمارے صوفیاء نے یوگا کی مختلف مشقوں کا ایک جیسا نتیجہ دیکھا اور جو طاقت اپنے اندر محسوس کی وھی شکتی بھگوان داس اور چرن داس میں پائی تو وہ کنفیوز ھو گئے اور اسی کنفیوژن میں تمام مذاھب کو ایک بنا کر بیٹھ گئے کہ مذھب کا خدا کے قرب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو بھی گیان دھیان سے کام لے وہ رب کی معرفت حاصل کر لیتا ھے ،، وہ یہ نہ سمجھ پائے کہ یہ فن ھے ،اور فن کا کسی مذھب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ھوتا ،، بلکہ ریاضت کے ساتھ ھوتا ھے ! اس کا نتیجہ آپ صوفیانہ کلام کی شکل میں دیکھتے ھیں چاھے وہ فارسی کلام ھو اردو ھو یا پنجابی ،، بلکہ پنجابی صوفیانہ کلام تو ایسا میٹھا زھر ھے کہ سات سروں کے ساتھ انسانی باطن کے سات دروازے ” لطیفے ” ٹیون کر کے سیدھا اندر جا کر انسٹال ھو جاتا ھے ،، بدعات اور بد عقیدگی سنجیدہ بحث مباحثے سے نہیں بلکہ قوالی اور شاعری کی ھلکی پھلکی فضا میں ھمارے اندر انسٹال ھوئی ھے،مناظرے میں انسان اپنے دل و دماغ کو بند کر کے اور کنڈیاں تالے لگا کر بیٹھتا ھے،،مگر قوالی میں وہ نیم غنودگی اور ما بین الیقظۃ والنوم کی کیفیت میں سب کچھ کھا پی کر ھضم کر لیتا ھے !
میں پہلے غیر مسلم قطب کے واقعات بیان کر دوں تا کہ آپ پہ اس نام نہاد کرامت کی حقیقت واضح ھو !
بی بی سی ھندی سروس نے ایک پروگرام دیا تھا ایک ھندوستان کے ایک قبیلے کے بارے میں کہ اس قبیلے کا پیشہ چوری ھے ،مگر پولیس جب ان کو پکڑ کر تشدد کرتی ھے تو وہ مر جاتے ھیں اور بعد میں زندہ ھو جاتے ھیں ،، پولیس والے گھبرا کر لاش کہیں پھینک دیتے ھیں تو وھی بندہ کسی اور واردات مین پکڑا گیا ،،جب اس قسم کے تیرہ واقعات ھو چکے تو پولیس نے پھر ان کا کھوج لگایا اور بی بی سی کے نمائندے نے ان سے انٹرویو کیا ، انہوں نے بتایا کہ ھم تین سال کی عمر سے بچے کو مشقیں کرانا شروع کرتے ھیں اور چھ سات سال کی عمر تک ھمارا بچہ اپنی آتما نکال لیتا ھے ،، وہ اپنے خون اور نبض کا دوران اتنا آئستہ کر لیتے ھیں کہ مردہ لگتے ھیں ،،مگر پھر خود ھی دوران خون بڑھا کر حرکت میں آ جاتے ھیں ! یہی صلاحیت ھندو یوگی ، اچاریہ ،تنتری وغیرہ پیدا کرتے ھیں اور یہی سب کچھ ھر مذھب والا کر سکتا ھے،،یہ اکتسابی قوت ھے ،، اس کا ولایت سے کوئی تعلق نہیں !
یہ قوت بعض لوگوں میں بلا تفریق مذھب پیدائشی ھوتی ھے تو بعض اس کو مشقوں سے حاصل کرتے ھیں ! امریکہ میں ایک شخص کی ڈاکومنٹری دستیاب ھے ،جس نے مشقوں سے اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کر لی تھی کہ وہ سفارتی تھیلوں والے سیکشن میں امریکی سی آئی ائے کی جانب سے متعین تھا ، جہاں وہ اپنے ھاتھوں کی مقناطیسی طاقت سے روس کے سفارتی تھیلوں میں موجود ریکارڈنگ کو Demagnetize کر دیتا تھا یعنی صاف کر دیتا تھا،، امریکی اور روسی صدور کے درمیان ایک معائدے پر دستخط کی تقریب اسے واشگنٹن میں ٹی وی پہ دکھائی گئ اور اسے کہا گیا کہ وہ روسی صدر سے دستخط کروائے ،، روسی صدر دستخط کرنے سے ھچکچا رھا تھا مگر یہ مسلسل اسے کمانڈ دے رھا تھا سائن اٹ ، سائن اٹ ،، اور روسی صدر نے سائن کر دیئے ،، فرار ھونے والے جاسوسوں کی کشتی کا تعاقب کرتے ھوئے اسے کہا گیا کہ کیا وہ یہ کشتی رکوا سکتا ھے؟ اس نے آگے جانے والی کشتی کے انجن کے پنکھے کے پر ھاتھوں کی حرکت سے موڑ دیئے اور کشتی رک گئ ! کشتی کے انجن کا ملاحظہ کیا گیا تو اس کا دعوی سچ نکلا انجن کے پر مڑے تڑے ھوئے تھے ! اپنی اس طاقت کو بحال رکھنے کے لئے وہ 25 کلومیٹر روزانہ جوگنگ کرتا تھا !
گزرے واقعات کو کشف سے دیکھنا سائیکومیٹری کہلاتا ھے ! یہ لوگ یوں واقعہ بیان کرتے ھیں گویا موقعے پر موجود ھیں !
امریکہ میں ایک خاتون ڈورتھی ایلی سن ایک ایسی خاتون تھی جسے اس کی کارکردگی پر پولیس اور محکمہ داخلہ کی جانب سے کئ تمغے دیئے گئے تھے ! اسے خود معلوم نہیں تھا کہ اس میں یہ صلاحیت کیسے پیدا ھوئی ( پیدائشی ولی )
بین القوامی سائیکومیٹری میں دو بھائیوں کے کارنامے بے حد شہرت کا سبب بنے ! ان کو انسانی ریڈار اور جادوگر قرار دیا گیا ! Gerard Croist 1909 میں پیدا ھوا ، وہ غریب والدین کا چشم و چراغ تھا اور محتاج خانوں میں پلا بڑھا مگر اس میں کشف کی صلاحیت بچپن میں ھی پیدا ھو گئ تھی !

سائیکومیٹری اور کرامت ،، 2
بین الاقوامی سائیکومیٹری میں دو بھائیوں کے کارنامے بے حد شہرت کا سبب بنے ! ان کو انسانی ریڈار اور جادوگر قرار دیا گیا ! Gerard Croist 1909 میں پیدا ھوا ، وہ غریب والدین کا چشم و چراغ تھا اور محتاج خانوں میں پلا بڑھا مگر اس میں کشف کی صلاحیت بچپن میں ھی پیدا ھو گئ تھی ! ایک روز اسکول کا ایک استاد ایک دن کی غیر حاضری کے بعد اسکول آیا تو کروائیسٹ نے اسے بتایا کہ وہ گزشتہ روز ایک لڑکی سے ملنے بہت دور گیا تھا ، اس لڑکی نے سرخ گلاب لگا رکھا تھا ، اور استاد اس لڑکی سے شادی کرنے والا ھے، استاد حیران رہ گیا کیونکہ بات 100٪ درست تھی ، اس کی اس صلاحیت کو دیکھتے ھوئے تاریخ مین پہلی دفعہ کسی ایسی ھستی کو ملازمت دی گئ جو پراسرار طاقت سے کام لے سکتا ھو ! اس نے کئ گتھیاں سلجھا کر پولیس کو حیران کر دیا ! مثلاً 1945 میں ایک جرم کے تمام ملزمان کو اکٹھا کیا گیا ، مگر پولیس کو اصل مجرم نہ مل سکا ،،کروائیسٹ کو بلایا گیا ،، اور اسے ایک پیکٹ دیا گیا ! اس نے بغیر کھولے بتا دیا کہ پیکٹ میں تمباکو کا ڈبہ ھے ، پھر اس پیکٹ کو پکڑ کر اس نے دماغ کے گھوڑے دوڑانے شروع کیئے اور بتایا کہ ملزمان میں سے دو بھائی ھیں جو درمیانی عمر کے ھیں ! پھر ان کے مکان کی تفصیل بتائی ،پھر بتایا کہ یہ دونوں ایک لڑکی کو پکڑ کر بھینسوں کے باڑے مین لے گئے ،، لڑکی ذھنی معذور ھے ،، پھر اسے بھینسوں پر ڈالنے والے کمبل میں بند کر کے مارنے کے مشورے کر رھے ھیں مگر پھر لڑکی کو چھوڑ دیا ،،کروائیسٹ نے ان بھائیوں کے دیگر جرائم بھی بتائے اور یہ بھی بتایا کہ اعتراف کے بعد ایک بھائی خودکشی کر لے گا ،، ملزمان میں سے دو بھائی ثابت ھوئے جنہوں نے اعتراف جرم کر لیا اور ٹھیک دو ھفتے بعد ایک بھائی نے خودکشی کر لی !
کروائیسٹ کی شہرت بیرون ملک تک پھیل گئ ! جون 1958 میں امریکی پولیس نے امریکی تاریخ کے سب سے متنازعہ جرائم میں سے ایک میریلن شیفرڈ قتل کیس کے سلسلے میں کروائیسٹ کو مقتولہ کے دو سرخ بوٹوں کا جوڑا بھیجا ،، کراوئیسٹ نے بتایا کہ یہ ایک حسین عورت کے جوتے ھیں جو قتل کر دی گئ ھے اور قاتل ایک جھاڑ جھنگاڑ بالوں والا شخص ھے،،میری لن شیفرڈ کے قتل کا شبہ اس کے شوھر پر کیا جا رھا تھا ،،جبکہ اس کا بیان تھا کہ اسے ایک جھاڑ جھنگاڑ بالوں والے شخص نے سر پہ ضرب لگا کر قتل کیا ھے،، کروائیسٹ کی تصدیق کے بعد امریکی عدالت نے اسے بری کر دیا ! فروی 1961 میں کروائیسٹ کو 4 سالہ بچی گوگل کی گمشدگی کے سلسلے میں نیویارک پولیس نے مدد مانگی ! کراویسٹ نیدر لینڈ کا باشندہ تھا اور کبھی امریکہ نہیں آیا تھا مگر وہ فون پر نیویارک پولیس کو گائیڈ کرتا رھا یہاں تک انہیں ایک گھر کے صحن میں اس جگہ لا کھڑا کیا جہاں گوگل کو قتل کر کے دفن کیا گیا تھا ،،گھدائی پر گوگل کی لاش مل گئ ! کروائیسٹ نے قدیم مخطوطوں کی تصدیق میں بھی اھم رول ادا کیا اور مزے کی بات یہ کہ کئ کئ دن اس کی یہ قوت کام نہیں کرتی تھی بلکہ خوابیدہ رھتی تھی کروائیسٹ اسے خدا کا تحفہ کہتا تھا اور اس نے تمام خدمات کے عوض ایک فلس معاوضہ نہیں لیا اگرچہ وہ غریب آدمی تھا !
کروائیسٹ کے پانچ بچوں میں سے ایک بچے جیرارڈ کروائیسٹ کے اندر اپنے باپ والی قدرتی صلاحیت موجود تھی ،، اس نے نیدر لینڈ مین رھتے ھوئے امریکی پولیس کو دو بہنوں کی تلاش کے لئے فون پر نقشہ بنوایا اور دونوں بہنوں کی لاشیں تنگ قبروں سے برآمد کر لی گئیں انہیں قتل کر دیا گیا تھا ! پیٹروان ڈرھرک جسے دنیا ھرکوس کے نام سے جانتی ھے دوسری جنگ عظیم کے زمانے کا شخص تھا جس نے تہلکہ مچا کر رکھ دیا ،، وہ چمنیاں صاف کیا کرتا تھا ،، ایک دن بارش کے دوران ایک چمنی سے پھسلا تو دھڑام سے زمین پر جا لگا اور اس کی کھوپڑی مین فریکچر ھو گیا ،ھوش آیا تو پیٹر کی دنیا تبدیل ھو چکی تھی وہ لوگوں کے ذھن پرھ سکتا تھا ،، اپنی نبض چیک کرنے والی نرس کو اس نے کہا کہ وہ احتیاط سے کام لے ورنہ اپنے دوست کا سوٹ کیس کھو دے گی، تب نرس کو یاد آیا کہ وہ اپنی دوست کا سوٹ کیس گاڑی میں بھول گئ ھے ! ھرکوس کسی بھی چیز کو پکڑ کر اس کے مالک کی ساری زندگی کا پول کھول دیتا تھا ،جس کی وجہ سے اس کی اپنی زندگی خطروں میں گر گئ !
اسپتال سے فارغ ھونے والا ایک مریض ھرکوس سے ھاتھ ملانے آیا تو اس کا ھاتھ تھامتے ھی ھرکوس نے کہا کہ اسے اسپتال سے نکلتے ھی گولی مار دی جائے گی،،جانے والا مسکرا کر چلا گیا ،،مگر باھر نکلتے ھی ایک گلی میں اسے گولی مار دی گئ ! مقتول نازی مزاحمتی تحریک کا رکن تھا ، جو زیرِ زمین کام کر رھا تھا،، تحریک نے ھرکوس کو نازی ایجنٹ سمجھ کر مارنے کے لئے آدمی بھیجا مگر ھرکوس بروقت اسپتال سے نکل کر چھپنے میں کامیاب ھو گیا ! ھرکوس سے پولیس نے بھی استفادہ کیا ایک شخص کو گھر کے دروازے پہ قتل کر دیا گیا،،ھرکوس نے مقتول کے کوٹ کو پکڑ کر بتایا کہ اسے ایک بوڑھے شخص نے قتل کیا ھے ،، آلہ قتل چھت پہ ھے اور بوڑھے کی مونچھیں ھیں جبکہ دونوں ٹانگیں مصنوعی ھیں ،، قاتل پکڑا گیا جو کہ اسی حلیئے کے مطابق تھا ! 1950 میں برطانیہ میں ویسٹ منسٹر ایبے سے ایک بیش قیمت ھیرا چوری ھو گیا ، سکاٹ لینڈ یارڈ کی سر توڑ تلاش کے باوجود چور کا پتہ نہ چلا ! ناچار ھرکوس کو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا اور اسے لندن بلا لیا گیا ! ھرکوس کو ایک گاڑی اور ایک ھتھیار دیا گیا جو مجرم بھاگنے وقت چھوڑ گئے تھے ! ھرکوس کو لندن کا ایک نقشہ دیا گیا اور ھرکوس نے آئستہ ائستہ اس نقشے پہ لکیر کھینچنا شروع کی حالاںکہ اس سے قبل اس نے لندن نہیں دیکھا تھا ،مگر وہ حرت انگیز طور پر چوری کے روٹ کی تمام عمارتوں کی ٹھیک نشاندھی کرتا آگے بڑھتا رھا ،،اس نے بتایا مجرم ایک نہیں تین ھیں جن میں ایک عورت ھے ! تین ماہ بعد تینوں مجرم ھیرے سمیت گرفتار کر لیئے گئے ،،
سائیکومیٹری اور کرامت- 3
ذھنی تصویر کشی اور جادو !
جادوگر اپنی نفسانی قوت سے متعلقہ شخص کو بیمار دیکھتا ھے یا اس کےکسی مخصوص عضو کو نقص زدہ اور درد زدہ محسوس کرتا ھے اور پھر اس شخصیت پر اس کا پرنٹ نکال دیتا ھے یوں وہ کیفیت اس شخصیت پر مستقل کر دیتا ھے ! اس کے لئے اس آدمی کا جسم کا وہ جزو جس میں پروٹین ھو استعمال کیا جاتا ھے،مثلاً بال یا ناخن ! یہ ایک دوسرا موضوع ھے مگر میں نے طریقہ کار واضح کر دیا ھے ! یونیورسٹی آف کولوریڈو میڈیکل سکول کے ڈاکٹر جول آئزن ھیڈ مائر نفسیات تھا ،اسے کسی نے اطلاع دی کہ شکاگو میں ایک ٹرک ڈرائیور ٹیڈ سریئوس کا دعوی ھے کہ وہ اپنی ذھنی قوت سے وہ تصویر جو اس کے دماغ میں ھو پولو رائیڈ کیمرے میں تصویر کی صورت میں نکال سکتا ھے !
ڈاکٹر ایک تھیسس لکھ چکا تھا کہ خوارق عادات واقعات کو دھرانا ناممکن ھے ،، اب سے بات کے سامنے آ جانے کے بعد اس کے تھیسس کا بیڑہ غرق ھونا لازم تھا ، ڈاکٹر نے اس شخص سے ملنے اور اسے آزمانے کا ارادہ کر لیا ،، وہ ٹیڈ سے ملا اور ٹیڈ نے پولورائیڈ کیمرے کے لینس پہ توجہ مرتکز کی اور اسے اشارہ کیا ، کیمرے کا بٹن کلک کرنے کے بعد تیڈ کے چہرے کی بجائے کسی شہر کی عمارتوں کی دھندلی سی تصویر نکلی ! ایسے بہت سارے واقعات ڈاکٹر آئزن ھڈ نے اپنی تصنیف ” دا ورلڈ آف ٹیڈ سیریوس "میں پیش لکھے ھیں ! تیسری آنکھ یا بند آنکھوں سے دیکھنا ! خدا بخش نام کا ایک آدمی تھا جو k.B Duke کے نام سے مشہور تھا، وہ 1906 میں کشمیر میں پیدا ھوا ! وہ ایک سرکس میں کام کرتا تھا جہاں وہ ایک مشہور کرتب باز بن گیا، اس دوران اس کی ملاقات ایک گرو سے ھوئی ، اس گرو نے اسے توجہ اور ارتکاز کی مشقیں کرانا شروع کیں ، 11 برس کے طویل عرصے کی مشقت نے خدا بخش کو کندن بنا کر رکھ دیا ،، وہ آگ پر بغیر جلے چل لیتا تھا مگر سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ وہ آنکھیں بند کر کے بھی اسی طرح دیکھ سکتا تھا جیسے کھلی آنکھوں سے دیکھا جاتا ھے،، دماغی ارتکاز نے اس کی تیسری آنکھ کھول دی تھی ،، اب دونوں آنکھوں کے پپوٹے بند ھوں یا کھلے اس کے لئے کوئی اھمیت نہیں رکھتے تھے !
برطانیہ کے مشہور روحانی محقق Harry Price نے اپنے ساتھی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر خدا بخش کے کئ ٹیسٹ لئے اور سب نے مجبور ھو کر تسلیم کیا کہ خدا بخش کے پاس کوئی غیر معمولی بصارتی حس ھے ! اس کی آنکھوں پہ آٹے کے دو پیڑے رکھے جاتے جن پر دھاتی پرت رکھ دیا جاتا اور پھر روئی رکھ کر باندھ دیا جاتا ،، اس کے بعد اس کے سامنے کوئی کتاب رکھی جاتی اور وہ اسے فرفر پڑھنا شروع کر دیتا ،، سائیکل پہ سوار ھو کر ٹریفک سے بھری سڑک پہ نارمل سے بھی تیز انداز میں گزرتا ،بس پہ سوار لوگوں کو اشارے سے سلام کرتا رستے میں آنے والی رکاوٹوں اور چوکوں سے بھی دائیں بائیں ھو کر گزر جاتا ! ان تجربات کے بعد خدا بخش کو عالمی شہرت ملنے لگی اور اس کے تجربات بھی خطرناک ھونے لگے ،مثلا 1937 میں اس نے لیورپول میں ایک 200 فٹ بلند تنگ رستے کو جہاں کھلی آنکھوں والے بھی چلنے سے دھل جاتے ھیں بند آنکھوں کے ساتھ نہایت آرام سے پار کر لیا !
سہہ پہر کا وقت تھا ،مانچسٹر کے ایک اسپتال میں ڈاکٹروں نے خدا بخش کی آنکھوں پہ میڈیکل پٹیوں کی موٹی تہہ رکھ کر انہیں بینڈیج کر دیا اور تماشائیوں کو یقین دلایا گیا کہ اب یہ شخص کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا ! مگر لوگوں کے سامنے خدا بخش مزے سے اسپتال سے نکلا سائیکل پر سوار ھوا اور سیٹی بجاتا ھوا سڑکوں پر سے گزرنے لگا،،جہاں کوئ موڑ آتا وہ دائیں یا بائیں ھاتھ کا اشارہ کر کے موڑ مڑتا ، ڈاکٹر اس کی توجیہہ کرنے میں ناکام ھو گئے خود خدا بخش کہتا ھے یہ توجہ اور ارتکاز کا نتیجہ ھے کہ آپ کی تیسری آنکھ کھل جاتی ھے اور محنت سے جو چاھے اسے حاصل کر سکتا ھے ! 10 جنوری 1993 کو پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سنٹر نے صبح کی نشریات میں کراچی کے ایک نوجوان احمد غفار کا مظاھرہ دکھایا اس نوجوان کی آنکھوں پر آٹے کے پیڑے اور پٹیاں باندھ کر ایک سیاہ لفافہ سر سے گردن تک ڈال دیا گیا ! یہ نوجوان ٹی وی سنٹر سے لے کر کراچی کی مصروف ترین سڑکوں پر موٹر سائیکل چلاتا ھوا نہایت تیز رفتاری سے گزرا ، گاڑیوں کو اوورٹیک بھی کیا اور دوسری گاڑیوں کو رستہ بھی دیا اور دائیں بائیں بھی گھوما ،، اس کے بقول اس نے 6 سال کی توجہ اور ارتکاز سے یہ صلاحیت حاصل کی تھی ،،
سائیکومیٹری- آخری قسط ،،
خدا بخش K .B Duke جس کے بارے میں آپ نے پڑھا کہ وہ آنکھیں بند کر کے بھی دیکھتا تھا اسی کے مزید واقعات بھی پڑھ لیجئے !
آگ کا قطب یا آگ کا دیوتا ؟
1934 کا زمانہ تھا ،برطانیہ کے مشہور روحانی محقق ھیری پرائس نے اخبار دی ٹائمز کی 23 اکتوبر 1934 کی اشاعت میں اشتہار دیا کہ وہ برطانیہ میں آتش قدمی کی ابتدا کرنا چاھتا ھے اگر کوئی شخص پیدائشی طور پر حرارت جذب کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ھوا ھو یا مشقوں سے اس کہ مہارت پیدا کی ھو تو اس سے رابطہ کرے ، کافی دن گزر گئے اور کسی نے رابطہ نہ کیا ،، ھیری پرائس اس منصوبے کو ترک کرنے والا تھا کہ اسے کشمیر میں پیدا ھونے والے ایک شخص خدا بخش کا پیغام ملا کہ وہ اس سلسلے میں اس کی مدد کرنے کو تیار ھے ! خدا بخش کی عمر اس وقت 29 سال تھی ! 9 ستمبر 1935 کو سرےSurrey کے مقام پر ایک مظاھرے کا بندوبست کیا گیا ! ایک فٹ گہرے 25 فٹ لمبے اور تین فٹ چوڑے گڑھے کو 300 گیلیوں ،10 گیلن پیرافین اور لکڑی کے ڈبوں سے بھر کر ٹائمز کے 25 عدد پرانے شماروں سے آگ لگا دی گئ ،خدا بخش نے کچھ توقف کیا اور کہا کہ آگ کو خوب گرم ھونے دیا جائے ! پونے دو گھنٹے بعد جب خندق تپ کر انگارہ ھو چکی تھی اور اس کی حدت سے باھر پڑا کوئلہ تک بھڑک اٹھا تھا ،،خدا بخش آگے بڑھا اور نہایت اطمینان سے ننگے پاؤں گرم خندق کے اندر سے ڈگ بھرتا ھوا پار نکل گیا ! پھر پلٹ کر آیا اور پھر پلٹ کر گیا ،،یوں تین مرتبہ مسلسل یہ کرتب دکھا دیا !
اس موقع پر موجود ایک سائنسدان کو بھی جوش آگیا اور وہ بھی انگاروں کو روندنے کے لئے ان میں داخل ھونے کی حماقت کر بیٹھا مگر چیخیں مارتا ھوا پلٹ کر بھاگا ،،اس کے پاؤں پر بڑے بڑے آبلے پڑ گئے تھے ! اس واقعے نے خدا بخش کو دنیا بھر میں مشہور کر دیا ،، ایک دن وہ راک فیلر پلازا میں 1400 ڈگری گرم بھٹی میں جا گھسا اور صحیح سلامت باھر نکل آیا ،، وہ کہتا تھا یہ صرف حوصلے اور یقین کا کھیل ھے ! عیسائی مبلغ Monsignon Desparturers نے جس زمانے میں میسور کا دورہ کیا تو مہاراجہ نے ایک عجب تماشے کا اھتمام کیا ! ڈسپارچر نے دیکھا کہ ایک 13 فٹ لمبا اور 6 فٹ چوڑا گڑھا کھودا گیا، اس ایک فٹ گہرے گڑھے میں اس قدر تیز آگ دھکائی گئ کہ جس کی تپش تماشائی 25 فٹ دور محسوس کر رھے تھے ! تب ایک مسلمان شخص جو شمالی ھندوستان سے تعلق رکھتا تھا آیا اور گڑھے کے عین کنارے آ کر کھڑا ھو گیا اور مہاراجہ کے ایک ملازم کو آگ میں جانے کا حکم دیا مگر اس ملازم کی گھگی بندھ گئ مسلمان نے اسے پکڑ کر آگ میں دھکا دے دیا،، آگ میں گرنا تھا کہ وہ ملازم جو خوف سے مرا جا رھا تھا ،اچانک پرسکون اور شانت ھو گیا ،،پتہ چلا کہ آگ اسے نہیں جلا رھی،،
اس کی دیکھا دیکھی دس مزید ملازم بھی آگ پر سے گزر گئے ، اسکے بعد مہاراجہ کے بینڈ کا عملہ ساز بجاتا ھوا آگ پر سے گزر گیا مگر کسی کو آبلہ تک نہ پڑا ،، دو انگریز بھی گزرے اور 200 تماشائی بھی،جب مہاراجہ نے تماشہ ختم کرنے کا اشارہ کیا تو مسلمان دھڑام سے زمین پر گرا اور پانی پانی چلانے لگا ، اسے خوب پانی پلایا گیا تو تھوڑی دیر میں اسے چین آیا ،، مہاراجہ نے ڈسپارچر کو بتایا کہ یہ کوئی مذھبی تقریب نہیں تھی ، ایک ھندو برھمن نے توجیہہ پیش کی کہ یہ مسلمان آگ کے کنارے کھڑے ھو کر آگ کی ساری تپش کو خود میں جذب کیئے ھوئے تھا جو کہ دوسروں کو جلا سکتی تھی ،،ھندو اسے آگ کا دیوتا اور مسلمان اسے آگ کا قطب کہتے تھے ،،
اس تمام تحریر کا ماحصل ،،
یہ ھے کہ سعید انور اور ٹنڈلکر میں بھی فرق کلمے کا ھے ،،مگر اس سے کرکٹ کے اصول و ضوابط پہ کیا فرق پڑتا ھے ؟ کیا مسلمان غیرمسلموں کے کوچ نہیں اور غیر مسلم پاکستانی ٹیم کے کوچ نہیں ؟ فساد تب پھیلتا ھے جب ایک فن کو لے کر لوگ دین کے فیصلے کرنے لگ جاتے ھیں حالانکہ اس فن کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ھوتا ،، ھندوؤں نے ٹنڈلکر کو بھگوان بنا لیا،ھم بھی سعید انور کو قطب بنا لیں ؟ چشم کشا حقیقت یہ ھے کہ ھندوستان میں نہ کسی کو توحید کی تلاش کبھی تھی اور نہ ھی کوئی انہیں توحید دینے آیا تھا اور نہ کسی نے توحید دی ! مسلمان حملہ آور بھی آئے تو اس سونے کی چڑیا کو لوٹنے آئے ،،اور لوٹ مار کر کے واپس اپنے اپنے ملکوں کو سدھار گئے ،کسی کو اسلام کی فکر نہیں تھی اور نہ کسی نے کبھی ھند میں مسلم حکومت بنانے کی فکر کی ! سومنات کا بت توڑ دیا گیا کیونکہ اس میں سونا بھرا ھوا تھا ،، مگر سینوں کے بت کسی نے نہ توڑے اور نہ ان بتوں کو توڑنے کا کوئی بندوبست کیا ! افغان اور مغل دونوں مسلمان تھے مگر ھندو جرنیلوں کی قیادت میں اپنے لشکر بھیج کر ایک دوسرے کے شہروں کو پامال کرتے تھے ،،
احمد شاہ ابدالی نے جو دلی کے ساتھ کیا ،، کیا وہ اسلام کی خدمت تھی ؟ ھم صرف کسی کا نام مسلمان دیکھ کر اس کے ھر کرتوت کو اسلام کے گلے میں ڈال دیتے ھیں ! رہ گئے صوفیاء تو میرے عزیزو ! وہ بھی انسانوں کو چرن داس سے چھڑا کر خواجہ صاحب کے بندے بنانے آئے تھے ،، چمتکار اور شکتیوں کی جنگ تھی ،، جو زیادہ شکتی مان ھوتا تھا بندے اس کے در پر سجدہ ریز ھو جاتے تھے ! ایک طوائف کو اس سے کیا فرق پڑتا ھے کہ اس کا گاھک کلمہ گو ھے یا ھندو ،! اللہ کی تلاش کسی کو بھی نہیں تھی ،سب دیوتاؤں کی تلاش میں تھے اور دیوتا آج گلی گلی ملتے ھیں ،، اللہ سے نہ کوئی مانگنے والا نہ ماننے والا ،، وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ، آج کا دور گزشتہ ادوار سے ھزار گنا زیادہ بہتر ھے کہ ایسے ذرائع پیدا ھوئے کہ لوگوں کے علم میں اضافہ ھوا اور سوچ کی نئ راھیں پیدا ھوئیں ! آج پتہ چلتا ھے کہ ھمیں سب نے دھوکے دیئے ،،مذھبی راھنماؤں نے مذھب کے نام پر اور اسکول والوں نے تاریخ کے نام پر ! بخدا ھم فریب خوردہ قوم ھیں ! جو قرآن کی توحید سے دور ھے – جو محمد عربی ﷺ کی سنت اور طریقے پہ مطمئن نہیں ،، وہ دین کا مخلص ھر گز نہیں !
ھم سے تو یہ سب کچھ برداشت نہیں ھونے کا ! ویسے میری خوش قسمتی ھے کہ اللہ پاک نے مجھے بہت بہترین دوستوں سے نوازا ھے ! اچھا دوست بھی اللہ کی نعمتوں میں سے ھوتا ھے ! آپ تمام حضرات کے علم و معرفت کا مجھے اعتراف ھے ،،ھم سارے مسلمان اور دین کا درد رکھنے والے لوگ ھیں ،مذاکرے سے ذرا منزل واضح ھو جاتی ھے اور اھداف ریفریش ھو جاتے ھیں،مجھے کبھی بھی تصوف کو بحیثیت علم یا فن تسلیم کرنے سے کوئی تکلیف نہیں ھوئی ،،مگر اس کی بنیاد پر اللہ پاک کے اختیارات چھین کر کچھ انسانوں کو دے دینے سے سخت اختلاف رھا ھے ،،سابقہ ادوار میں یا صوفیاء کے ادوار میں قرآن عام نہیں تھا،،قرآن کو دیکھ لینا بھی کسی کی خوش قسمتی تھی ،،دین وھی تھا جو مولوی صاحب یا پیر صاحب کے منہ شریف سے نکل گیا ،، تصدیق کے لئے قرآن کہیں سے مل بھی جائے تو ترجمہ ندارد ،،قرآن ایک ایسی کتاب تھی جو محترم تھی ،چومی جاتی تھی ،سینے سے لگائی جاتی تھی ،،مگر سمجھی نہ جا سکتی تھی ،،
شاہ ولی اللہ دھلوی کا یہ احسان ھے پاک و ھند کے مسلمانوں پر کہ انہوں نے ترجموں کی ابتدا کی اور عام لوگوں کی رسائی قرآن تک ممکن بنائی ،،مگر سابقہ ادوار میں قرآن کی عدم دستیابی جو ستم ڈھا چکی تھی اور امت جس کینسر میں مبتلا ھو چکی تھی ،اس کا علاج آج تک نہیں کیا جا سکا،، اس کے لئے قرآن و سنت کی کیموتھراپی کی ضرورت ھے،، وہ سب کچھ جو اللہ نے اپنے لئے دعوی کیا ھے وہ سب کچھ اللہ میں مانا جائے اور دوسروں سے اس کی نفی کی جائے ،، کیونکہ دوسروں کو بھی ساتھ رکھ کر اثبات کرنا ھی شرک ھے ! میں نے دیکھا ھے کہ قران کے خلاف تاویل کرنے میں تو لوگ نہایت جری ھیں ،،مگر بزرگوں کے اقوال کی تاویل کر کے انہیں قران کے مطابق بنانے کی کسی کو جرأت نہیں ! قرآن میزان ھے اسے میزان سمجھا جائے ،،یہ حق و باطل کے درمیان فرقان ھے اور اسی کے ذریعے حق و باطل کا فرق کیا جائے ،، یہ امام ھے اور اسی کو امام سمجھا جائے ھر اللہ اکبر کہنے والا امام نہیں ھوتا !
قرآن سے بچنے کے لئے پنڈی باھرو باھر کا رواج ختم کیا جائے ! ابھی سورہ فاتحہ ھی شروع ھوتی ھے کہ جو قران کا دیباچہ ھے کہ ھمارے علماء کو خلجان ھونے لگتا ھے کہ کہیں لوگ قرآن کی ماننا ھی نہ شروع کر دیں ،، تیسری آیت پہ ھی اشارہ کرتے ھیں کہ ذرا پرائیویٹ کلینک یعنی حاشیے پہ ملو ! ایاک نعبد و ایاک نستعین جیسی صاف اور دوٹوک آیت میں ڈنڈی ماری جاتی ھے کہ ” اللہ والوں سے مانگنا عین اللہ ھی سے مانگنا ھے کوئی غیر سے مانگنا نہیں ھے لہذا ھمارے بزرگوں کا در چھوڑ نہ دینا ! کوئی پوچھے سرکار ایمان کی امان پاؤں تو سوال کروں کہ ،اگر ایاک نستعین میں غیر اللہ سے مانگنے میں ایمان کو کوئی نقصان نہیں عین اللہ سے مانگنا ھے تو پھر ایاک نعبد میں بھی اولیاء اللہ کی عبادت عین اللہ کی عبادت ھے کسی غیر کی نہیں ،، ؟ کیا اسی تأویل کے نتیجے میں قبروں کا طواف نہیں ھوتا ؟
جانورقربانی کے لئے مکے والے منی کی طرح چلا کر استہانوں تک نہیں لائے جاتے ؟ کیا قرآن پڑھنے والے کو اللہ کی غیرت کا اندازہ نہیں ھوتا کہ شراکت کے نام پر اس کا غضب سنبھالے نہیں سنبھالا جاتا ،،جب وہ عیسی ابن مریم علیہما السلام کی شراکت برداشت نہیں کرتا تو خواجگان کو کیونکر اپنا شریک خدا مان لے گا ؟ جب وہ ان دونوں کے لئے دھمکی دیتا ھے ،قل فمن یملک من اللہ شئیاً ان اراد ان یھلک مسیح ابن مریم و امہ و من فی الارض جمیعاً ؟ ان سے پوچھو کون اختیار رکھتا ھے کہ اللہ کو روک سکے اگر وہ فیصلہ کر لے مسیح ابن مریم اور اس کی ماں کو ھلاک کر دے اور جو بھی زمین میں بستے ھیں ان سب کو بھی ؟ للہ ملک السموات والارض وما بینھما ،یخلق ما یشاء ، اللہ علی کل شئ قدیر،، اللہ ھی کا ھے جو کچھ کہ آسمانوں میں ھے اور زمین میں ھے اور جو ان دونوں کے درمیان ھے ،، وہ جو چاھے جیسے چاھے پیدا کرے اللہ ھر چیز پر قدرت رکھتا ھے ( المائدہ )
اللہ نے انسانوں کو چاھے وہ عرب کے ھوں یا عجم کے ھوں ، گورے ھوں یا کالے ،، نبی اور رسول ھوں یا امتیں ،، سب کو اپنی عبادت کے لئے تخلیق کیا ھے ،، شراکت کے لئے نہیں ،، ان میں سے کسی نے بھی خدا کے ساتھ ایک ٹکے کی بھی انویسٹمنٹ نہیں کی ،، وہ کل نہیں تھے ،پھر ھوئے اور پھر نہیں رھے ،، یہ ھے سیدھی سادھی توحید ،، جب اللہ نے رسولوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ لوگوں کو اپنے بندے بنائیں تو دو چار دن الٹے سیدھے وظیفے کرنے والوں کو کیونکر اپنی مخلوق ٹھیکے پر دے سکتا ھے ،،کہ فلاں ایریا فلاں قطب سنبھال لے اور فلاں فلاں علاقے کے لوگوں کی حاجات پوری کرے ،،کیا وہ پیدا کر کے تھک گیا ھے کہ پالنے کے لئے دوسروں کو دے گا ؟ ھم سے تو یہ سب برداشت نہیں ھونے کا صاحب ! جس کو ھم اچھے نہیں لگتے وہ اپنی راہ لے ،،
جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ھیں،،
جی جناب لوگ ” سدِ ذرائع ” یعنی فتنے کو پھیلنے سے روکنے کے ذرائع کے طور پر عورت کا مسجد جانا روک سکتے ھیں،، عورت کے اللہ کے گھر جانے کو برا کہہ سکتے ھیں ،مگر آئے روز عورت کی عزت و عصمت تار تار کرتے ان استہانوں کو برا نہیں کہہ سکتے ،، کمال کی بات ھے ، عصمت بھی عورت کی لٹتی ھے،، اور قصور بھی عورت کا ھوتا ھے، اس کا رخ ھمارے علماء نے مسجد سے پھیر کر قطب کی تلاش میں حجروں اور مزاروں کی طرف کر دیا ھے ! اصل مجرم وہ صاحبان جبہ و دستار ھیں ،،جو اس عورت کو گھر بیٹھ کر مانگنے پر دینے والے اللہ سے پھیر کر پیروں کے پاس بھیجتے ھیں ،، بچہ لینے کے لئے ،،پیر صاحب سے منہ میں تھکوانے کے لئے ! منبر سے منادی ھو کہ پاگل و مجذوب تکوینی امور چلاتے ،، اور تقدیریں تبدیل کرتے ھیں تو گھر اجڑتا دیکھ کر عورت تو بچہ لینے جائے گی،، شوھر کا نہ سہی پیر صاحب کا تو لے آئے گی ،، وہ گھر آ کر شوھر کو بتا کر کیوں اپنا گھر اجاڑے گی کہ وہ جو بچا تھا وہ بھی لٹا آئی ھے ! مجھے قیامت سے بہت ڈر لگتا ھے ،، مگر اللہ کی قسم مجھے قیامت اس لئے اچھی لگتی ھے کہ وھاں ان ظالموں کی دستار کو چاک کیا جائے گا ،، جو دنیا میں مافیا بن گئے ھیں ،، جب جھوٹے خداؤں کو میں حقیقی خدا کے سامنے سرنگوں دیکھونگا !
حضرت شاہ ولی اللہ دھلویؒ نے جو وصیت اپنی اولاد کے نام لکھوائی اس میں تیسری وصیت کچھ یوں ھے ! ” اس دور کے مشائخ کے ھاتھ میں ھاتھ نہ دینا – نہ ھی ان کی بیعت کرنا – یہ لوگ قسم قسم کی بدعتوں میں مبتلا ھیں – ان کے بے شمار مرید یا بہت ساری کرامات دیکھ کر دھوکے میں نہ آ جانا – اس لئے کہ مریدوں کی کثرت رسم کی وجہ سے ھے جن کی حقیقت میں کوئی وقعت نہیں – رھیں کرامات تو الا ماشاء اللہ ،،طلسم اور جادوگری کو کرامات سمجھا جاتا ھے – ان کی سب سے بڑی کرامت ھے کہ دلوں کی باتیں جاننا اور آنے والے واقعات کا انکشاف کرنا ،تو اس کے بہت سے طریقے ھیں ،، طالب کو مسخر کرنا ،کسی کے دل پر دل رکھنا ” یہ سب فن ھے ” یہ چند اعمال ھیں جن کے وسیلے سے انسان یہ سب کچھ حاصل کر سکتا ھے ! ورنہ نیکی بدی، خوش بختی و بد بختی ، اور مقبول و مردود میں یہاں کچھ فرق نہیں – میری یہ بات بہت لوگوں کو ناگوار گزرے گی، لیکن مجھے تو اس کام کے مطابق بات کرنا ھے جو میرے سپرد کیا گیا ھے نہ کہ زید و عمر کے قول کے مطابق ( المقالۃ الوصیہ فی النصیحۃ والوصیۃ 495 تا 498 دربار ملی پریس )
کوئی شخص ساری دنیا کو دھوکا دے سکتا ھے مگر اپنی اولاد کو دھوکا نہیں دیتا ،، شاہ صاحب کی وصیت کسی عام آدمی کی وصیت نہیں یہ ایک ماھر فن کی وصیت ھے جو جانتا ھے کہ اب اس نظامِ خانقاھی میں سوائے ایمان کے لٹیروں کے کچھ باقی نہیں ،، یہ حجرے بھیڑیوں کے بھٹ بن گئے ھیں !! نظام الدین اولیاء کی وفات کے بعد 1356 ء میں شیخ نصیر الدین نے ان کی گدی سنبھالی ! اپنی وفات سے پہلے شیخ نصیر الدین صاحب نے مندرجہ ذیل نصیحت کی ! خلافت کا نشان یا سلسلہ اور دیگر تبرکات وغیرہ جو خلافت کے نشان کے طور پر مجھے خواجہ ںظام الدین اولیاء سے ملے ھیں وہ میرے ساتھ ھی دفن کر دیئے جائیں ! چنانچہ ایسا ھی ھوا اور انہوں نے کسی کو بھی خلیفہ نہ بنایا یوں اللہ کا یہ باضمیر بندہ اس دکان کو بند کر کے رخصت ھوا ! ان مریدوں کی فوج ظفر موج اور اپنی اولاد کی روٹیوں اور جاگیروں پہ لات مارنے کے لئے ھمالیہ جتنا ایمان چاھئے ھوتا ھے ،جس کا ثبوت شیخ نصیر الدین نے عملی طور پر دیا !
========================================================================
‫#‏۱سلام‬ ‫#‏قرآن‬ ‫#‏تصوف‬ ‫#‏قاری‬ حنیف ڈآر ‫#‏کرامت‬ ‫#‏سائیکومیٹری‬ ‫#‏معجزہ‬