انسان اور ٹٹیری

بھٹو صاحب شہید کا زمانہ تھا ، فلم ” انسان اور گدھا ” بنی تھی ، اس کے بڑے بڑے بورڈ شبستان سینمے کے باھر لگے ھوئے ، مگر فلم دیکھنا نصیب نہ ھوا اور نہ ھی اس کے موضوع کا کوئی پتہ چلا کہ کیا تھا ،سنا ھے بھٹو صاحب نے کوئی ایکشن لیا تھا فلمساز کے خلاف ،، خیر جو ھوا سو ھوا ،،،،، ھم ان دنوں اپنی پھوپھو کو جمعے کے جمعے لسی اور سرسوں کا ساگ دینے ایف بلاک نیو کٹاریاں سیٹلائٹ ٹاؤن جایا کرتے تھے ، بس اڈا لیاقت باغ ھوتا تھا ھم مری روڈ پر پیدل لسی کا گڑوہ اور سرسوں کے ساگ کا پورا گٹھا سر پہ رکھے چاندنی چوک سے لیفٹ لیتے اور کمرشل مارکیٹ ،نادر سینما کے پاس سے گزرتے ،کالج کی گری ھوئی دیوار سے اندر گھستے اور صدیقی چوک والے کنارے سے باھر نکل کر ایف بلاک کا رخ کرتے ،، پھر پھوپھو کے بیٹے کو ساتھ لے کر واپس کمرشل مارکیٹ والے پارک میں آتے جہاں شاید آج کل نادرا والوں کا دفتر ھے ،، وھاں خوب گھسیٹیاں لیتے ،، یہاں کی نرم و نازک گھسیٹیاں لے کر اپنے گاؤں کے تالاب والی گھسیٹی کا تصور کرو جہاں ایک دن گھسیٹیاں لو تو ھفتہ پورا تشریف آسمان کی طرف کر کے سونا پڑتا تھا تو حال وھی ھوتا ھے جو بھلوال والے کا ھوا تھا! اگلے دن عمران سیریز کے دو ناول لائبریری سے ایشو کراتے پھوپھو کے بیٹے کے نام سے ، دو نئے ڈائجسٹ اور دو چار پرانے آدھی قیمت پر لیتے اور واپس آھدی شریف کی راہ لیتے اگلے جمعے تک !
ٹٹیری ایک پرندہ ھے جو عموماً رات کو ٹِٹ ٹِٹ ٹٹاں کر کے بولتا ھے ،، اور اس کے بولنے پہ لوگ سمجھتے ھیں کہ ٹٹیری بول رھی ھے آج بارش ھو گی ،، اس پرندے کی نفسیات پہ ماھرینِ پرند حیران ھیں ،، یہ زمین پر گھاس میں انڈے دیتا ھے ،مگر ٹانگیں آسمان کی طرف کر کے الٹا چت لیٹتا ھے ،، ماھرین کے نزدیک یہ آسمان کو کمزور سمجھتا ھے اور سمجھتا ھے کہ یہ کسی وقت بھی گر سکتا ھے ،، لہذا احتیاطاً ٹانگیں کھڑی کر کے سوتا ھے کہ اگر بائی دا وے رات کو گر پڑا تو میں ٹانگوں سے اسے سنبھال لوں گا ،، سبحان اللہ
آج فیس بک پہ دیکھو تو ھر قسم کی ٹٹیریاں ھی ٹٹیریاں ھیں ، ھر ایک نے آسمان کو گرنے سے بچا رکھا ھے ،حالانکہ چولہے پر دودھ گر جاتا ھے اور یہ کچھ نہیں کر سکتے ،مگر دوسری طرف منصوبے اور مشورے دیکھو تو اللہ اللہ !
ایں قدر گفتیم باقی فکر کن !