دیوبندی ، بریلوی بھائی بھائی !

جسٹس ریٹائرڈ محترم تقی عثمانی صاحب نے اپنے مقام و مرتبے کا خیال کیئے بغیر نیشنل میڈیا پر جو اپنے تبلیغی بھائی کے خواب والی بات کر دی ،وہ بات بریلویوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی اب وہ کہہ رہے ہیں کہ جب ہم کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ آتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کو امت کے احوال کی سب خبر ہے تو دیوبندی ہم کو مشرک کہتے تھے ، اب خود دیوبندیوں کے مفتئی اعظم نے برملا اعتراف کر لیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو علمِ غیب بھی حاصل ہے اور آپ امت کے احوال کی خبر رکھتے ہوئے ان کے لئے مشورے اور تجاویز بھی دیتے ہیں ـ
دیوبندی بریلویوں کے لئے شرعی دلیل اور کسوٹی ہونگے ، اسلام میں دیوبندیوں کے عقائد کوئی شرعی کسوٹی نہیں کہ جن کی بنیاد پر حق اور باطل کا فیصلہ کیا جا سکے ـ جسٹس تقی عثمانی صاحب کے بیان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ بریلوی اور دیوبندی دونوں گمراہ ہیں ،، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بریلوی حق پر ہیں ـ میں تو عرصہ دراز سے لکھتا آ رہا ہوں کہ دیوبندی بریلوی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں مگر اپنی اپنی روٹیوں کے لئے امت محمدﷺ کو پھاڑ رکھا ہے ان دونوں نے ـ
دیوبند اکابر کی سوانح عمریاں پڑھ لیں ،جس قدر زیادہ ان کو رسول اللہ ﷺ خوابوں میں آتے ہیں ، اتنے تو بریلویوں کے امام اعظم احمد رضا خان بریلوی نے بھی دعوی نہیں کیا ،، جتنی کرامتیں دیوبندی اکابر کی ہیں اس کا دو فیصد بھی عیسی ابن مریم علیھما السلام میں نہیں ہیں ـ یہ مردے بھی زندہ کرتے ہیں ، یہ انڈیا کی مسجد میں بیٹھ کر بحر ہند میں ڈوبتا بحری جہاز بھی طوفان سے بچا لے جاتے ہیں اور دھوتی بھی گیلی نہیں ہوتی ، یہ مسجد کی دیوار میں سے بھوت کی طرح اندر باھر آتے جاتے ہیں یعنی دروازہ استعمال ہی نہیں کرتا بس منہ اٹھائے جس دیوار میں سے مرضی ہے کاسپر دی فرینڈلی گھوسٹ کی طرح آتے جاتے ہیں ، یہ اپنے مرید کو اس حد تک اپنی شکل کے مماثل بنا دیتے ہیں کہ مریدین فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اصل کون ہے اور نقل کون ، یہ دفن ہونے کے بعد مٹھائی کا ڈبہ اٹھائے واپس گھر تشریف لے آتے ہیں بچوں سے کہتے ہیں کہ کسی کو بتانا مت ورنہ میں پھر نہیں آؤنگا ،، آخر بیوی نے تنگ آ کر کہا کہ میں محلے میں بدنام ہو رہی ہوں کہ جب شوھر زندہ تھا تو روکھی سوکھی کھاتی تھی ، شوہر مرا تو مٹھائیاں کھانا شروع ہو گئ ہے ،لہذا آپ مٹھائی نہ لایا کریں ورنہ میں بتا دونگی ، اور پھر بیوی نے محلے والوں کو بتا دیا کہ حضرت مٹھائی لے کر خود آتے ہیں ،پھر حضرت جی ناراض ہو کر واپس نہیں آئے ـ یہ واقعات کچھ بھی نہیں ہیں ،، دیوبندی ھندوتا کا پورا چربہ ہیں ،، ان کے غوث اور قطب ھندوؤں کے دیوتاؤں اور اوتاروں کا چربہ ہیں ،، ان کے مراقبے اور مشقیں ھندوؤں کے یوگا کا چربہ ہیں ـ ان کے عقائد ھندؤوں کے عقائد کا چربہ ہیں کہ کائنات کو کچھ دیوتا [ اصحابِ تکوین ] چلا رہے ہیں ۔ جیسے ھندی فلموں میں ہر ظلم و بربریت کے نتیجے میں کوئی اوتار انسانی شکل میں آ کر ڈٹ جاتا ھے ویسے ہی ان کے یہاں بھی ان کے قطب ٹپک پڑتے ہیں اور مشکلیں آسان کرتے اور ارزاق کا بندوبست کرتے ہیں ـ
جناب اشرف علی تھانوی صاحب کی تصنیف شریعت و طریقت میں یہ درج ہے کہ ہر بستی میں ایک قطب ہوتا ھے جو اس بستی کے ارزاق کا بندوبست کرتا اور دافع بلیات ہوتا ھے یعنی اس بستی کی بلائیں دور کرتا ہے ، یہانتک کہ اگر کسی بستی میں ایک بھی مسلمان نہ ہو اس بستی کا کوئی ھندو قطب ہوتا ھے ،، اگر اس ھندو قطب کو پہچاننا ہو تو اھل نظر یعنی صوفیوں کو جس ھندو کا احترام کرتے دیکھیں آپ بھی اس کا احترام کریں کیونکہ وہ اس بستی کا قطب ہو گا ـ ان سوانح عمریاں مذھبی ڈزنی لینڈ ہے ،جس کے کردار ہر وہ کام کرتے ہیں جو ڈزنی لینڈ کے ھیروز کرتے ہیں ـ
قصہ مختصر کہ بریلویوں کو دیوبندی عقائد مبارک مگر قرآن و سنت کا عقیدہ کچھ اور ہے، کوئی نبی اپنی امت کے احوال سے واقف نہیں ،،نبی اپنا مشن مکمل کر کے اب ریسٹ کر رہے ہیں ـ متفق علیہ حدیث [ حدیث حوض ] میں واضح کر دیا گیا ہے کہ میرے حوض پر ایسے اصحاب کا گروپ آئے گا جن کو میں پہچان لونگا اور ان کو مرحبا کہوں گا کہ بائیں ہاتھ والے فرشتے ان کو پکڑ کر کھینچتے ہوئے مجھ سے دور جھنم کی طرف چلیں گے ، جس پر میں کہوں گا کہ یہ مرے اصحاب ہیں ، تو وہ جواب دیں گے کہ ’’ آپ نہیں جانتے آپ کے بعد انہوں نے دین کے ساتھ کیا کچھ نیا کیا تھا ‘‘ جس پر میں کہونگا کہ ’’ سحقاً سحقاً ‘‘ دوری ہو ،دوری ہو ،،
[ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَيَّ شَرِبَ ، وَمَنْ شَرِبَ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا ، لَيَرِدَنَّ عَلَيَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُهُمْ وَيَعْرِفُونِي ، ثُمَّ يُحَالُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ ، فَأَقُولُ : إِنَّهُمْ مِنِّي ، فَيُقَالُ : إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ ، فَأَقُولُ : سُحْقًا ، سُحْقًا ، لِمَنْ غَيَّرَ بَعْدِي ) .
رواه البخاري ( 6212 ) ومسلم ( 2290 ) .]
حضرت عیسی علیہ السلام سے جب اللہ قیامت کے دن پوچھے گا کہ اے عیسی بیٹے مریم کے ،کیا تم نے لوگوں کو یہ عقیدہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کے علاوہ خدا بنا لو ؟ تو عیسی علیہ السلام اس کا انکار فرمائیں گے اور جواب میں دلیل دیں گے کہ اے اللہ جب میں ان میں تھا تب تو ان کا یہ عقیدہ نہیں تھا ، اور میں اسی وقت تک ان کا ذمہ دار ہوں جب تک میں ان میں موجود تھا ، پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی ،، تو اس کے بعد تو ان کا نگران تھا ، اور تُو تو ہر چیز کا شاھد ہے ،،
[ وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (116) مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (117) المائدہ ]