و يجعلون لله ما يكرهون وتصف ألسنتهم الكذب أن لهم الحسنى ( النحل- 62 )
اور اللہ کے لئے وہ چیز مختص کرتے ھیں جس کو خود ناپسند کرتے ھیں اور سمجھتے ھیں کہ انہیں بڑی نیکی ملے گی ،،
اگر کوئی شخص مہنگی چیز اللہ کی راہ میں دے مگر وہ خود اس کو پسند نہ کرتا ھو، اس کو آؤٹ آف فیشن سمجھتا ھو تو یہ الٹا عذاب کا باعث بنے گی کیونکہ اس نے اللہ کو اپنے سے کمتر جانا ،، یہ مضمون سورہ بقرہ میں بھی واضح دھمکی کے ساتھ بیان ھوا ھے کہ وہ چیز جسے تم خود لینے کو تیار نہ ھو جب تک کہ مجبور نہ ھو جاؤ ، وہ چیز کبھی اللہ کو دینے کی نیت نہ کرنا کیونکہ اللہ غنی ھے مجبور نہیں ،،
دوسری جانب ایک شخص معمولی سی چیز اللہ کی راہ میں دیتا ھے مگر خود اس کی جان اس چیز میں اڑی ھوتی ھے تو اللہ پاک اس چیز کو اپنی مٹھی میں لیتا ھے اور حشر میں وہ احد پہاڑ سے بھی بڑی کر کے اس بندے کو دی جائے گی ،، غزوہ تبوک میں جب اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے چندے کی اپیل آئی تو ایک صاحب اپنے گھر گئے مگر گھر میں کوئی چیز دینے کے قابل نہیں تھی ، وہ ایک یہودی کے پاس گئے اور اس سے طے کیا کہ وہ ان کے باغ کو پانی دے گا جبکہ وہ اس کو جو اس کی جی چاھے اجرت دے دے گا ،، یہ صاحب اپنا بائیاں بازو ایک جنگ میں گنوا چکے تھے ، وہ ایک ھاتھ سے ڈول کو کھینچتے اس کی رسی کو منہ میں پکڑتے اور پھر اسی ھاتھ کو استعمال کر کے ڈول کو مزید اوپر کھینچتے ،،، اس مشقت کے ساتھ ساری رات پانی دینے کا صلہ اس یہودی نے مٹھی بھر کھجوریں ان کو پکڑا کر فارغ کر دیا ،،،،،،،،، وہ کھجوریں لے کر مسجدِ نبوی پہنچے تو منافقین کے پاس سے گزرتے وقت ایک منافق کے اس جملے نے ان کی ٹانگوں سے جان نکال دی کہ لو جی اب یہ بھی مٹھی بھر کھجوروں سے قیصر کو شکست دینے آئے ھیں ،، انہوں نے جب مسجد میں سامان کے ڈھیر دیکھے ، ادھر منافقین کی بات سنی تو چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گئے اور حسرت سے سوچنے لگے کہ کاش ان کے پاس بھی کوئی مال ھوتا جسے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کر سکتے ،، اللہ کے رسول ﷺ کی نظر ان کے چہرے پہ پڑی تو حکیم الامت ﷺ نے مرض کو تاڑ لیا ،، ان کو اپنے پاس بلایا اور ماجرا پوچھا ،، ساری بات سن کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے بلالؓ کو بلا کر وہ مٹھی بھر کھجوریں ان کے ھاتھ پہ رکھ کر کہا کہ ان کھجوروں کو سارے سامان پر دو دو کر کے چھڑک دو کہ اللہ پاک ان کی برکت سے سب کے صدقات کو قبول فرما لے ،، بات یہاں ختم نہیں ھوتی عرش بھی جوش میں آیا اللہ پاک نے وحی کے ذریعے خطاب فرمایا اور کہا کہ جو مخلص مومنین کے چھوٹے چھوٹے عطیات پر ان کا مذاق بناتے اور ان کو عیب لگاتے ھیں اللہ پاک ان سے تمسخر کرتا ھے اور اعلان کرتا ھے کہ ان کی توبہ کبھی قبول نہیں کی جائے چاھے رسول ﷺ ستر بار بھی ان کے لئے توبہ کریں ،،
————————
الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطوِّعِینَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فی الصدَقَتِ وَ الَّذِینَ لا یجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ فَیَسخَرُونَ مِنهُمْ سخِرَ اللَّهُ مِنهُمْ وَ لهَُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ(79) استَغْفِرْ لهَُمْ أَوْ لا تَستَغْفِرْ لهَُمْ إِن تَستَغْفِرْ لهَُمْ سبْعِینَ مَرَّةً فَلَن یَغْفِرَ اللَّهُ لهَُمْ ذَلِك بِأَنهُمْ كفَرُوا بِاللَّهِ وَ رَسولِهِ وَ اللَّهُ لا یهْدِی الْقَوْمَ الْفَسِقِینَ(80)
بچہ جب اپنے منہ سے رال کی بھری ٹافی نکال کر باپ یا ماں کے منہ میں دیتا ھے تو اس کی محبت اور قربانی کو دیکھ کر والدین کا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ اس کو نکال کر پھینک دیں اور بچے کا دل توڑ دیں ،،ھمارے صدقات اللہ کے لئے اس تھوک لگی ٹافی جتنی اھمیت نہیں رکھتے مگر ھمارے دینے کا انداز ھے کہ جس کی وجہ سے وہ ان کی قدر کرتا ھے ،،