عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی !

 
وہ والد کی قبر کی زیارت کے بعد واپس آ رھا تھا ،یہ زیارت اسے تقریباً 8 سال بعد نصیب ھوئی تھی جب اسے یورپ سے لوٹنا نصیب ھوا تھا ، جاتے وقت والد اسے ائرپورٹ چھوڑنے آئے تھے ، وہ ھمیشہ اسے بچے کی طرح ٹریٹ کرتے تھے گویا وہ کچھ جانتا ھی نہیں ھے ، اگرچہ وہ اعلی تعیم کے لئے یورپ بھیجا جا رھا تھا مگر والد صاحب اسے ٹوتھ برش اور پیسٹ استعمال کرنا بھی کچھ یوں سمجھا رھے تھے گویا وہ پرائمری سکول کا بچہ ھے ، وہ ایک سیدھے سادے زمین دار اور ٹوٹ کر پیار کرنے والے والد تھے – ماں جب اسے یورپ کی لڑکیوں سے بچنے کی تلقین کر رھی تھیں تو والد صاحب پریشان ھو رھے تھے ، آخر انہوں نے تنگ آ کر کہہ دیا کہ یہ ابھی بچہ ھے تم کس قسم کی باتیں اس سے کر رھی ھو ؟ وھی پیار اور اعتبار کرنے والے والد اسے دیکھنے کی تمنا دل میں لئے اگلے جہان کے راھی ھو گئے تھے ،، بیماری کے دوران وہ بار بار اس کا پوچھتے رھے ، اس کے لئے نصیحتیں نوٹ کرواتے رھے ، 1982 میں ابھی موبائیل فون کا رواج نہ تھا ، یوں باپ بیٹا آخری بات بھی نہ کر سکے ، اس نے فلسفہ پڑھا تھا ،ماسٹر اور پھر پی ایچ ڈی کر کے عارضی طور پر واپس لوٹا تھا ، اسے واپس یونیورسٹی میں جا کر پڑھانا تھا ،،والد کی قبر پر وہ بچوں کی طرح مچل مچل کر رویا تھا اسے نہیں پتہ تھا کہ مردوں کے بارے میں مولوی کیا عقیدہ بیان کرتے ھیں وہ تو بس رو رو کر دل کا حال بیان کرتا رھا ، وہ جو کچھ جیتے جی ابا کو نہیں کہہ سکتا تھا وہ سب قبر کو سنا آیا تھا ،مگر لگتا تھا کہ ابھی بادل تھمے نہیں تھے،گھٹائیں اندر امڈ امڈ کر آ رھی تھی مگر وہ انہیں برسنے نہیں دے رھا تھا – ویگن میں سوار دوسرے مسافر اس کے حال سے بے خبر اپنی دنیا میں مگن گپیں لگا رھے تھے ، موضوع منڈیوں کے بھاؤ ھی تھا کیوں کہ وہ سب منڈی سے واپس آ رھے تھے، وہ حکومت کو کوس رھے تھے جو عین فصل کے پکنے کے وقت قیمتیں گرا دیتی تھی ، پھر ان سے سستا خریدا ھوا پلٹ کر ان کو مہنگا فروخت کرتی اور دونوں طرف سے کماتی تھی،،ویگن کی سواریاں پوری نہیں تھیں وہ چاھتا تھا کہ ویگن جلدی اسے منزل پہ پہنچا دے کہیں یہ بند رستے میں ھی نہ ٹوٹ جائے، ایک سوٹڈ بوٹڈ بابو کو روتا دیکھ کر لوگ کیا سمجھیں گے ، اچانک دور کہیں سے اک تارے پر حضرت باھو کا کلام پڑھا جانے لگا ،
ایمان سلامت ھر کوئی منگے، عشق سلامت کوئی ھووووو!
ایمان منگن شرماون عشقوں ،دل نوں غیرت ھوئی ھووووووو!
جس منزل نوں عشق پہنچاوے، ایمانوں خبر نہ کوئی ھووووو!
میرا عشق سلامت رکھیں، ایمانوں دیاں دھروئی ھوووووووو!
اک تارے نے اس کے اندر کے تاروں کو چھیڑ دیا تھا ،اس نے ویگن کے شیشے سے سر باھر نکال کر دیکھا ،ایک فقیر سر پہ گھٹڑی اور کندھے میں اک تارہ رکھے ایک ھاتھ سے بجاتا ھوا ویگن کی طرف آ رھا تھا ، فقیر نے اس کی متجسس نگاھوں کو بھانپ لیا اور سیدھا اسی کی طرف آیا ، یہ لوگ بھی ماھرِ نفسیات ھوتے ھیں ، اس کے حلیئے کو دیکھتے ھوئے وہ سمجھ گیا تھا کہ اگر کچھ ملنا ھے تو اس بابو سے ھی ملنا ھے ،، اس نے گھٹڑی ٹکٹ گھر کے بینچ پہ رکھ دی اور اک تارے کی تُن تُن کو پھر رواں کیا ،،
جس دل اندر عشق نئیں رچیا ،کُتے اس توں چنگے ھووووووووووووو !
در مالک دے راکھی کردے ، شاکر بھُکے ننگے ھوووووووووووووووو!
جس دل اندر عشق سمانڑا ،فیر نئیں اس جانڑاں !
سوھنے لکھ ھزراں ھوونڑ، اساں نئیں او یار وٹانڑاں!
وہ اکتارے والے سے ایک سوال کرنا چاھتا تھا ،مگر اس کا علم اسے اس فقیر سے مخاطب ھونے سے روک رھا تھا ، کہا جاتا ھے کہ العلم حجاب الاکبر، علم بہت بڑا پردہ ھے ، ایک ان پڑھ کسی سے بھی اپنی منزل کی بس کا پتہ کرتا ھے اور جھٹ جا بیٹھتا ھے،مگر پڑھا لکھا پوچھنے کی بجائے پورے بس اسٹینڈ کی بسوں کے بورڈ پڑھتا پھرتا ھے کہ اپنے علم کی بنیاد پر اپنی منزل کا پتہ پا لے،، مکے کے پڑھے لکھے زیادہ تر سردار اسی علم کی وجہ سے منزل سے محروم رہ گئے ،، اور بلالِ حبشی ،حضرت بلال بن گئے ، وہ ویگن سے نکل کر باھر بینچ پہ آ بیٹھا، اک تارے والا بھی آ کر اس سے تھوڑا سا ھٹ کر بینچ پر بیٹھ گیا ،تھوڑی دیر خاموش رھنے کے بعد اکتارے والے نے سگریٹ نکال کر منہ میں رکھی اور بڑی بے تکلفی سے بولا بابو جی ماچس ملے گی؟ اس نے جواب دینے کی بجائے نہایت گہری نظر سے فقیر کو دیکھا ،، یہ کون ھے ؟ کیا چاھتا ھے ؟؟ اس نے جیب سے لائیٹر نکال کر فقیر کے ھاتھ میں دے دیا جو ایک طرف سے پین اور دوسری طرف سے لائٹر تھا ،، فقیر حیران رہ گیا ،بابو جی میں نے پین نہیں ماچس مانگی ھے ،، یہ ماچس ھی ھے ، اس نے دھیرے سے جواب دیا اور پین پکڑ کر ٹھک سے جلا دیا، فقیر نے سگریٹ سلگا لیا تو اس نے لائیٹر دوبارہ جیب کے ساتھ لگا لیا، یہ لائیٹر اس کی کمزوری تھا ، اس نے کبھی سگریٹ نہیں پیا تھا مگر کبھی بھی لائٹر جیب میں رکھنا نہیں بھوُلا تھا ، وہ بچپن سے اس ماچس کا امین تھا ، بابا کے حقے کو سلگاتے وقت ھمیشہ ماچس اسی سے مانگنی پڑتی تھی ، وہ ماچس کہیں چھپا دیتا تھا ،یا جیب میں ڈال لیتا تھا یا تکیئے کے نیچے رکھ لیتا تھا ، تا کہ حقہ سلگاتے وقت وہ خود اس کا نطارہ کرے ،، بابا کا حقے کو گرم کرنا ، پانی چیک کرنا ، پانی تبدیل کرنا ،، اسے بالکل کسی سائنسی لیبارٹری کا عمل لگتا تھا، وہ جب باھر گیا تو بھی ماچس پاس رکھنا نہیں بھُولتا تھا، اسے ماچس کی موجودگی میں لگتا جیسے اس کی بگننگ ھو چکی ھے اور اس ماچس کے ذریعے اس کے والد کو اس کے احوال کی خبر رھتی ھے ، دو چار دفعہ یونیورسٹی میں ماچس جیب سے نکلنے پر دوستوں نے ھُوٹننگ کی تو اس نے ماچس کی بجائے یہ لائیٹر رکھنا شروع کر دیا تھا ، فقیر کے سوال نے اس کے علم کی برف پگھلانی شروع کر دی تھی ! بابا یہ عشق کیا ھوتا ھے ؟ بابا نے دھوئیں کا مرغولہ اس کی طرف منہ کر کے اس طرح چھوڑا کہ اس کا چہرہ دھوئیں میں چھپ کر رہ گیا ،، اسے لگا جیسے فقیر نے سوال سنا ھی نہیں ھے – وہ سوال دوبارہ کرنے ھی لگا تھا کہ فقیر نے پلٹ کر دھیرے سے سوال کر دیا ، یہ بھوک کیا ھوتی ھے بابو جی ؟ ھاں واقعی بھوک کیا ھوتی ھے ؟ اس نے بھی سوچا ! بھوک کسی کو کیسے ایکسپلین کی جا سکتی ھے جب تک کوئی خود بھوک سے گزرا نہ ھو ! یہ تو ایک کیفیت ھے ،جس تن لاگے سو تن جانے ،، کیا عشق بھی ایسی ھی کیفیت ھے جسے صرف مبتلا ھونے والا محسوس کر سکتا ھے ،کسی کو دکھا اور بتا نہیں سکتا ، عشق تین لفظوں کے دروازے سے کھلنے والا ایک جہاں ھے جہاں سے داخل ھونے والا پیچھے پلٹ نہیں سکتا ! کیونکہ اس میں داخلے کا رستہ تو ھے ،ایگزٹ کوئی نہیں ھے، میاں محمد بخش نے کیا یہی بات کہنے کی کوشش کی تھی ؟
عاشق دا جو دارو دسے، باہج ملاپ سجن دے !
اوہ سیانا ،جان ونجانا، روگ نہ جانے من دے !
کیا لوگ اسی لئے عشق کی ناکامی پہ خود کو گولی مار لیتے ھیں ؟ زھر کھا لیتے ھیں کیونکہ وہ کسی کو” وہ آگ "دکھا نہیں سکتے ؟ یہاں سے بات نے ایک اور ٹرن لے لیا تھا ، والدہ اس کی شادی اس کے ماموں کی بیٹی سے کرنا چاھتی تھیں جو بقول ان کے اس سے محبت کرتی تھی اور اس کی عدم موجودگی میں نہایت مناسب رشتوں سے انکار کر چکی تھی ، اس نے ایم بی بی ایس کیا تھا مگر ابھی تک کہیں منگنی کا ڈول ڈالا نہیں جا سکا تھا کیونکہ وہ ” کسی مناسب” رشتے کا انتظار کر رھی تھی اور بقول اس کی والدہ کے وہ مناسب رشتہ وھی تھا، وہ ابھی شادی کے جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاھتا تھا مگر والدہ کا اصرار تھا کہ وہ جانے سے پہلے انہیں خوشی دکھا دے کیونکہ وہ والد کی طرح سہرے کو دیکھے بغیر مرنا نہیں چاھتی تھیں، اس کی بڑی بہن نے بھی اسے بتایا تھا کہ ریحانہ اس سے محبت کرتی ھے اور اس کے سوا کسی سے شادی نہیں کرے گی چاھے ساری زندگی اسی طرح گزر جائے ،، فقیر نے اس کے دل کے تار بھی چھیڑ دیئے تھے ،کیا ریحانہ بھی اسی جان لیوا عشق میں مبتلا ھے جس کے حصول کے بغیر زندگی بوجھ بن جاتی ھے ، کیا میاں محمد بخش کے بقول اس لیڈی ڈاکٹر کا علاج یہی ھے کہ وہ اپنا مقصود پا لے، اس کے علاوہ سائنس نے کوئی دوا ایجاد نہیں کی، شاید وہ چند لمحے تھے جن میں وہ یہ سب کچھ سوچ گیا ،وہ ابھی انہیں سوچوں میں الجھا ھوا تھا کہ فقیر نے اچانک لقمہ دیا ” بھوک نہ ھو تو کھانا بھی بوجھ بن جاتا ھے بابو جی ” عشق نہ ھو تو ایمان بوجھ بن جاتا ھے ،، انسان اس سے جان چھڑاتا پھرتا ھے ، فقیر کی بات سچ تھی ، عبداللہ ابن ابئ کتنا خوش قسمت تھا کہ سرورِ کائنات کی اقتدا میں اللہ کے حضور حاضری دیا کرتا تھا ،پہلی صف کا یہ نمازی عشق کی عدم موجودگی کی وجہ سے رئیس المنافقین کے لقب کا مستحق ٹھہرا ، صحابی تو دور کی بات آج تک اسے مسلمان کہنے پر بھی کوئی زبان تیار نہیں !!
عشق ایمان کا اینٹی وائرس ھے ، یہ ایمان پر حملہ آور ھونے والے ھر وسوسے کا علاج ھے ، جتنا شدید خطرہ ھو ،اُتنا شدید عشق درکار ھے ، والذین آمنوا اشدُۜ حباً للہ ” ایمان والے تو اللہ سے شدید محبت کرتے ھیں ” لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من ولدہ و والدہ والناس اجمعین ،، تم تب تک مؤمن نہیں ھو سکتے جب تک کہ میں تمہیں محبوب نہ ھو جاؤں اپنی اولاد سے ، اپنے والدین سے، اور دیگر تمام لوگوں سے !! گویا عشق کا علاج بھی مزید عشق ھے ،دو طرفہ عشق ،یحبھم و یحبونہ ،، وہ ان سے عشق کرتا اور وہ اس سے عشق کرتے ھیں ،کیا یہ عشقِ حقیقی اور عشق مجازی ایک ھی سرنگ کے دو سرے ھیں ؟ جہاں عشق مجازی سے داخل ھونے والا عشقِ حقیقی سے جا نکلتا ھے ! لگتا تھا کہ پاس بیٹھے ھوئے فقیر نے اپنے وائی فائی کو پاس ورڈ نہیں لگایا تھا مسلسل ڈاؤن لؤڈنگ جاری تھی ، اس نے جیب میں ھاتھ ڈالا اور جو اس کے ھاتھ میں آیا بغیر گنے فقیر کی طرف ھاتھ بڑھا دیا ،،، فقیر نے بے نیازی سے اس کی طرف دیکھا ،، بابو جی اللہ آپ کو سلامت رکھے میں آپ سے کچھ نہیں لونگا ،آپ نے اتنا وقت دیا میرے پاس بیٹھے ، دو بول بولے ،، میرے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی خزانہ نہیں، پیسوں کی بھیک مجھے لوگ دیتے ھی رھتے ھیں مجھے آج تک گلہ نہیں ھوا ، وقت کی بھیک کوئی نہیں دیتا ،، یہ کہہ کر فقیر اس کے بڑھے ھوئے ھاتھ کو نظر انداز کرتے ھوئے اٹھ کھڑا ھوا ،، اس نے اکتارے کے تاروں کو تن تن کر کے چیک کیا اور آگے کی جانب چل پڑھا ،، وہ دور تک اس فقیر کو دیکھتا رھا ،، شاید وہ جو کام کرنے آیا تھا وہ کر گیا تھا ،، ویگن کا ھارن بجا تو وہ چونک کر کھڑا ھو گیا ،مگر جگہ چھوڑنے سے پہلے وہ ریحانہ کی محبت کا جواب محبت سے دینے اور اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا !
=================================================================
#۱سلام #قرآن #قاری حنیف ڈآر