السلام علیکم!!!

تاخیر سے گروپ میں حاضر ہونے پر معذرت اپنی ایک پرانی تحریر پیشِ خدمت ہے
(اخلاق اور مکارمِ اخلاق)
ارشادِ ربانی ہے
وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ۔ ﴿القلم ٤﴾
اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں۔
جبکہ ایک حدیث مبارکہ میں آپ (ص) نے اخلاقی اقدار کی تکمیل کو ہی وجہِ بعثت قرار دیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں۔ "إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق” میں تو اعلٰی اخلاقی اقدار کو ہی مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں ( اس حدیث کو البانی نے صحیح قرار دیا ہے)۔ اسلام نے سب سے زیادہ زور اخلاق پر دیا ہے، کئی آیات مبارکہ اور بےشمار احادیث مبارکہ میں اخلاق کی اہمیت، حسنِ اخلاق اور اعلی اخلاقی اقدار کو بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم (ص) کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہِ عمل ہے، آپ (ص) کا اخلاق قرآنی اخلاق تھا، ارشادِ ربانی ہے۔
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿الأعراف: ١٩٩﴾
آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں۔
خذالعفو کے ذیل میں آپ (ص) کی مشہور حدیث ہے کہ عفو کا راستہ یہ ہے کہ جو شخص تم سے تعلق توڑ دے، تم اس سے تعلق باقی رکھو، جو شخص تمھیں محروم کردے، اسے عطا کرو، اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو۔
آپ (ص) کی ایک اور حدیث مبارکہ میں یوں ارشاد ہے.
علیکم بمکارم الاخلاق فان اللہ بعثنی بھا وان من مکارم الاخلاق ان یعفوا عمن ظلمہ و یعطی من حرمہ و یصل من قطعہ و ان یعودمن لایعودہ۔ تمہارے اوپر اعلٰی اخلاقی اقدار کی پابندی لازم ہے، مجھے اللہ تعالی نے اعلٰی اخلاقی اقدار دیکر بھیجا ہے۔ یہ مکارم اخلاق میں سے ہے کہ انسان اس پر ظلم کرنے والے کو معاف کر دے، اس کے ساتھ تعلقات و رشتہ برقرار کرے جس نے اس کا بائیکاٹ کیا ہے اور اس کی طرف لوٹ کر جائے جس نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ (بحار الانوار جلد ۷۱، ص ۴۲۰)
آپ (ص) نے مکارمِ اخلاق (اعلی اخلاقی اقدار) یوں بیان فرمائے.
المكارم عشر فإن استطعت أن تكون فيك فلتكن- فإنها تكون في الرجل و لا تكون في ولده- و تكون في ولده و لا تكون في أبيه- و تكون في العبد و لا تكون في الحر- صدق البأس- و صدق اللسان- و أداء الأمانة- و صلة الرحم- و إقراء الضيف- و إطعام السائل- و المكافأة على الصنائع- و التذمم للجار- و التذمم للصاحب- و رأسهن الحياء۔
اعلی اخلاقی اقدار 10 ہیں، اگر تم انہیں اپنا سکتے ہو تو ضرور اپناو، کیونکہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی شخص میں ہوتی ہیں لیکن اولاد میں نہیں، اولاد میں ہوتی ہیں تو باپ میں نہیں ہوتیں، غلام میں ہوں تو آزاد میں نہیں ہوتیں۔ ( مطلب یہ اقدار کسبی ہیں، خاندانی نہیں۔) وہ دس اقدار یہ ہیں۔ 1۔ خدا تعالی کا صحیح معنوں میں خوف، 2۔ زبان کی سچائی، 3۔ امانتوں کی ادائیگی، 4۔ صلہِ رحمی، 5۔ مہمان نوازی، 6۔ سائل کو کھانا کھلانا، 7۔ احسان کا بدلہ چکانا، 8۔ ہمسائے سے برائی کو دور کرنا، 9۔ اپنے ساتھی سے برائی کو دور کرنا، 10۔ اور سب سے بڑی قدر حیا ہے۔ (بحار الانوار جلد ۶۹، ص ۳۷۲۔ کنز العمال، جلد ۳، ص ۴)
ہم مسلمان تب ہی کہلوا سکتے ہیں جب تمام اخلاقی اقدار کی پاسبانی بھی کریں، اعتقادات، عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاق بھی ضروری ہے۔ اخلاق سے بےبہرہ مذہبیت ناقابلِ قبول ہے۔
امجد عباس !