غلامی یا موت

لوگ ھمیشہ آزادی اور غلامی کے درمیان تقابل کرتے ھیں اور یہیں سے وہ ٹھوکر کھاتے ھیں !
تقابل موت اور غلامی کے درمیان ھے !
ایک شخص میدان جنگ میں مغلوب ھو جاتا ھے جہاں وہ بہت سے لوگوں کی جان لے چکا ھے ! مغلوب ھو جانے کے بعد وہ غالب کی مرضی کے تابع ھے ،غالب چاھے تو تلوار کے ایک وار سے اس کا سر اڑا دے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ، وہ اپنے ھر مرنے والے ساتھی کی موت کا ذمہ دار اس مغلوب شخص کو گردان سکتا ھے ! اس خونی ماحول میں جہاں ھر طرف کٹے پھٹے لاشے بکھرے پڑے ھیں،، شریعت آگے بڑھتی ھے اور اس غالب کے نفس میں رکھے لالچ کے دیئے کو جلاتی ھے ،، اس بٹن کو دباتی ھے ! اسے مت مار ،، اسے قید کر لے اور اپنے نفعے کا سامان کر ! اس کو مار کر تمہیں کیا ملے گا،، اسے بچا لے اور اپنے کام میں لے آ ،، شریعت اس کے اندر لالچ کی جوت جگاتی ھے کہ وہ اس ماحول سے ایک دفعہ نکل آئے ! یہ ھے موت اور غلامی کا آپشن ،، مار دے یا غلام بنا لے ! آزادی یہاں کوئی آپشن نہیں ھے ! اسے یا مرنا ھے یا قید ھونا ھے ! یہاں جب آپ تقابل کریں گے تو آپ شریعت کو اس غلام کا حامی اور ساتھی پائیں گے جو اس نازک وقت میں مداخلت کر کے اس کی جان بچاتی ھے ،جب انسان سگی ماں کی بھی نہ مانے !
جب جنگ ختم ھوتی ھے وہ ماحول وہ خونی فضا ختم ھوتی ھے تو اب شریعت اسے آئستہ آئستہ غلام کو آزاد کرنے پر آمادہ کرتی ھے،، ٹھیک ھے تم نے اسے اپنے فائدے کے لئے قید کیا تھا،مگر فائدے بھی دو ھیں،، ایک عارضی اور فانی فائدہ ھے ، دوسرا دائمی اور باقی رھنے والا فائدہ ھے ! تو اسے آزاد کر کے آگے آخرت میں کیوں نہیں بھیج دیتا، کہ وھاں اسے پیش کر کے اپنی جان چھڑا لے،، یوں وہ بندہ بچ بھی جاتا ھے اور آزاد بھی ھو جاتا ھے !
اگر شریعت قید کرنا بیک قلم حرام قرار دے دیتی تو یقین جانیں میدان جنگ سے مغلوب قوم کا کوئی فرد زندہ نہ پلٹتا ! اور یوں زندگی کو کوئی دوسرا موقع نہ ملتا !