ایمان کا دیا ایمان سے جلتا ھے !

ھمارے ایک دوست کو یہ فکر ھے کہ اگر دفتر میں ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کو قرآن نہ دیا تو اس دوران وہ مر جائے گا اور حشر میں اتمام حجت نہیں ھو گا اور ھم پکڑے جائیں گے ،،،،،،،،،،،،،،،،،، یہ جمعے کے بعد سوال جواب کی مجلس کا سوال ھے ، جس پر پھر ایک گھنٹہ خطبہ دینا پڑ گیا ،،،،،،،،،،،
عرض کیا کہ بھائی جب مسلمانوں کو پڑھنے کے لئے قرآن دستیاب نہیں تھا صرف چار پانچ نسخے تھے تو وہ کیا اور کیسے پہنچاتے تھے ؟ میرے بھائی عمل سے قرآن پہنچاؤ ، سراپا قرآن بن جاؤ ،، جس طرح نبئ کریم ﷺ چلتا پھرتا قرآن تھے ،، اور صحابہؓ کو بھی ویسا بنا گئے ،، صحابہؓ مالابار انڈیا پہنچے تو تاجر بن کر اور مالاباریوں کو مسلمان کر گئے حالانکہ ان کو مالاباری میں گھنٹے گھنٹے کے خطبے دینے نہیں آتے تھے ،،، اپنا حسنِ سلوک ایسا کرو کہ وہ پوچھیں کہ اس سلوک کی ھارڈ کاپی کہاں سے ملے گی تو ان کو قرآن پکڑا دو ،، جب تک کردار کو قرآن والا نہیں بناؤ گے ، پریکٹیکل کر کے نہیں دکھاؤ گے ،اتمام حجت کا نام بھی لینا خود فریبی بھی ھے اور خدا فریبی بھی ،،،،،،،،، ایک دوست آپ کو راڈو گھڑی دیتا ھے اور ساتھ میں ایک لیٹر دیتا ھے جس میں اس گھڑی کی خصوصیات ( Properties ) لکھی ھوئی ھیں ،،،، آپ خصوصیات والا لیٹر تو پہنچا دیتے ھو مگر گھڑی غائب کر دیتے ھو تو کیا وہ بندہ روزانہ صبح وضو کر کے اس لیٹر پر گھڑی کی خصوصیات تلاوت کر کے مطمئن ھو جائے گا ،، اور جس نے بھیجی تھی وہ مطمئن ھو جائے گا کہ ” اتمامِ حجت ” ھو گیا ھے ؟ قرآن دیا تھا تو ساتھ کردار عملی صورت دیا تھا ،، اب غیر مسلم قرآن پڑھ کر پوچھے گا کہ جناب یہ جس مخلوق کا ذکر اللہ پاک کے اس خط میں کیا گیا ھے وہ مخلوق کہاں پائی جاتی ھے ،، ؟ تم تو وہ مخلوق نہیں ھو کیونکہ تمہارے اندر ان میں سے ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی جو ایک مومن کی اس کتاب میں گنوائی گئ ھیں ،، یاد رکھو ایمان کا دیا ایمان سے جلتا ھے اور کردار کو کردار ھی تبدیل کرتا ھے ،، قول مجرد قول پیدا کرتا ھے ، اس لئے ھم گفتار کے غازی ھیں ،، دفتر والے اچھی طرح جانتے ھیں کہ ھم کام چور ھیں اور نماز بھی کسی کا وقت چوری کر کے پڑھتے ھیں ، ھماری دفتر کی نماز گھر کی نمازوں سے طویل ھوتی ھے کیونکہ گھر والا ھمارا وقت ھوتا ھے اور ظھر والا دفتر والوں کا ،، ھم جب پاکستانی جینٹاسین انجیکشن چھوڑ کر جرمنی کا لیتے ھیں تو یہ اقرار کر رھے ھوتے ھیں کہ جرمن ھم سے زیادہ ایماندار ھیں ، ھم جب پاکستانی گلوکووینس کی بجائے فرانس کی بنی گلوکووینس لیتے ھیں تو ھم اقرار کرتے ھیں کہ ھم بے ایمان لوگ ھیں ،، یہانتک کہ انڈیا کی دوا ھماری نسبت 60٪ سستی مگر اصلی ھوتی ھے ،،،،،
عرض کیا میرے بھائی اگر کتاب دے بھی دو گے تو اتمامِ حجت نہیں ھو گا – کسی حدیث کے دس سچے راویوں کے بیچ ایک راوی ایسا داخل ھو جائے جس کے کردار پر صرف الزام اور تہمت رکھی گئ ھو،، تو وہ حدیث اس کے کردار کی وجہ سے ضعیف ھو جاتی ھے ،، اگر وہ ضعیف راوی یہ روایت کرنے والی نیکی نہ کرتا بلکہ گُلی ڈنڈا کھیل لیتا تو اچھا تھا ، اس نے نیکی کے نام پر باقی دس راویوں کی محنت پر بھی پانی پھیر دیا ، جس دین کی روایت میں ڈیڑھ ارب کرپٹ داخل ھو جائیں اس کے ضعف کی کیا حالت ھو گی ؟ وہ غیر مسلم حشر میں کہہ دے گا میرے مولا میں تو حق کی تلاش میں تھا ،مگر جس کے ھاتھ سے ملا ،،، وہ قابلِ اعتبار نہیں تھا ،، اس لئے میں شک میں ھی رھا کہ جس دوا نے اس کو فائدہ نہیں دیا جس کی سات پشتیں مسلمان تھیں وہ مجھے کیا شفا دے گی ؟
انسان آئیڈیل پرست ھے ، یہ بات اس کی فطرت میں رکھی گئ ھے ،ھر بندہ کسی نہ کسی آئیڈیل کو لیئے پھر رھا ھے ،، اس کے نزدیک مولوی گنہگار نہیں ھوتا اور ڈاکٹر بیمار نہیں ھوتا ،، جو ڈاکٹر خود ٹانگوں پہ تکیئے جتنی موٹی پٹیاں باندھ کر بیٹھا ھو ، جوڑوں کے درد کا مریض کبھی اس سے دوا لے کر مطمئن نہیں ھوتا ،، کہ اگر ان میں شفا ھوتی تو یہ ڈاکٹر خود نہ کھا لیتا ؟