دین نے ھم مردوں کو اتنے حقوق دیئے نہیں جتنے ھم وصول کر لیتے ھیں اور عورت کو اتنا محروم بھی نہیں رکھا جتنا ھم اس کے حقوق دبا لیتے ھیں ،،
اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ھیں کہ ” عائشہؓ جب تم مجھ سے ناراض ھوتی ھو تو مجھے پتہ چل جاتا ھے ،، حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ بھلا وہ کیسے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ھوتی ھو اور قسم کھاتی ھو تو کہتی ھو ” ربِ محمدﷺ کی قسم ” اور جب مجھ پہ غصے ھوتی ھو تو کہتی ھو ” ربِ ابراھیم کی قسم ” حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ بس نام ھی چھوڑتی ھوں ،، ( دل سے تو نہیں نکلتے )
گویا ایک بیوی کو اپنے شوھر سے ناراض ھونے کا شرعی حق حاصل ھے چاھے وہ شوھر خاتم النبین ﷺ ھی کیوں نہ ھوں ،، وہ بطور امتی ناراض نہیں ھو رھیں ، اس لئے رسالت زیرِ بحث ھی نہیں بطورِ بیوی ناراض ھونا ان کا حق ھے اور نبئ کریم ﷺ نے نہ صرف یہ حق دیا ھے بلکہ اس کو انجوائے بھی کیا ھے اور جواباً یوں ظاھر کیا ھے کہ گویا ” عائشہؓ ھم سے تیری ناراضی چھپی نہیں رھتی ھم اس کو محسوس کرتے ھیں ”
راضی کرنے کا طریقہ بھی دیکھئے کہ ،، حضرت عائشہ صدیقہؓ پانی پی رھی ھیں ، اللہ کے رسول ﷺ ان کے ہاتھ سے پیالہ لے لیتے ھیں اور جہاں حضرت صدیقہؓ نے منہ رکھ کے پانی پیا تھا ان کو دکھا کر وھیں منہ رکھ کر پانی پیتے ھیں ،،، اور بات ختم ھو جاتی ھے ،،
اگر بیوی کے ناراض ھونے سے نبئ کریم ﷺ کی شانِ اقدس میں کوئی کمی نہیں ھوتی اور نہ نبئ کریم ﷺ اس کو ایشیو بناتے ھیں تو پھر ھماری تو شان ھی کیا ھے کہ جس میں کمی ھو گی ،،
عمر کا تقاضہ اور ناز و نیاز ،،،
عام طور پر دیکھا گیا ھے کہ اگر شوھر ذرا بال بچے دار ھو گیا ھے اور بیوی سے کوئی ڈائیلاگ بولے تو بیوی جھٹ سے کہہ دیتی ھے کہ اب اللہ اللہ کرنے کی عمر ھے آپکی ،، یا ” یہ کوئی عمر ھے ایسی باتوں کی ،، یا میاں بیوی دونوں ھی جذبات سے عاری ایک جوڑی بن جاتے ھیں جو اپنے اپنے گھریلو کام مشینی انداز میں کرتے رھتے ھیں اور اور فطری حاجت کی طرح جنسی حاجت بھی پوری کر لیتے ھیں اور اللہ اللہ خیر صلا ،، یہ ایک حیوانی عمل کے سوا کچھ نہیں ،حیوانات بھی ٹھیک یہی کرتے ھیں نہ ماشہ کم نہ رتی زیادہ ،، جبکہ سنت یہ ھے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی تعریف کرتے رھیں ، ایک دوسرے کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے رھیں ،، بیوی اقرار کرے کہ اللہ کا شکر ھے کہ میں آپ کے گھر آ گئ ورنہ میری تو دنیا اندھیر تھی اور شوھر تسلیم کرے کہ وہ بڑا خوش نصیب ھے کہ اللہ پاک نے اس کی دنیا بیوی کی وجہ سے جنت بنا دی ،، نہ صرف خود بلکہ جہاں برادری کے چند شریک بیٹھے ھوں وھاں اس بات کو کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس نے تو مجھے ھر غم سے آزاد کر دیا ھے ،، میری طرف سے بھی یہی سوچ لیتی ھے ،میں گھر کی طرف سے بے فکر ھوں ،، اور بیوی بھی چار بول ، اگر بول دے کہ مجھے کچھ کہنے کی ضرورت ھی نہیں پڑتی یہ خود ھی ھر چیز کا خیال رکھتے ھیں تو مجھے یقین ھے کہ اس کے منہ میں دانے بالکل بھی نہیں نکلیں گے ،،
اللہ کے رسول ﷺ کی عمر 60 سال ھے ،، آپ جوتا گانٹھ رھے ھیں اور پسینے کے قطرے موتی کی طرح جلد سے نکلتے ، ان میں نور کی چمک پیدا ھوتی جو بڑھتی چلی جاتی اور چہرہ انورنورانی تجلیوں کا محور بنا ھوا ھے ،یوں لگتا جیسے چاند پر تاروں کی جھڑی لگی ھے ،،حضرتِ عائشہؓ مبہوت ھو کر یہ منظر دیکھ رھی ھیں اور پھر بیساختہ فرماتی ھیں کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اللہ کی قسم آج اگر شاعرابو کبیرہذلی موجود ھوتا اور آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھ لیتا تو اسے اپنے اشعار کا مصداق مل جاتا ، آپ ﷺ نے فرمایا ، ھم بھی ذرا سنیں کہ شاعر نے کیا کہا ھے ” حضرت عائشہؓ نے وہ شعر پڑھ دیا جس میں شاعر اپنے محبوب کے بارے میں کہتا ھے کہ ‘ میں نے اس کے روئے تاباں پہ نگاہ ڈالی تو اس کی شانِ درخشندگی ایسی تھی جیسے بادل کی کسے ٹکڑے مین بجلیاں کوند رھی ھوں ،،
اللہ کے رسول ﷺ نے دستِ مبارک میں جو کچھ تھا اسے رکھ دیا اور حضرت عائشہؓ کا ماتھا چوم کر فرمایا کہ ” عائشہؓ جو سرور مجھے تیرے کلام سے حاصل ھوا ھے ، وہ تجھے اس نظارے کو دیکھ کر حاصل نہ ھوا ھو گا ،،
یہ بات نوٹ فرما لیں کہ آپ ﷺ وہ ھستی ھیں کہ جن کی تعریفوں سے رب نے قسمیں کھا کھا کر قرآن بھر دیا ھے ،جن کو اللہ پاک فرما رھا ھے کہ ” فانک باعینا ” اے نبی ﷺ آپ ھماری آنکھوں میں بستے ھیں ،، الذی یراک حین تقوم ، وتقلبک فی الساجدین ” آپ اس اللہ پر توکل کریں کہ جو آپ کو اس وقت بھی دیکھتا رھتا ھے جب آپ قیام میں ھوتے ھیں ،، اور جب بار بار سجدہ کرنے والوں میں سے گزر کر آ جا رھے ھوتے ھیں تب بھی وہ آپ کو ھی دیکھتا رھتا ھے ،، عرش عظیم والے کے اتنی تعریف کرنے کے باوجود نبئ کریم ﷺ بیوی کے تعریف کرنے پر کس قدر خوش ھوئے ھیں ،، اور پھر اس خوشی کا اظہار کرنے میں بخل سے کام بھی نہیں لیا ،،
مرد ھو یا عورت جس عمر میں بھی ھوں ، ان میں اپنی تعریف سننے کا جذبہ جوان ھی رھتا ھے ،، یہ فطری جزبہ ھے کوئی عیب نہیں ،، یہ تعریف وہ ری چارجنگ ھے جو گھر کے مردہ ماحول کو زندہ ،، خزاں رسیدہ گھر کو گلشن اور اندھیرے گھر کو روشن کر دیتی ھے ،
اگر آپ اس جذبے کو مطمئن ( Satisfy ) نہیں کریں گے تو کوئی رانگ نمبر ،، نمبر لے جائے گا ،، کسی کی مسکراھٹ گھر لوٹ کر لے جائے گی ،،،
بہو کو بھی تلخی نکالنے کا حق حاصل ھے. یا تو شوھر اس گھونٹ کو خود پئے اور بیوی کی تلخی کا سامنا کرے. اس کا غصە اپنی ذات پر برداشت کرے. اس کے سامنے اقرار کرے کہ وە حق پر ھے اور یہ کہ مجھے احساس ھے کہ میرے گھر والے تمہارے ساتھ زیادتی کرتے ھیں. تم میری خاطر صبر کرو . نیز گھر والوں کی زیادتی کا کفارہ اپنے حسن سلوک سے ادا کرے اور بیوی کے ساتھ مزید محبت اور ھدایا کا رشتہ گاڑھا کرے. .. ورنہ بیوی اور والدین اور اپنی بہنوں کے درمیان میں سے نکل جائے ، اور ان کو آپس میں نمٹ لینے دے جبکہ خود عدل کی کرسی پر بیٹھ جائے ،، عورت کے سامنے شوھر کا اعتراف اور ھر زیادتی کے بدلے اپنی پر مزید مہربانیاں گھر والوں کو ھوا کا رخ دکھا دیں گی ،، اس بارے میں اللہ کے رسول ﷺ کی سنت یہ رھی ھے کہ آپ نے ھمیشہ اپنی ازواج کو خود ایک دوسرے سے نمٹ لینے کا موقع دیا اور کبھی مداخلت نہیں فرمائی ،، حضرت ام سلمہؓ نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ اپنے اصحاب کو کہیں کہ وہ اپنے ھدیئے تمام ازواج کے یہاں قیام کے دنوں میں بھی دیا کریں ،صرف حضرت عائشہؓ کی باری کے دن ھی نہ دیا کریں ،، نبئ کریم ﷺ کو جس زوجہ کے یہاں ھدیہ ملتا وہ اسی زوجہ کے حجرے کی امانت ھوتا تھا ، اصحابؓ عام طور پر حضرت عائشہؓ کی باری کے دن تحفہ بھیجتے تا کہ وہ اس حجرے میں رھے کیونکہ وہ نبئ کریم ﷺ کے حضرت عائشہؓ کے ساتھ قلبی لگاؤ کو جانتے تھے ،، جب حضرت ام سلمہؓ نے یہ مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم مجھے عائشہؓ کے معاملے میں اذیت مت دو ،، اللہ کی قسم مجھے تو وحی بھی اللہ عائشہؓ کے حجرے میں بھیجتا ھے تم میں سے کسی کے حجرے میں نہیں نازل ھوئی ،، گویا آپ فرما رھے ھیں کہ پہلے اللہ کو تو سمجھا لو پھر صحابہؓ کی بات کرنا کیونکہ وحی دنیاوی ھدایا سے بڑھ کر ھے ،، اس بات نے حضرت ام سلمہؓ کو خاموش کر دیا ،،
حضرت زینبؓ ایک دن حجرہ عائشہؓ میں تشریف لائیں جبکہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ کو ابوبکرؓ کی بیٹی کے علاوہ بھی کسی کی خبر ھے ؟ اس کے بعد انہوں نے حضرت عائشہؓ کی طرف رخ کیا اور جو کہنا تھا کہتی چلی گئیں ،، حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ میں کن اکھیوں سے اللہ کے رسول ﷺ کی طرف دیکھ رھی تھی کہ وہ میری طرف سے جواب دیں یا پھر مجھے اجازت دیں گے ،، جب بات کچھ زیادہ طویل ھو گئ تو نبئ کریم ﷺ نے رخ انور حضرت عائشہؓ کی طرف کیا اور فرمایا ، تم خود جواب دو ،، حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ پھر میں نے جو شروع کیا تو زینبؓ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور تھوک ان کے منہ میں خشک ھو گیا ،، اللہ کے رسولﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ابوبکرؓ کی بیٹی ھے ،،