شہادتِ علی الناس اور ھمارے کردار کی اھمیت

شہادتِ علی الناس اور ھمارے کردار کی اھمیت !
بھائیو ھم سے قسم لے لو جو ھمیں اپنی قوم کے قتل و قتال اور مار دھاڑ کی صلاحیت پہ کبھی شبہ ھوا ھو ،، بلکہ میں تو گواھی دیتا ھوں کہ شقاوتِ قلبی میں ھمیں نوبل انعام ملنا چاھئے کیونکہ ھمیں کوئی غیر قتل کرنے کو نہ ملے تو ھم اپنی جوان بیٹی کو ھی غیرت کے نام پر قتل کر لیتے ھیں ، اپنا داماد ، یا سالا یا بہنوئی بھی ھنس کر مار لیتے ھیں ، اب تو باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو بھی مار لیتا ھے ، بلکہ موڈ بنے تو ماں باپ اور بہن بھائیوں سمیت سات کے سات بھی مار لیتا ھے اور اس پر جھوٹ موٹ رو کر ایف آئی آر بھی نامعلوم کے خلاف کٹا سکتا ھے ، رأس الخیمہ میں ایک بھائی نے 300 درھم کے تنازعے پر اپنے دو بھائیوں کو سوتے میں ذبح کر دیا تھا ،تینوں ایک ھی کمپنی میں کام کرتے تھے دونوں چھوٹے شفٹ کر کے سوئے ھوئے تھے جب تیسرے بھائی نے جو سپروائزر تھا ،، آ کر انہیں مار ڈالا !!
الغرض ھم کو یہ الزام نہ دیا جائے کہ ھم قتل و قتال پر کوئی شک شبہ کرتے ھیں !ھمیں بس اعتراض ان پر ھے جو اپنی نماز جوتی کے عوض اور حج دو روٹیوں کے عوض بیچ دیتے ھیں مگر شہادتِ علی الناس کا بیڑا بھی اٹھائے ھوئے ھیں ! میری مسجد سے میرے سامنے میری جوتی پہن کر ایک صاحب چلے گئے ، ان کی شکل و صورت اتنی مسنون تھی کہ میں بس دیکھتا ھی رہ گیا اور: ؎
قیامت سے پہلے قیامت ھے یارو !
میرے سامنے میری جوتی اٹھے گی !
کا ورد کرتا رہ گیا ،، ظہر کی نماز پڑھ کر حرم سے انسانوں کا سیلاب نکلتا ھے اور ھوٹلوں کا رُخ کرتا ھے ،ھوٹیل پہ ھر چیز پیک ھوتی ھے بریانی ،چٹنی ، سالن روٹی ،، 5 ریال لے کر ھوٹیل والا ایک سالن اور دو روٹیاں پکڑاتا جا رھا تھا ،، دو دوست کھڑے تھے ،حسبِ معمول ھوٹیل والے نے دونوں کو دو سالن اور چار روٹیاں پکڑا دیں ، مگر ایک دوست کا ایمان اسے تنگ کر رھا تھا ، وہ ساتھ والے کہنے لگا : پکڑ یار میری روٹیاں میں اس سے اور لیتا ھوں ،، اور پھر گرج کر کہنے لگا ” او بھائی روٹی دو ناں ،، ھوٹیل والے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور دو روٹیاں اس کو پکڑا دیں ،،یہ اس وقت دو ریال کی دو روٹیاں تھیں، یوں وہ دو ریال میں اپنا ایمان بیچ کر چل دیئے !
اے ایمان والو! اگر روایت میں ایک راوی بھی ایسا ھو جس پر صرف جھوٹ یا بد دیانتی کا الزام لگا ھو تو وہ روایت اس بندے کے کردار کی وجہ سے کمزور ھو جاتی ھے ، اگر دو راوی ایسے ھوں تو مزید ناقابلِ اعتبار ھو جاتی ھے ،، جہاں پورا معاشرہ دروغ گوئی ،فند فریب ،بدعہدی اور بددیانتی کا مرقع ھو ،ان کا روایت کردہ دین کس حد تک معتبر ٹھہرے گا ؟ گواھی سے پہلے گواہ اور شہادت سے پہلے شاھد کا کردار زیرِ بحث آتا ھے ،اللہ پاک کے عدل انصاف کو دیکھتے ھوئے مجھے تو لگتا ھے کہ حشر میں غیر مسلم کہیں یہ جواز پیش کر کے بری ھی نہ ھو جائیں کہ ” مالک کیا یہ لوگ قابلِ اعتبار تھے ؟ دنیا کی ھر قباحت ان میں تھی ، اے مالک تیرے دین کے راوی بدکرداری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ! اور میرا اللہ ان کو بری کر کے ھمی کو پکڑ کر نہ لٹکا دے !
اس لئے میں کردار و سیرت کی طرف توجہ دلانا چاھتا ھوں کہ یہ بے کرداری ھماری ذات اور معاشرے کے لئے تو تباہ کن ھے ھی،، شہادتِ علی الناس کے فریضے کے لئے بھی زھرِ قاتل ھے !
سچ جب جھوٹے کے منہ سے نکلتا ھے تو اپنی عصمت و عظمت کھو دیتا ھے !
سلامت رھیں