داستان طوقوں اور بیڑیوں کی ـ

شروع میں اسلام بہت سادہ تھا،اور یہی سادگی اس کی طاقت تھی جس کے سامنے ھر مذھب ہتھیار ڈال دیتا تھا ، یہ انگلیوں پر گنی جانے والیں چند باتیں تھیں ،،

اسلام یہ ھے کہ تم اللہ کی توحید اور محمد ﷺ کی رسالت کا اقرار کر لو، نماز پڑھو ، زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اور اگر اللہ استطاعت دے توبیت اللہ کا حج کر لو ،،

ایمان یہ ھے کہ تم اللہ کی توحید اور محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لاؤ، اللہ کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور آخرت کے دن پر ایمان لاؤ، اچھے اور برے حالات صرف ایک خدا کی طرف سے مانو،، اور ان سب کا نتیجہ یہ کہ اللہ سے تعلق یوں رکھو گویا تم اس کو دیکھ رھے ھو اگرچہ تم اسے نہ دیکھ سکو مگر وہ تمہیں ہر وقت ہر حال میں دیکھتا رھتا ھے

[ قَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِسْلَامِ قَالَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالَ صَدَقْتَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِيمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ـ
پھر فقہی طوق اور بیڑیاں سد ذرائع کے نام پر کیسے وجود پذیر ھوئیں ؟

جب آپ کا بچہ ایک جگہ سے پہلی بار گرتا ھے تو آپ اس جگہ کو بند کرنے کے لئے کوئی گرل لگاتے ہیں تا کہ وھاں سے دوبارہ نہ گرے، اور اگر جنگلے کی استطاعت نہ ھو توپھر اس بلندی یا پستی کی راہ میں کوئی ٹوکرا ھی کھڑا کر دیتے ہیں تا کہ بیٹا وہاں تک جا ھی نہ سکے جہاں سے گرا تھا ، یا بچے کی ٹانگ ہی رسی یا ناڑے سے کسی چارپائی کے ساتھ باندھ دیتے ہیں ،اس کو سدِ ذریعہ کہا جاتا ھے یعنی جرم کی راہ میں دیوار کھڑی کرنا ،، دنیاوی قانون میں بھی ۹۰ فیصد قانون سازی سد ذریعہ کے طور پر ھوتی ھے ،،،

کچھ طوق تقوے کے نام پر امت کے گلے میں ڈالے گئے جیسا کہ اللہ پاک نے عیسائیوں کے بارے میں فرمایا ھے کہ رھبانیت ان لوگوں نے تقوے کی نشانی کے طور پر خود ایجاد کی ھم نے ان پر فرض نہیں کی تھی، والرھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبناھا علیھم ،، الا ابتغاء رضوان اللہ ،، ھم نے تو صرف رب کو خوش رکھنے کے لئے کہا تھا ، اس کا یہ طریقہ ان لوگوں نے خود چنا ،، یہ اسی طرح ھے جیسے ایک حج تو فرض کیا گیا ، مگر خدا کی خوشنودی کے لئے ھر سال حج کرنا یا عمرہ کرنا خود ساختہ عمل ھے ، اگر اللہ کی رضا اور خوشنودی مقصود ھے تو وہ گھر بیٹھے غریب نادار رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کر کے بھی حاصل کی جا سکتی ھے مگر ظاھر ھے اس میں وہ بلے بلے اور واہ واہ نہیں ھوتی ، یہ حج اور عمرے نہیں بلکہ وردی پر لگنے والے اسٹار ہیں ھر اسٹار کے اضافے سے عہدے میں ترقی اور سہولیات میں اضافہ مطلوب ھے یعنی جنت میں ،، ھم بھول جاتے ہیں کہ ترقی تو دور کی بات یہاں تو ایمان بھی خطرے سے دوچار ہے ،، لیس بمومن من شبع و جارہ جائع ،، وہ مومن نہیں جس نے خود پیٹ بھر کر کھا لیا اور اس کا پڑوسی بھوکا رھا ،، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، پوچھا گیا کہ کون یا رسول اللہ ﷺ ؟ فرمایا جس کا پڑوسی اس کے شر سے امن میں نہیں ،،

یہود پر چربی اور مچھلی کا شکار وغیرہ ان کی حرکتوں کی وجہ سے حرام کیا گیا تھا نہ کہ حرمت کی اصل یعنی خباثت کی وجہ سے ،، ذالک جزیناھم ببغیھم و انا لصادقون ،، یہ ھم نے ان کی ضدم ضدا کی وجہ اسے ان پر حرام کیں اور ھم یقیناً سچ کہہ رھے ہیں ـ

یہ علماء اور فقہاء کا وھی ضدم ضدا ھے جس میں ایک فقیہہ کے نزدیک کوئی چیز حرام ھے تو دوسرے کے نزدیک وہ حلال ھے ،، اب جو اس امام کو شارع مان کر اس چیز کو حرام کیئے بیٹھے ہیں وہ خود ھی ایک بیڑی اٹھا کر پہن لیں تو اللہ کا کیا قصور؟ بعض کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ھے وہ خون کو پیشاب سمجھ کر فتوی دے رھے ہیں ، کھانے کے لئے حرام کی گئ چیزوں میں خون کو کھانے یا پینے کے لئے حرام کیا گیا ھے ناں کہ اس کو پیشاب قرار دیا گیا ھے کہ بدن سے نکلتے ہی بندہ ناپاک ھو گیا ،، جبکہ دیگر کے نزدیک بدن سے نکلنے والے خون کی حیثیت پسینے کی سی ھے چاھے وہ انگلی سے نکلے یا دانت سے نکلے ،،گائے کا خون پینا حرام ھے مگر وہ خون کپڑے یا بدن پہ لگا ھو تو نماز پڑھی جا سکتی ھے اس لئے کہ جس علت کی وجہ سے اس کو حرام کیا گیا ھے کہ اس سے انسانی فطرت میں وحشت اور خونخواری پیدا ھوتی ھے وہ کپڑے پر لگنے سے پیدا نہیں ھوتی ،، اسی طرح یہود میں جن جن فرقوں نے اپنے ائمہ کے کہنے سے جو جو پابندیاں اپنے اوپر لاگو کیں ، اللہ پاک نے بھی آنے والے نبی کی زبان سے ان پر وہ واجب کر دیں ،، تا آنکہ موسی علیہ السلام کے اس مطالبے پر کہ ان کی امت پر رحم فرما کر ان پابندیوں کو ھٹا دیا جائے اللہ پاک نے دو ٹوک اعلان فرمایا کہ اب یہ آخری اور دائمی شریعت میں ھی ھٹائی جائیں گی جن کے لئے آپ کی امت کو محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ھو گا تبھی وہ اس آسان شریعت سے مستفید ھو سکیں گے ، اگر محمد ﷺ کی رسالت کو نہیں مانو گے اور سابقہ شریعت سے ہی چمٹے رھو گے تو کوئی بات نہیں ھم بھی تمہارا محاسبہ سابقہ پابندیوں کے مطابق ہی کریں گے ـ

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (157) الاعراف

یہود رسول اللہ ﷺ پر ایمان تو نہیں رکھتے تھے مگر ڈسکاؤنٹ کا فتوی لینے آ جاتے تھے ، اللہ پاک نے فرمایا کہ اگر تم محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے بغیر ان سے فتوی لے بھی آؤ تو بھی میں تو وھی قبول کرونگا جو تورات میں تمہارے لئے موجود ھے کیونکہ شرعا تم تورات کے مکلف ھو ، قرآن کے نہیں اس لئے ـ

وکیف یحکمونک وعندهم التوراة فیها حکم الله ثم یتولون من بعد ذالک وما اولئک بالمومنین( المائدہ ـ 43 )

اور یہ آپ ایمان لائے بغیر کیسے فتوی لینے آ جاتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ھے جس میں ان کے لئے حکم موجود ھے جس سے رو گردانی کر کے آئے ہیں اور جس کے پاس آئے ہیں اس پر بھی ایمان نہیں رکھتے ،،
گویا ایک بس یہ چھوڑ کر آئے ہیں اور دوسری پر چڑھنا نہیں چاہتے تو منزل پر کیسے پہنچیں گے ؟

اسی سے قیاس کر کے ھر مسئلے میں ایک امام کے اتباع کا فتوی دیا جاتا ھے جبکہ یہ قیاس ھی سرے سے غلط ھے اس لئے کہ کسی امام پر بھی ایمان لانا مطلوب نہیں ھے ، کہ اس پر ایمان لائے بغیر تمہارا عمل قبول نہیں ھو گا ، اس امت کا ھر شخص اللہ اور رسول ﷺ کا غلام ھے اور اب دونوں کا فیصلہ ھی فائنل ھو گا ، اجہتاد ھمیشہ امت کے مفاد اور آسانی کے لئے رستہ کھولنے کے لئے کیا جاتا ھے ۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد اور وحی کے سلسلے کے اختتام کے بعد اب امت کی آسانی کی راہ تو کھوجی جا سکتی ھے ، تنگی کا ایک فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا ،، اجتہاد کسی تنگی کو دریافت کرنے کا مجاز نہیں ، یہ اس کی ڈومین ھی نہیں ،،

اللہ پاک کا فیصلہ یہ ھے جو زندگی کے ھر شعبے میں اصل الاصول کی حیثیت رکھتا ھے کہ ؎
یرید اللہ بکم الیسر ، ولا یرید بکم العسر ،،

اللہ تمہارے لئے آسانی چاھتا ھے ، اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاھتا !

اب اللہ کی یہ منشا اگر امام ابوحنیفہ کے پاس ملتی ھے تو ھم اس کو ترجیح دیں گے ، اور اگر امام مالک کے پاس ملتی ھے تو اس کو ترجیح دیں گے اور امام جعفر صادق کے پاس ملتی ھے تو ان کو ترجیح دیں گے ھمیں اس چیز کی تلاش ھے جو ھمارے رب کی پسند ھے یعنی یسر اور آسانی ،، اور اس چیز کو چھوڑنا ھے جس کو رب نے ھمارے لئے پسند نہیں کیا یعنی عسر اور تنگی ،، وہ جس امام کے پاس ھو گی ھم اس کو نہیں لیں گے ـ

نبئ کریم ﷺ نے بھی فرمایا کہ یسروا ولا تعسروا ،، و بشروا ولا تنفروا ،،

آسانی اختیار کرو تنگی مت اختیار کرو ،، اور خوش کرنے والی بات کرو نفرت مت پھیلاؤ ،،

ھاں اگر ایک ھی رستہ ھے تو پھر وہ جیسا بھی تنگ ھو ھم کو اس پر عمل کرنا ھے !

فیس بک پوسٹ