اپنا اللہ

صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجیں لگی ھوئی تھیں ،، ان پر اللہ پاک کا کرم ھی ایسا تھا کہ یہ کرم کسی اور پہ ھو سکتا بھی نہیں ،،
اللہ پاک ان کو اپنا گرائیں، گرائیں لگتا تھا وہ اللہ پاک سے وھی انس محسوس کرتے تھے جو کسی کلی وال سے کلی وال محسوس کرتا ھے ،، وھی انس جو ایک ھم زبان ھم زبان سے محسوس کرتا ھے ،، آپ ھزاروں کے مجمعے میں کھڑے ھوں ، آپ رستہ پوچھنا چاھئیں ،ھر ایک سے درخواست کر رھے ھوں ،، کہ اچانک آپ کو کوئی آپ کی مادری زبان مین پوچھ بیٹھے بھائی صاحب کیا مسئلہ ھے ،،،،،،،، آپ دوسرے سے اپنی گفتگو بیچ میں ھی چھوڑ چھاڑ کر سیدھے اپنے گرائیں ،ھم زبان ، ھم علاقہ اور ھم ملک کی طرف لپکتے ھیں ،، پھر جو وہ بتاتا ھے اسے پہاڑ جتنے یقین کے ساتھ دل میں بٹھا لیتے ھیں ،، بس یہی وہ یقین ھے جو صحابہؓ کے سوا کسی کو نصیب نہیں ھو سکتا ،، ان کے لئے سورتیں ھی مکی مدنی نہیں تھیں ،، ان کا اللہ بھی مکی مدنی تھا جو قریش کے لہجے میں ان سے محمدﷺ کی آواز میں کلام کرتا تھا ، آواز بھی گرائیں کی ،، لہجہ بھی گرائیں کا اور زبان بھی گرائیں گی ،، کیا مزہ تھا کلام اللہ سننے کا ،، وہ اللہ کی باتیں اسی طرح سنتے تھے اور اللہ پاک سے کچھ یوں ھی کلام کرتے تھے جیسے کوئی اپنے پڑوسی سے کرتا ھے ،، اللہ پاک ان سے محمد ﷺ کی آواز میں کہتا ” من ذالذی یقرض اللہ قرضاً حسناً ،، ” ھاں بھئ تم میں کون دے گا اللہ کو قرضِ حسنہ ،، وہ قرض کہ دینے والے کو بھی مزہ آجائے اور لینے والے کو بھی ٹھنڈ پڑ جائے ،، تو انہیں یوں ھی لگتا تھا جیسے خدا سامنے بیٹھ کر یہ بات کر رھا ھے اور اسے خالی ھاتھ نہیں جانا چاھئے ،،،،، وہ کہتے اے اللہ کے رسول ھاتھ آگے بڑھایئے ،،، واللہ مجھے فلاں باغ صرف اس لئے محبوب تھا کہ آپ دوپہر کو جب تشریف لاتے اور وھاں ھمارے یہاں دعوت کھاتے اور اس کے کنوئیں کا ٹھنڈا پانی پی کر دعا دیتے اور اس پانی کی ٹھنڈک کی تعریف فرماتے تو ھمارے سینے بھی ٹھنڈے ھو جاتے تھے ،، اے اللہ کے رسول ﷺ آج میں وہ باغ اور اس میں بنا اپنا گھر اپنے اللہ کو دینا چاھتا ھوں ،،، اللہ کے رسول ﷺ کی اسی مکی لہجے کی آواز میں وہ بشارت سنتے ھیں کہ جس سے اللہ کا کلام سنا تھا کہ ” کم من عِتقٍ رداح و دار فیاح لابی دحداح ” کتنے ھی کھجوروں سے بھرے باغ اور کتنے ھی وسیع و عریض محلات ابی دحداح کے لئے بنا دیئے گئے ھیں ”
ابی دحداح گھر آتے ھیں تو بیوی کو باغ کے باھر سے آواز دیتے ھیں کہ ام دحداح ،، بچہ لے کر گھر سے باھر آ جاؤ ، وہ پوچھتی ھے کہ ابو دحداح کیا ھوا ؟ کہا یہ گھر اور اس میں جو کچھ ھے اللہ کو دے آیا ھوں تم بس بچہ لے کر باھر آ جاؤ ، اور وہ اللہ کی بندی بھی ایسی ھے کہ جواب میں کہتی ھے ، واللہ یا ابودحداح تم جو سودا بھی کرتے ھو نفعے کا ھی کرتے ھو ،،،
آپ اس ماحول کا تصور تک نہیں کر سکتے کہ چند لوگ نبی اللہ ﷺ کے گرد و گرد بیٹھے باتیں کر رھے ھیں کہ اچانک اللہ بھی اسی مجلس میں بولنا شروع کر دیتے ھیں گویا وہ بھی شریکِ مجلس ھیں ، ولا تکونوا کالتی نقضت غزلھا من بعد قوۃٍ انکاثاً ” دیکھو اس بوڑھی عورت کو تم جانتے ھو ناں جو سارا دن سُوت کاتتی رھتی ھے ،پھر شام کو اپنے ھی کاتے ھوئے سوت کو تار تار کر دیتی ھے ،،، تم بھی ویسے مت ھو جانا کہ نیکی کر کے برباد کر دو اور اپنی قسموں کو اپنے پسندیدہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے اور دوسرے فریق کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال مت کیا کرو ،،،
دیکھو تم مجھے یاد رکھا کرو میں تمہیں یاد رکھونگا ،،، تم میرے تذکرے کیا کرو میں تمہارے تذکرے کیا کرونگا ،، اور میرا شکر کرتے رھا کرو کبھی ناشکری مت کرنا ایک صاحب اپنے باغ میں ظھر کی نماز پڑھ رھے ھیں ، 500 کھجوروں کا باغ ھے جس پہ انگور کی بیلوں کے جال تن رکھا ھے ایک پرندہ اندر تو آ گیا ھے مگر پھر باھر نہیں نکل پا رھا ، کبھی ایک جگہ پھڑپھڑاتا ھے تو پھنس جاتا ھے وھاں سے نکلتا ھے تو دوسری جگہ کوشش کرتا ھے اور وہ صاحب پرندے کی اس جدوجہد کو دیکھتے ھوئے اپنی رکعتیں بھول گئے ،،، خیال آیا اللہ نے تو مجھ پر اتنا کرم کیا کہ یہ سب کچھ عطا کیا اور میں اس میں کھو کر اللہ ھی کو بھول گیا ،، یہ تو بالکل ناشکری ھو گئ ، وھی بات ھو گئ ناں جس سے اللہ نے منع کیا تھا ، شاید میرا امتحان لینے کو ھی پرندہ بھیجا تھا ، پچھتاوے کے مارے بھاگے بھاگے اس ھستی کے سامنے پہنچے جہاں سے خدا کو بولتے سنتے تھے ،،سارا ماجرا کہہ سنایا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میں وہ باغ اللہ کی خاطر آپ کے حوالے کرتا ھوں جس نے مجھے میرا رب بھلا دیا ،،، رب بھی بھلا بھولنے کی چیز ھے ،،،،،،،،،
اللہ پاک جب ان سے محمد ﷺ کی آواز اور مکی و مدنی لہجے میں فرماتے تھے ” تین سرگوشی کرنے والے نہیں ھوتے کہ چوتھا اللہ ھوتا ھے اور پانچ سرگوشی کرنے والے نہیں ھوتے کہ چھٹا اللہ بھی ادھر ھی ھوتا ھے ،، وہ تمہارے ساتھ ھی تو ھوتا ھے جہاں کہیں بھی تم ھوتے ھو ” بس یہ سننا ھوتا تھا کہ صحابہؓ کی سرگوشیان بھی خیر کے چشمے بن جایا کرتے تھے ،،، اللہ پاک کا یہ اپنا پن کسی اور کو محسوس نہیں ھو سکتا تھا اور نہ اب قیامت تک محسوس ھو سکتا ھے ،، اسی لئے یہ مقام بھی انہی کو نصیب ھوا ھے ھم احد کے برابر سونا بھی خرچ کر دیں تو ان کی خرچ کی ھوئی مٹھی بھر کھجوروں یا اس کے نصف کا اجر بھی نہیں پاتے ،، اجر اس مزے پہ منحصر ھے جو دینے والے کو کسی کو دیتے وقت ملتا ھے ،،،،،، اللہ صحابہؓ کے لئے سات آسمانوں سے اوپر کہیں نامعلوم ،لا مکاں کا مکیں نہیں تھا ، بلکہ ان کے ساتھ رھنے والا ایک ساتھی تھا جو انہیں ان کے گھر کی اور شہر کی مثالوں سے باتیں سمجھاتا تھا ، اصل میں الفاظ نہیں لہجہ اھمیت رکھتا ھے ، ایک ماں کے لہجے اور ایک عام عورت کے لہجے میں زمین آسمان کا فرق ھوتا ھے ،،
صحابہؓ جس منہ سے اللہ کو بولتے سنتے تھے ، وہ اس کے لعاب سے بھی پیار کرتے تھے ،، وہ اس لعاب کی برکات کا دن رات مشاھدہ کرتے تھے ،، وہ موسی علیہ السلام کے عصا سے زیادہ اس لعاب کے معجزے دیکھ چکے تھے ،، وہ آٹے میں ملتا تو پورا لشکر کھانا کھا لیتا مگر وہ آٹا کم نہ ھوتا ، وہ ھانڈی میں مل جاتا تھا سارا لشکر پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتا مگر سالن میں سے کچھ کم نہ ھوتا ، ام المومنین ام سلمہؓ کی ایک چھوٹی بیٹی تھی ،نبئ کریم ﷺ غسل فرما رھے تھے کہ وہ بچی آپ کے پاس سے گزری اور آپ ﷺ نے پیار سے اس کے چہرے پر کلی کر دی ،، اس لعابِ مبارک کے شامل ھونے کا یہ اثر تھا کہ سلمہ بوڑھی ھو گئ تھیں مگر چہرے پہ بچپن ھی نظر آتا تھا ،، وہ لعاب مبارک غزوہ احد میں ایک صحابی‌ کی تیر کے اثر سے باھر لٹک آنے والی آنکھ کو اندر دھکیل کر اسے لگا دیا گیا تو اس صحابیؓ کی دوسری آنکھ کی نظر تو بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ھو گئ مگر اس لعاب کی برکت سے دوسری آنکھ نہ کبھی دُکھی اور نہ اس کی نظر کم ھوئی اور نہ اس آنکھ پہ بڑھاپا آیا ،، غزوہ احد میں ھی ایک صاحب کی ٹانگ اس طرح ٹوٹی کہ اس کی ھڈی باھر نکل آئی ، اللہ کے رسول ﷺ نے ھڈی کو اندر دھکیل کر اپنے لعاب مبارک سے اس کو سِیل کر دیا ،، بس کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ وہ ٹانگ کبھی ٹوٹی بھی تھی ،، غزوہ تبوک کے دوران ایک ویران کنوئیں میں کہ جس کے نیچے پانی تارے کی طرح نظر آتا تھا ، نبئ کریم ﷺ نے کلی کر کے پانی ڈالا تو اس کا پانی جوش مار کر یوں کناروں تک آیا کہ لوگ بغیر رسی کے ڈول بھر بھر کی جانوروں کو پلا رھے تھے ، الغرض اس قسم کے درجنوں واقعات سنائے جا سکتے ھیں کہ جن کی وجہ سے صحابہؓ اس لعاب کے لئے بھی آپس میں دھینگا مُشتی کر لیا کرتے تھے ،، جیسا کہ سہیل ابن عمرو نے جو کہ کفار کی طرف سے حدیبیہ میں سفیر تھے ، انہوں نے جا کر مکے والوں کو بتایا کہ بخدا میں نے قیصر و کسری کے دربار بھی دیکھے ھیں مگر جو ادب و احترام محمد ﷺ کے ساتھی ان کا کرتے ھیں میں نے وہ بات قیصر و کسری کے دربار میں بھی نہیں دیکھی ، ان کے ساتھی ان کے لعاب کو بھی نیچے نہیں گرنے دیتے اس لپک کر اپنے بدن پہ مل لیتے ھیں ،، ان کے وضو کے پانی کے لئے آپس میں مسابقت کرتے ھیں ،، کچھ لوگ اس کو بداخلاقی تصور کرتے ھیں اور پوسٹیں بنا بنا کر لگاتے ھیں کہ محمد ﷺ آٹے میں تھوک دیتے تھے ،محمد ﷺ اپنے ھاتھوں پہ تھوک دیتے تھے مگر وھی لوگ بیوی کے تھوک کو چاٹ لینے کو عین فطرت قرار دیتے ھوئے بالکل نہیں شرماتے ،، یہ تو محبت کی بات ھے کہ کونسا لعاب کس کے لئے کیا ھے ،،
الغرض صحابہ اکرام اللہ اور رسول ﷺ دونوں سے مانوس تھے اور وہ انہیں اپنے اپنے سے ھی لگتے تھے کوئی باھر والے اوپرے نہیں لگتے تھے ،،ھمارے لئے دونوں ھستیاں معزز و مکرم و مقدس ضرور ھیں مگر وہ اپنائیت کہ جس میں اللہ پاک سے اس طرح دل کھول کر باتیں کی جائیں کہ سارے دُکھ ھلکے ھو جائیں ھمیں نصیب نہیں ھے ،، ھم تعویز کے طور پر اللہ کے نام رقعہ لکھ کر گلے میں ڈال لینے کو معراج سمجھتے ھیں ،جس طرح گونگا بھکاری اپنے ھاتھ میں ایک لکھا ھوا پرچہ سب کو دکھاتا پھرتا ھے کہ یہ بڑا مظلوم بھکاری ھے اس کی مدد کی جائے ،،