مصطفی ﷺ کی رسالت کا گواہ ان کا کردار ھے !

ایک صاحب ان باکس میں کوئی ھفتہ بھر سے پیچھے لگے ھوئے ھیں کہ محمد ﷺ کے رسول ھونے کا ثبوت کیا ھے اور اس کا گواہ کون ھے ،، ؟؟ گزارش ھے کہ محمد ﷺ کی رسالت کا گواہ ان کا کردار ھے ،،، اسی لئے انبیاء معصوم ھوتے ھیں کہ دین کی عمارت ان پہ کھڑی ھوتی ھے ،دین کی پہلی اینٹ آسمان پر نہیں زمین پر رکھی جاتی ھے ،، اور اللہ تک کا سفر محمد ﷺ سے شروع ھوتا ھے ،، نبی اسی معاشرے کے فرد ھوتے ھیں اور ایک معقول مدت تک رب ان کو بغیر ایکسپوز کیئے کہ یہ کوئی اھم ھستی ھیں ،عام لوگوں کی طرح رھن سہن کرنے دیتا ھے اور یہی عام زندگی ان کی گواہ ھوتی ھے ،،مجھے اگر پتہ ھو کہ میرا مخاطب مجھے بطور قاری حنیف جانتا ھے تو میں تھوڑا سا محتاط ھو جاؤنگا کہ کوئی حرکت یا بات میرے مقام کے خلاف نہ ھو جائے جس سے میرا امیج متأثر ھو ،،، حضورﷺ نےچالیس سال نبوت کی زندگی نہیں گزاری کہ آپ کو اپنے مقام کی حفاظت کی خاطر دوغلی زندگی گزارنی پڑی ھو کہ ظاھر میں کچھ اور اور باطن کچھ اور ،، لوگوں نے جس طرح چاھا آپ کے ساتھ خرید و فروخت اور معاملات کر کے دیکھ لیا ، انسان کے کردار کو واضح کرنے کے لئے 40 سال بہت ھوتے ھیں ،، یہی عام زندگی کے 40 سال آپ کی بقیہ 23 سال کی زندگی کے گواہ ھیں کہ جب عام آدمی ھوتے ھوئے معاشرہ آپ میں کوئی عیب نہیں تلاش سکا تو جب آپ نے اعلانِ نبوت فرما دیا تو پھر تو آپ کو خود ھی اپنے مقام اور امیج کا اتنا خیال فطری طور پہ ھو گا کہ کوئی حرکت اس مقام کے خلاف نہ ھو ،، آپ کی نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد کی زندگی میں کوئی لکیر نہیں ھے ،جس طرح اگر کنکریٹ کو الگ الگ وقفے سے ڈالا جائے تو ان کے درمیان ایک لکیر ھمیشہ واضح رھتی ھے ،، اعلانِ نبوت کے اگلے دن بھی آپ عملی زندگی میں اعلان نبوت سے ایک دن پہلے کی طرح ھی تھے ، اور ساری زندگی ویسے ھی رھے ،، اعلانِ نبوت کے بعد نہ تو آپ کے لباس کا رنگ تبدیل ھوا ، نہ سائز تبدیل ھوا اور نہ بناوٹ تبدیل ھوئی ، نہ شکل و صورت میں کوئی مصنوعی تبدیلی پیدا کی گئ اور نہ ھی رھن سہن اور میل جول میں کوئی بناوٹ آئی ،، جس شخص کے دشمن بھی یہ گواھی دیں کہ انہوں نے زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا ،، وہ بھلا اعلانِ نبوت کے بعد جھوٹ کیوں بولیں گے ؟ لوگ جھوٹ مفاد کے لئے بولتے ھیں اور یہاں ایک مفاد ھی تو نہیں تھا حجرے ویرانی کا منظر پیش کرتے رھے جن میں دیا جلانے کا سامان نہیں تھا حضور ﷺ سجدے میں ھوتے تو ازواج مطھرات کو ھاتھ سے ٹٹول کر چیک کرنا پڑتا کہ حضور ﷺ اتنی دیر سے سجدے میں ھیں تو خیریت سے ھیں ،، اور یوم وصال بھی حجرے میں دیا جلانے کے لئے تیل نہیں تھا جبکہ مسجدِ نبوی کا صحن سامان سے بھرا پڑا تھا ،، کیا لوگ اس لئے تحریکیں اٹھاتے ھیں کہ ایسی زندگی گزاریں ؟ بس یہ کردار ھی محمد ﷺ کی رسالت کا گواہ ھے اور نبئ کریم ﷺ کا قول قرآن کی قرآنیت کا گواہ ھے ،، ایمان کی ابتدا یہاں سے ھوتی ھے ،، اگر محمد ﷺ پر ھی ایمان نہیں تو یقین جان تیرے لئے پھر آسمان میں بھی کچھ نہیں اس لئے تیرے لئے آسمان کے دروازے بھی نہیں کھولے جائیں گے اور نہ رب کی جنت میں داخل ھو پاؤ گے جب تک اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزر جائے ،، یہ کوئی انہونی بات نہیں ھے ،،،،، یہ ھم سے ھر ایک کے گھر میں ھونے والا روزمرہ کا واقعہ ھے اور قیامت تک ھر گھر میں ھوتا رھے گا کہ انسان کسی نہ کسی ھستی پہ اندھا اعتماد کرتا ھے تو نظامِ زندگی چلتا ھے ،،،،،،،، ماں ایک ایسی ھستی ھے کہ جس کے بارے میں بری سوچ بھی سوچتے ھوئے انسان کانپ جاتا ھے ،، یہ سوال کرنے والے کی ماں سے لے کر ھم سب کی مائیں روزانہ سو جھوٹ بولتی ھیں اور ھم ان جھوٹوں کے گواہ ھیں ، پورا محلہ گواہ ھے ،، مگر ھم نے یہ اصول بنا رکھا ھے کہ ایک جگہ ایسی ھے کہ جہاں یہ جھوٹی بھی جھوٹ نہیں بولتی ، اور وہ ھماری ولدیت کا معاملہ ھے ، وہ ھمیں جس کا بیٹا کہہ دیتی ھے ھم آنکھیں بند کر کے مان جاتے ھیں ،، کبھی کسی Rationalist کو اپنے ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ کے ساتھ نہیں دیکھا کہ جناب جس دن سے میں نے شک شروع کیا تو اس کی ابتدا اپنی ولدیت اور ماں کے کردار سے کی اور یہ ٹیسٹ کرایا ،، شک کرنے والا بھی خدا سے شک کی ابتدا کرتا ھے ، ماں سے نہیں کرتا ،، بالکل اسی طرح یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جو شخص بندوں پہ جھوٹ نہیں بولتا وہ خدا پہ جھوٹ باندھ کر خود بخود خدا کا رسول بن بیٹھے گا ،،،،،،،، محمد ﷺ کی ھستی وہ گھنٹہ گھر چوک ھے کہ جس طرف سے سفر شروع کرو بات جا کر محمد ﷺ کی ذات پہ ختم ھوتی ھے تم آسمان سے سفر شروع کرو یا زمین سے ،، سفر ختم محمد ﷺ پر ھی ھوتا ھے اور یہی سب سے مشکل مرحلہ تھا کافروں کے لئے ،،، ایک ان دیکھی افسانوی ھستی پہ ھر توھم پرست ایمان لا سکتا ھے ،مگر گوشت پوست کے بنے ایک انسان کو اللہ کا نمائندہ مان کر اپنی ھستی سمیت اپنا سب کچھ اس ھستی کے قدموں میں رکھ دینا پہاڑ جسے ایمان کا تقاضہ کرتا ھے ،، اسی وجہ سے وہ تمام روایات جن سے حضور ﷺ کی ذات اقدس پہ سوال کھڑے ھوتے ھیں وہ دین کی خدمت نہیں دین کے ساتھ دشمنی کے سوا کچھ نہیں ،، محمد ﷺ سے ایمان گیا تو پھر نہ جبریل پہ باقی بچتا ھے اور نہ خدا پہ اور نہ قرآن پہ ،،،،،،،،،،،،، یہ سوال کرنے والا بھی ایسا کچھ ھی پڑھ کر ملیریا کے مریض کی طرح کانپتا آیا ھے ،،،،،،،،،،،،، اللہ پاک اسے شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے ،، کوئی دوا ری ایکشن کے باوجود اس لئے نہیں کھائی جا سکتی کہ بڑی مہنگی خریدی ھے ،، جان بڑی سے بڑی قیمتی دوا سے بھی زیادہ قیمتی چیز ھے اور اللہ کی قسم ایمان بڑے سے بڑے شخص کی جان سے بھی بڑی قیمتی چیز ھے ،، جب کسی کا ایمان بالرسالت کسی روایت کی وجہ سے ھاتھ سے نکلا جا رھا ھے ،،،،،،، تو وہ روایت اس وجہ سے پکڑ کر بیٹھا رھے کہ اس پہ فلاں صاحب کے دو ماہ خرچ ھوئے تھے یا 20 سال کی محنت لگی تھی ایک لایعنی بات ھے ،،، اس سوال کا جواب دینا بہت ضروری تھا تا کہ وہ صاحب یہ نہ سمجھیں کہ میں نے ان کے سوال کو اھمیت نہیں دی ،،،،،،،،،،،،