قول و عمل کا کھلا تضاد ۔

مسخ شدہ ںمعاشرتی عقائد کسی بھی مذھب کی مذھبی کتاب میں نہیں ملتے بلکہ اس قوم کے ادب اور شاعری میں ملتے ھیں ،آپ کو کوے کی فضائل پہ کوئی کتاب نہیں ملے گی مگر ھر زبان کی شاعری میں سیکڑوں شعروں میں اس ” مِتھ ” کا اظہار ملے گا جس میں کوے کے بنیرے پر بولنے کو مہمان کی آمد کی نشانی کے طور پر بیان کیا گیا ھے ،۔
۔ایویں بول نہ بنیرے اتے کانواں۔
تے سجناں نئیں او آنڑا۔
۔اج بولیا بنیرے اتے کاں۔
اج میرے ماہی آنڑاں ۔ وغیرہ
اسی طرح خواص کی کتابوں میں آپ کو کہیں بھی شرکیہ عقائد نہیں ملیں گے مگر مذھبی کہانیوں اور شعر و شاعری میں اسے قوالی یا نعت کی صورت ھر دل مین اسی طرح پلا دیا جاتا ھے جس طرح بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑا رچ بس گیا تھا ،، جو لوگ یہ کہتے ھیں کہ فلاں فرقے کی کتابوں میں یہ گند نہیں ھے ،یہ تو عوام الناس کا عقیدہ ھے ، ان سے گزارش ھے کہ ھر مذھب میں 98٪ لوگ عوام الناس ھی ھوتے ھیں ،،
مکے والوں کی لکھی گئ کسی عقیدے کی کتاب میں شرک ثابت کر دیجئے ،،
قرآن پاک میں ان کے جو قولی عقائد بیان ھوئے ھیں وہ سارے ھماری توحید سے زیادہ واضح توحید پر مبنی ھیں ،، ذرا ان کو پڑھ کر دیکھئے کہ اتنے واضح توحیدی عقائد کے باوجود ان کے عوام الناس کے عملی عقائد کی وجہ سے ان کو مشرک قرار دیا گیا ھے ،، ابن عباسؓ سے جب ایک خارجی نے مناظرہ کیا اور آپ سے کہا کہ آپ اسلام سے پہلے کی زمانہ جاھلیت کی شاعری سے وہ عقائد اور ضرب الامثال ثابت کریں جن کو قرآن مشرکین مکہ سے منسوب کرتا ھے ،تو آپ نے تقریباً ڈیڑھ سو شعروں کے ذریعے وہ تمام شرکیہ عقائد و افعال ثابت کر دیئے جس پر وہ خارجی ششدر رہ گیا حالانکہ وہ اپنے ساتھیوں سے یہ کہہ کر آیا تھا کہ آج ابن عباس کو عاجز کر کے پلٹوں گا ،۔۔
(پیش خدمت ہے مشرکین مکہ کی قولی توحید جس کو قرآن کریم نے بیان کر کے ان کے عملی شرک کی مذمت کی کیونکہ ان کا عمل بالکل اس کے برعکس تھا )
1-
انسانوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے –
اللہ رَب العزت اپنے محبوب رسول ﷺ سے فرماتے ہیں
وَلَئِنْ سَأَلْتَہُمْ مَنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُوْلُن اللہُ۔ (پارہ ۲۵۔ سورہ زخرف آیت 87)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس نے پیدا کِیا ہے ؟ تو یہی کہیں گے کہ اللہ نے ،،
2-
ارض و سماء کا خالق اللہ ہے،،
وَلَئِنْ سَأَلْتَھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ۔
(سورۃ لقمان آیت 25)
(سورہ الزمر،آیت 38)
اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو ضرور یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے۔
تو معلوم ہوا کہ مشرکین عرب ٗ کفار قریش زمین و آسمان اور انس و جن ٗ کا خالق ذات پاک باری تعالیٰ کو مانتے تھے ٗ اسی طرح مالک و رازق محی و مُمیْتُ اور مدِّبرِ امور بھی اللہ تعالیٰ کو جانتے تھے۔
3 تا 6-
رازق اللہ ہے۔ مالک اللہ ہے۔ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مدّبر امور اللہ ہے
قُلْ مَنْ یَزْزُقُکُمْ مِنَ السَّمَآء وَ الْاَرضِ اَمَّنْ یَمْلِکُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَمَنْ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ اْلَمِیّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُدَبّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللہُ فَقُلْ اَفلَاَ تَتَّقُوْنَ
(پارہ۱۱ ۔ سورہ یونس ٗ ع ۴)
آپ (ان مشرکین سے) پوچھئے کہ تم کو آسمان اور زمین سے کون رزق دیتا ہے؟ یا (تمہارے) کانوں اور (تمہاری) آنکھوں کا مالک کون ہے؟ اور مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو کون نکالتا ہے؟ اور تمام کاموں کا بندوبست کون کرتا ہے تو وہ یہی جواب دیں گے کہ "اللہ”
7 –
زمین و آسمان ٗ عرش و فرش سب کا مالک اور ربّ اللہ ہے،،
قُلْ لِمَنِ الْاَرضُ وَ مَنْ فِیْھَا اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ- سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ قُلْ اَفلَاَ تَذَکَّرُوْنَ،،
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ سَیَقُوْلْوَنَ لِلّٰہِ قُلْ اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ،،
(پارہ ۱۸۔سورہ مومنوں ع ۵)
آپ ان سے پوچھئے کہ اگر تم جانتے ہو (تو بتلاؤ) یہ زمین اور جو کچھ اس پر (موجود) ہیں سب کس کے ہیں؟ وہ ضرور یہی کہیں گے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے ٗ آپ فرمائیے پھر تم سوچتے (کیوں) نہیں؟
آپ کہئے کہ (اچھا یہ بتلاؤ) ان سات آسمانوں کا اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟ وہ ضرور یہی جواب دیں گے کہ یہ بھی (سب) اللہ کا ہے ٗ آپ کہئے کہ پھر تم (اس سے کیوں) نہیں ڈرتے؟
8 ۔ 9 –
شہنشاہِ کُل اللہ ہے۔ صاحب اختیار و اقتدار اعلیٰ اللہ ہے،،،
قُلْ مَنْ بِیَدہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَ ھُوَ یُجِیْرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیْہِ اِن کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ۔ (۱۸۔ مومنون ٗ رکوع 5)
آپ (ان سے) پوچھئے کہ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی حکومت ہے۔ اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کسی کو پناہ نہیں دی جا سکتی؟ اگر تم جانتے ہو ٗ
وہ ضرور یہی جواب دیں گے کہ (یہ سب صفتیں) اللہ ہی کی ہیں آپ کہئے کہ پھر تم کہاں سے جادو کئے جاتے ہو؟ یعنی مسحورو مد ہوش ہو کر (ان تمام مقدمات کو ماننے کے بعد) حقیقت توحید کو نہیں سمجھتے۔
10-
قادرِ مطلق اللہ ہے ،،
ان کا ایمان تھا کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم اور اس کی رضاء ومشیت سے ہوتا ہے ٗ چنانچہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا یہ شرک اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہے اگر وہ نہ چاہتے تو ہم غیر اللہ کی عبادت نہ کرتے۔
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْ شَآء اللہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیئٍ نَحَنُ وَ لَا اَبَاوُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَيْئٍ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (پارہ 14۔ نحل رکوع ۵)
اور مشرک لوگ کہتے ہیں کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو خدا کے سوا کسی چیز کی نہ ہم عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا ٗ اور نہ ہم سوائے اس کے (حکم کے) کسی چیز کو حرام کر ڈالتے ٗ اسی طرح ان سے پہلے (کافر) لوگوں نے کیا۔ (یعنی ایسا ہی کہا تھا
سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اَشُرَکُوْاَلُوشَآء اللّٰہُ مَا اَشْرَکْنَا وَ لَا اَبَاوُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْئٍ (پارہ ۸ ٗ انعام ٗ رکوع ۱۸
یہ مشرک لوگ یوں کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا ٗ اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کرتے۔
11-
مُتَصرِّف علی الاطلاق اللہ ہے،،،
وَ لَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللہُ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ۔ (پارہ۲۱ سورۃ عنکبوت ع۶
اور اگر آپ ان (مشرکین مکہ) سے پوچھیں کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کِیا اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ! پھر کدھر الٹے چلے جا رہے ہیں؟
12۔13،،
بارش برسانے والا اللہ ہے۔زمین سے نباتات اُگانے والا اللہ ہے،،
وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِھَا۔ لَیَقُوْلُنَّ اللہ (پارہ۲۱ ٗ سورۃ عنکبوت ع۶
اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ وہ کون ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیا تو بہر حال کہیں گے کہ وہ اللہ ہے۔
14-
العزیز اور العلیم اللہ ہی ہے ،،،
کفار قریش اللہ تعالیٰ کو العزیز اور العلیم بھی مانتے تھے ٗ اور اس کے غلبہ و زور اور علم کل کے قائل و معترف تھے ٗ ارشاد ہوتا ہے
وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ خَلَقَھُنَّ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْم
پارہ۲۵ ٗ سورہ زخرف ع اول)
اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ ان کو غالب ٗ علم والے (خدا) نے پیدا کیا ہے۔
تو مشرکین مکہ نہ صرف اللہ رب العزت کی ذات کو مانتے تھے بلکہ اس ذات پاک کی صفاتِ قدسیہ کو بھی جانتے تھے۔ چنانچہ اللہ کی صفت رحمت کو بھی مانتے تھے۔
15
الرحمن اللہ ہے۔۔۔۔
رحمن بھی اللہ کو جانتے اور مانتے تھے ،،
وَ قَالُوْا لَوْشَآء الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنَاھُمْ (۲۵۔ زخرف ٗ ع ۲
اور انہوں نے کہا کہ اگر رحمن چاہتا تو ہم ان (ملائکہ) کی عبادت نہ کرتے۔
16
مصائب سے نجات دینے والا ٗ مشکل کُشاودافع البلاء اللہ ہے،،
کفار قریش و مشرکین مکّہ شدائد و مصائب سے نجات دینے والا ٗ کاشفِ عذاب ٗ مشکل کشا اور دافعِ بلا اللہ تعالیٰ کو جانتے تھے۔ چنانچہ دُکھ ٗدرد ٗ تکلیف اور مصیبت کے وقت وہ اللہ ہی کو پکارتے تھے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے،،
۱- وَ اِذَامَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّدَعَانَا لِجَنْبِہٖ اَوْقَاعِدًا اَوْقَائِمًا (۱۱۔ یونس ٗ)
۲- وَ اِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوُا رَبَّہُمْ مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ (۲۱۔ روم۔ )
۳- وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَارَبَّہٗ مُنِیْیًا اِلَیْہِ (۲۳ ٗ زمر ٗ)
اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے ٗ لیٹے ہوئے یا بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہوئے۔
اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رَبّ کو پکارنے لگتے ہیں ٗ اسی کی طرف متوجہ ہو کر۔
جہاں بھی انہوں نے توحید کو تسلیم کیا ھے ، اللہ پاک نے ان کو شاباش نہیں دی بلکہ ایک جھڑکی دی ھے کہ منہ سے تو یہ کہتے ھو مگر عمل کے وقت تمہاری مت ماری جاتی ھے ؟ عقل کہاں چلی جاتی ھے ،،مت ماری جاتی ھے ، پھر عمل کرتے وقت اپنی بات سے پھر کیوں جاتے ھو ،، تمہیں کون پھیر لے جاتا ھے ، قومیں کتابوں کی وجہ سے نہیں ھلاک کی گئیں اپنے عمل کی وجہ سے کی گئ ھیں ،، ھمارے اخلاقی طور پہ بھی دیوالیہ ھو چکے ھیں ،ھم سے ھر بد عملی کی امید کی جا سکتی ھے ،، جبکہ عقائد میں بھی ھمارے پلے ککھ نہیں ھے ،کتابوں میں لکھا کچھ اور ھے ،، سوانح عمریوں کی دنیا ھالی وڈ کی دنیا ھے جہاں ھر ناممکن بھی ممکن بنا لیا جاتا ھے ،، تھری ڈی والا شرک ،،،