فضائل اعمال اور تبلیغی جماعت ۔

شیخ الحدیث مولانا زکریا قدس سرہ کی علمی اور فقہی حیثیت کا اندازہ مؤطا امام مالک پر ان کی عربی شرح”اوجز المسالک فی مؤطا امام مالک ” سے ہوتا ہے، جو غالباََ اٹھارہ جلدوں پر مشتمل علم کا ایک سمندر اور چاروں فقہوں کا مختصر جائزہ ہے۔ دو سو صفحات کی کتاب پر سات سات سو صفحات کی اٹھارہ جلدیں اور وہ بھی ” مختصر ترین” مبہوت کر دینے والی تصنیف ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کی فصیح و بلیغ عربیت پر عرب علماء کے تبصرے گواہ ہیں جن کے مطابق جب سے مؤطا امام مالک لکھی گئی ہے، اس شرح سے بہترین شرح کبھی نہیں لکھی گئی۔ یہ حقیقی اور علمی روپ ہے شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کا۔
مگر تصوف کی دنیا ایسی گداز ہے کہ مخصوص شاکلہ رکھنے والوں کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتی چاہے وہ علم کی دنیا میں کسی مقام پر بھی ہوں۔
تبلیغی نصاب یا فضائل صدقات جیسی کتابیں صوفی مزاج شخص کے گداز میں سونے پہ سہاگہ کا کام کرتی ہیں ، یہ وہ کتابیں ہیں جنہوں نے مجھے جوانی میں بوڑھا کر رکھا تھا, ان کتابوں پر یا شیخ الحدیث پر تنقید میرے لئے اتنی ہی تکلیف دہ ہوتی ہے جتنا کسی ڈاکٹر کے لئے اپنے والد کا پوسٹ مارٹم کرنا۔
مبتدی کے لئے فضائل اعمال اس شہوت اور حرص بھری دنیا میں ایک ویکسین کا سا کام کرتی ہے، میرے ایک دوست ہیں کیپٹن شکیل اطھر صدیقی صاحب ،ائیرفورس میں تھے، شیخ محمد بن زاید کے انسٹرکٹر رھے،ایک پائلٹ کے کورٹ مارشل میں ٹربیونل کا حصہ تھے۔ ایک رکن کے متعلقہ پائلٹ کے خلاف تعصب کی بنیاد پر ٹربیونل سے بھی الگ ہو گئے اور استعفی پیش کر دیا۔ وہ جب کورسز کے لئے امریکہ میں تھے تو ان کے بقول تبلیغی نصاب ان کا اوڑھنا بچھونا تھی جس نے ان کو راتوں کا راہب اور دن کا جنگجو بنا رکھا تھا۔ان کے بقول اس کتاب نے ان کو رلا رلا کر مارا، بعد میں وہ اس کتاب کے سخت مخالف ہوگئے تھے۔ میرے سمیت اکثر مخالفین تقریبآ اسی دور سے گزرے ہیں ۔۔
اگر ان واقعات کو مجرد کسی فلم کی اسٹوری سمجھ لیا جائے, تب بھی اگر یہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتی مگر آپ میں رقت بھر دیتی ہے جیسا کہ آپ کسی فلم یا ڈرامے کو سو فیصد جھوٹی کہانی سمجھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں تب بھی کبھی ہیروئن کی چیخوں پر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، کسی پر ظلم دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں تو کم ازکم آپ کی انکھوں کے چشمے جاری ہونے کا ثبوت تو مل جاتا ہے۔ دل میں رقت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ اب کچھ ایک جھوٹی کہانی اور جھوٹ موٹ کی ایکٹنگ کو ایکٹنگ سمجھ کر ہوتا ہے اور آپ اس ایکٹر کی تعریف کرتے ہیں اور دوسروں کو فلم کا لنک بھی شیئر کرتے ہیں۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی ہر واقعے کے بعد اس کا سورس بھی لکھتے ہیں اور اس کا اسٹیٹس بھی ڈسکلیمر کے طور پر عربی میں لکھ دیتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے یا موضوع ہے, وغیرہ۔
آج بھی جب ہم ان واقعات پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں تو لاکھوں جوانوں کو ان کتابوں کے مطالعے نے راتوں کو رونے والا اور دن کو دروازے کٹھکٹھا کر اللہ کی طرف بلانے والا بنا رکھا ہے تبلیغ کے کام میں جس قدر کسر نفسی اور nothingness درکار ہے وہ انہی کہانیوں سے کشید کی گئی ہے۔ ہمارے گاؤں میں ایک جماعت آئی جس کو یکے بعد دیگرے نو مساجد سے باقاعدہ گالیاں دے کر نکالا گیا،اور جب وہ ایک مسجد سے دوسری مسجد کی طرف جاتے تو پیچھے بریلوی مولوی جو میرے کزن بھی ہیں اپنی مسجد کے لڑکے لئے اعلان کر رہا ہوتا کہ اصلی کافر جس نے دیکھنے ہیں وہ باھر نکل کر ان کو دیکھے۔ آخر کار ان کو ایک چھوٹی سی مسجد میں پناہ ملی ، تین دن بعد جب جماعت رخصت ہوئی تو گاؤں کے مرکزی بس اسٹاپ پر درجنوں لوگ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جماعت میں ایک بہت بڑا فوجی افسر بھی شامل تھا جس کو لینے کے لئے باقاعدہ اسٹاف کار اور پروٹوکول کا عملہ آیا تھا۔ گاؤں والے حیران تھے کہ وہ جس کو کافر کہہ کر گلیوں میں دوڑا رہے تھے وہ اتنا بڑا افسر ہو کر بھی چپ کر کے یہ سب کچھ سہتا رہا۔ جس کا ایک فون گاؤں کی سب مساجد کے دروازے اس کے لئے کھول سکتا تھا وہی جماعت کو سب سے زیادہ صبر کی تلقین کرتا رہا کہ ہماری شان رسول اللہ صلی اللہ علیہ اور صحابہ سے زیادہ نہیں جنہوں نے صبر کے ساتھ استہزاء کا مقابلہ کیا۔ اس واقعے کا اس قدر اثر ہؤا کہ گاؤں کے بہت سارے لوگ جماعت کے ساتھ لگ گئے خاص طور پر ریٹائرڈ فوجی تقریبآ سارے ہی جماعت کا دست و بازو بن گئے۔۔