انسان اور اس کی چابی

میری یاد داشت میں کوئی ایسی عید نہیں جو میں نے بچوں کے ساتھ گھر سے باھر جا کر گزاری ھو،، چونکہ ھماری ایمرجینسی سروس ھے اور عید پر رش بڑھ جاتا ھے، نیز ہر بندہ اپنی عید میں مگن ھوتا ھے،، لوگ آؤٹنگ پر ھوتے ھیں اپنی جگہ کسی کو قربانی کا بکرا بنانا مجھے اچھا نہیں لگتا،، میرے بچوں کو مجھ سے ہمیشہ یہی گلہ رھا کہ آپ عید والے دن باہر نہیں نکلتے ،، اس بیک گراؤنڈ کے ساتھ جب میں نے عصر کی نماز کے بعد گھر والوں سے کہا کہ مغرب کی نماز میں ابھی کافی وقت ھے ،، ذرا باھر کا چکر لگا لیتے ھیں ،، تو یہ ان کے لئے کافی حیران کُن تھا،، انہوں نے برقع پہنا اور میں چابی کی تلاش میں لگ گیا،، چابی نے نہ ملنا تھا نہ ملی،، میں نے احتیاطی چابی جو بٹوے میں بنوا کر رکھی ھوئی تھی وہ نکالی اور جا کر گاڑی اسٹارٹ کرنی شروع کی ،، سلف گھوم رھا تھا،، مگر گاڑی اسٹارٹ نہیں ھو رھی تھی،، مغرب ھوگئی ،، سلف مار مار کے بیٹری بھی جواب دئے گئی،، گھر سے جمپ اسٹارٹر بھی لے کر آیا وہ بھی جواب دے گیا ،مگر گاڑی اسٹارٹ نہ ھوئی،، مغرب کے بعد گلزار صاحب جو مکینک ھیں ،مسجد کے مستقل نمازی اور میرے دوست ھیں ان سے بات کی،، وہ بھی عشاء تک ھر ٹِرک کر بیٹھے، پلگ نکال کے صاف کیئے ،، باھر سے پیٹرول ڈال کر بھی ٹرائی کی مگر نتیجہ وھی تھا،، عشاء بھی گزر گئی اور آخر دس بجے گاڑی الیکٹریشن کے پاس مصفح لے جانے کا فیصلہ ھوا ،کہ کمپیوٹر کرنٹ نہیں دے رھا ،، ساری خرابی کمپیوٹر کی ھے ! گلزار صاحب اپنی ریکوری بھی لے کر آ گئے،، ریکوری آ گئی مگر ٹَو کرنی والا نٹ نئیں مل رھا تھا،، کہ اچانک اصل چابی مل گئی
،، اصل چابی سے جونہی ٹرائی کی پہلی دفعہ ھی گاڑی اسٹارٹ ھو گئی ،، پتہ چلا کہ نئے ماڈل میں چابی کے اندر chip ھوتی ھے،جس کو سنسر پڑھتا ھے تو کپمیوٹر کرنٹ پاس کرتا ھے ،، اپنی بنائی ھوئی چابی دروازہ تو کھول دیتی ھے،اور سلف بھی گھما دیتی ھے مگر کرنٹ پاس نہیں کر سکتی کیوں کہ کمپیوٹر اس کو recognize نہیں کرتا،،
اللہ پاک نے بھی انسان کی اصل چابی وحی یعنی قرآن میں رکھی ھے، اور ھر انسان جو قیامت تک پیدا ھو گا اس کی چِپ اس کتاب میں موجو د ھے ،جس کو روح کا سنسر پڑھتا اور اور وحی سے جوڑ دیتا ھے،، ھم نے اس اصل چابی کو تو گھر میں رکھ دیا ھے اور اپنی چابیاں بنائی ھوئی ھیں ،، مگر ان چابیوں سے روح ٹیون نہیں ھو رھی،، عمل کی گاڑی اسٹارٹ نہیں ھو رھی ،، علم کے نام پر پتہ نئیں کیا کچھ بھر کے رکھ لیا ھے ، مگر سب کچھ جرنل نالج بن کر رہ گیا ھے، اس کا عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،، عمل کی توفیق نہ ملنے کی سب سے بڑی وجہ قرآن سے دوری ھے، جو ھماری جینوئن چابی ھے ، ھم نے اس کو صرف پڑھنے کے لئے رکھ لیا ھے ، اس کو اپنے علم و عمل کا میزان بنانے کا سوچا تک نہیں ،، کسی چیز کو قرآن پر پیش کر کے رد و قبول کرنے کی تکلیف ھی گوارہ نہیں کی،، جتنی ھماری نظروں میں قرآن کی عملی اھمیت ھو گی،، اتنا ھی ھم کو عمل کی توفیق ملے گی،، حضرت عائشہ صدیقہؓ کے سامنے جب بھی کوئی ایسی بات پیش کی گئی جو ان کے نزدیک قرآن کے خلاف تھی تو انہوں برملا ،قرآن کی آیت تلاوت کر کے اسے رد کر دیا اور راوی کی ثقاھت یا ضعف کا کوئی اعتبار نہیں کیا،، جب قرآن ایک بات کو رد کرتا ھے تو پھر وہ رد ھے، کلمۃ اللہ ھی العلیاء،، بات تو اللہ ھی کی بلند ھو گی،، جب ھم اللہ کی بات کو وقعت ھی نہیں دیتے،تو عمل کیا کریں گے ؟ ایک بات اللہ فرماتا ھے ،اور دو ٹوک فرماتا ھے،مگر ھم اس کے مقابلے میں 180 ڈگری اُلٹ بات کسی بزرگ سے منصوب کر کے بیان کر دیتے ھیں اور ھمیں احساس بھی نہیں ھوتا کہ ھم نے کتنا بڑا جرم کر دیا ھے ! اور لوگ بھی بزرگ کی بات قبول کر لیتے ھیں اور اللہ کی بات کو گھما پھرا دیتے ھیں،، جب رب قول میں بڑا نہیں تو پھر ھمارے عمل میں بھی بڑا نہیں ھوتا ،،اور جب عمل میں بڑا نہیں ھوتا تو معاشرے اور سماج میں بھی بڑا نہیں ھوتا ،، اور جب سماج میں اس کا مقام یہ ھو تو وہ حکومت مین بھی کبھی بڑا نہیں ھو گا،، ا،،