ایمان اور اطمئنان

اللہ کے خلیل جناب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے جب اللہ پاک سے سوال کیا کہ ” مجھے دکھا دیجئے کہ آپ مُردوں کو زندہ کیسے کریں گے ؟ تو اللہ پاک نے پلٹ کر سوال کیا اور اللہ پاک سب کچھ جانتے ھوئے ھی سوال اس لئے کرتے ھیں کہ اس سوال سے متعلق بعد میں پیدا ھونے والی غلط فہمیوں اور موشگافیوں کا رستہ روکا جائے ، لوگوں کو معلوم ھو کہ سوال کرنے والے نے سوال کس ذھنی اور ایمانی کیفیت میں کیا ھے ،، اللہ پاک نے سوال کیا ” کیا تو ایمان نہیں رکھتا ؟ ( کہ ھم ھی زندگی اور موت دیتے ھیں ) ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ” کیوں نہیں ( جی بالکل ایمان رکھتا ھوں ) مگر دل کو شوق ھے کہ وہ اپنے آقا کو وہ کرتے دیکھے جس پہ اس کا ایمان ھے تا کہ ایمان کے ساتھ اطمینان بھی حاصل ھو ،،،،،،،،، گویا ایمان الگ چیز ھے اور اطمئنان الگ درجہ ھے ، ایک شخص اگر کسی چیز کے بارے میں اطمینانِ قلب کے لئے سوال کرتا ھے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دھریہ یا ملحد ھے اور اس کا ایمان نہیں ،، اگر ایمان کے پہاڑ خلیل اللہ کو بھی اطمئنان کی ضرورت ھے تو ھما شما زیادہ حقدار ھیں کہ اپنے اطمئنان کے لئے سوال کریں ،، لہذا ھر وہ شخص جس کے دل میں کوئی ایسا سوال کھٹک رھا ھو جس کے پیچھے اطمینان کی طلب ھو تو وہ بالکل پوچھ سکتا ھے ، اس میں کسی جھجھک یا فتوے کے ڈر والی کوئی بات نہیں ،، یہ ھمارا فرضِ منصبی ھے کہ ھم اپنے علم کے مطابق ان کی ضرورت کو پورا کریں ،، اور اگر خود پورا نہیں کر سکتے تو انہیں اس شخص کی طرف راہنمائی کر دیں جو ایسا کر سکتا ھے !
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ( البقرہ 260 )
قال او لم تؤمن ؟ قال بلی ! ولٰکن لیطمئن قلبی