دنیا اور آزمائش ،،

دنیا میں ہمیں جو ملا ہے وہ ہمارے استحقاق کی بنیاد پر نہیں بلکہ امتحان اور آزمائش کے حکمت کے تحت ملا ہے ، ہمیں توجہ اس پر مرکوز رکھنی ھے کہ میری غریبی مجھے رب پر غضبناک نہ کر دے اور میری امیری مجھے رب کا باغی نہ بنا دے ، اللہ پاک نے سورہ الفجر میں قوموں کی تباہی کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ان کی تباھی کے اسباب کو ان کی سوچ کی کجی کی طرف منسوب کیا ھے ” الذین طغوا فی البلاد ، فاکثروا فیھا الفساد ،، جنہوں نے زمین میں خدائی نظام سے بغاوت کر کے اس میں فساد برپا کر کے رکھ دیا ، اوریوں فساد کو غالب کر دیا ، اور اللہ تو فسادیوں کی تاک میں رھتا ھے –
اس کے بعد انسانی فکر اور عمل کی کجی کو کھول کر بیان کر دیا ھے ،، جب انسان کو اللہ آزماتا ھے تو اس کو عزت وکرامت عطا کرتا ھے اور نعمتوں سے لاد دیتا ھے ، وہ اس کو حتمی حقیقت اور اپنا استحقاق سمجھ کر کہتا ھے کہ” میرے رب نے مجھے بڑی عزت دی ھے ، دوسری جانب دوسرے انسان کو آزماتا ھے تو اس کو بڑا ناپ تول کر دیتا ھے اور وہ غربت کو اللہ کا عذاب سمجھ کر کہتا ھے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا ،
ھر گز ایسا نہیں ھے ، غربت کے اسباب امارت کے بطن سے جنم لیتے ھیں ، تم امیر لوگ یتیم کا خیال نہیں کرتے ، نہ غریب کو کھلانے کی ترغیب دیتے ھو، اور وراثت کو ھڑپ کر جاتے ھو ، اور مال سے خوب ڈٹ کر محبت کرتے ھو،، یہیں سے غریبی جنم لیتی ھے ،غریب تمہارا اپنا بہن بھائی اور عزیز ھی ھوتا ھے ،ھر امیر کے کچھ غریب رشتے دار ضرور ھوتے ھیں اور ھر غریب کے امیر رشتے دار ھوتے ھیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کا امتحان ھیں ،
اب سوال یہ اٹھتا ھے کہ آخر امیر اپنے کمائے ھوئے مال کو کسی دوسرے کو کیوں دے جبکہ وہ اس مال کو اپنا استحقاق سمجھتا ھے ؟
اس کا جواب سورت کے آخر تک چلتا ھے ،،
یہ امارت اور غربت سدا نہیں رھیں گے ، ایک دن آئے گا جس دن یہ زمیں کوٹ کوٹ کر برابر کر دی جائے گی ، اور تیرا رب اس حال میں تجلی فرمائے گا کہ فرشتے صفیں باندھ کر کھڑے ھونگے ، اس دن جھنم بھی لائی جائے گی ، اس دن تیری اس کیوں کا جواب تمہیں مل جائے گا اور تمہیں پتہ چلے گا کہ تیرے ھاتھ میں دے کر محروموں میں بانٹنے کا حکم کیوں دیا گیا تھا ، جسے تو اپنا سمجھتا تھا وہ ان کا حق تھا جو تیری آزمائش کے لئے تیرے ھاتھوں تقسیم کرانا تھا مگر تو نے اسے اپنا سمجھ کر اسے اپنی وراثت بنا لیا ، مگر اس دن سمجھ لگ جانے کا فائدہ کوئی نہیں ھو گا ، اس دن انسان کہے گا کہ ” کاش میں نے اپنی زندگی کے لئے آگے کچھ بھیجا ھوتا ” یہ جو تم غریبوں کو دیتے ھو درحقیقت ان کے ذریعے اپنی آخرت کی زندگی کا سامان کرتے ھو اور ان کے ذریعے آخرت میں کارگو بھیجتے ھو ،،
اس دن اللہ کے عذاب جیسا کوئی عذاب نہ ھو گا اور اس کی گرفت جیسی کوئی گرفت نہ ھو گی، دوسری جانب یہ ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنے والے سے کہا جائے گا کہ اے مطمئن روح اپنے رب کی طرف لوٹ اس حال میں کہ تو اس سے راضی ھے اور وہ تجھ سے راضی ھے ، نہ تجھے اس سے کوئی گلہ ھے اور نہ اس کو تجھ سے گلہ ھے ، میرے بندوں میں داخل ھو کر میری جنت میں داخل ھو جا ،،
==================================================
#۱سلام #قرآن #قاری حنیف ڈآر #دنیا #آزمائش