کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا !
ماحول دینی اور دنیاوی دونوں قسم کی سوچوں پر یکساں اثر انداز ھوتا ھے ! نیز دنیا کے قوانین میں تبدیلی کا سب سے بڑا عنصر بھی ماحول ھے ،جسے ھمارے یہاں فقہ میں” عــــــــــــرف”کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ھے !یہ ماحول کا کمال ھے کہ امام مالک کو مدینے کے کنوئیں کے ماحول میں دو مٹکے پانی بھی مآءٓ کثیر لگتا ھے اور بغداد کے دریائے فرات کے ماحول کا باسی امام ابو حنیفہ مآء کثیر کو گزوں سے ناپتا ھے،، حدیث صرف ماء کثیر کا مطالبہ کرتی ھے اور امام اپنے اپنے ماحول میں اسے دیکھتے ھیں !! میں جس ماحول میں رھتا ھوں اور جس قسم کے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ھوں،اس کے تحت کسی خاص فقہ کا تعصب یا اس کی فتح و شکست کی فکر کبھی پیدا ھو ھی نہیں سکتی ھو تو زیادہ دیر رہ ھی نہیں سکتی،، میری مسجد میں چاروں فقہوں کے لوگ نیز سلفی حضرات بھی کثرت سے نماز اور جمعہ ادا کرتے ھیں،، بعض شیعہ حضرات اور اباضی فرقہ جو عمان سے تعلق رکھتا ھے اور خوارج کی آخری بچی کھچی کڑی ھے وہ بھی ھوتے ھیں ،جو کہ زیادہ تر امارات کی پولیس میں ملازم ھیں،، جب انسان فقہوں کے اس کاک ٹیل میں 40 سال گزار لے تو پھر اسے کسی ایک کھونٹے سے باندھنا مشکل ھوتا ھے،، اس لئے کہ یہ ماحول اور عرف کا اثر ھے،،پاکستان کے مفتی حضرات کبھی وہ بات نہیں کہہ سکتے جو میں کہہ سکتا ھوں کیونکہ وہ اس کے عادی نہیں ھیں، ان کا علم اپنی جگہ مگر مائنڈ سیٹ الگ ھے،، مائنڈ سیٹ ایک برتن ھے جبکہ علم ایک جنس ،اس جنس کو جس برتن میں ڈالو گے وہ وھی شکل اختیار کر لیتی ھے،، علم سے زیادہ مائنڈ سیٹ اھمیت رکھتا ھے،،! میں یہ کوشش کرتا ھوں کہ بندہ اسلام کی بس سے کبھی اترنے نہ پائے،فرنٹ سیٹ پہ ایڈجسٹ نہیں ھو سکتا تو پچھلی سیٹوں پر جگہ پالے،سیٹ پہ نہیں بیٹھ سکتا تو کھڑا ھو کر سفر کر لے،کھڑے ھونے کی جگہ نہیں پاتا تو چھت پر چڑھ جائے چھت کو مناسب نہیں سمجھتا تو سیڑھیوں پہ لٹک لے مگر کسی صورت اس بس سے نہ اترے،اسلام کے ساتھ وابستہ رھے،، پاکستانی ماحول یہ ھے کہ جب ھماری فقہ پہ نہیں چلتے تو جاؤ کھڈے میں ،، ھماری فقہ ھی ھمارا اسلام ھے ،،! ماحول کا یہ اثر اتنا واضح اور نمایاں ھے کہ اس کا انکار ھی ممکن نہیں اور تعلیم ماحول پر اثر انداز نہیں ھوتی بلکہ ماحول تعلیم کو بےکار کر سکتا ھے ! ھمارے دولتالہ شہر میں ایک ڈاکٹر صاحب کا کلینک ھے سدرہ میڈیکل سنٹر کے نام سے،وہ کشمیر کے سدھن ھیں اور میرے بہترین دوست ،، دیہات سے تعلق رکھتے ھیں یعنی پہاڑیئے ھیں،، راولپنڈی سنٹر اسپتال کے میڈیکل آفیسر رہ کر آئے ھیں،، کلینک خوب چلتا ھے،، الغرض دیہاتی تھے،دیہات میں آئے تو دیہاتیوں میں ھی پریکٹس کی،لہذا آداب سے عاری ھیں،، ایک کمرے میں بیٹھے ھیں، رائٹ سائڈ پر پانچ دس مرد بیٹھے ھیں لیفٹ سائڈ پر بانچ دس عورتیں بیٹھی ھیں اور درمیان میں ڈاکٹر صاحب ھیں،، اتنا خیال نہیں کہ درمیان میں دو گز کپڑا لٹکا لوں تا کہ خواتین کو اوٹ میسر آ جائے ،، پارٹیشن کو تو بھول ھی جائیں ،، اب ایک عورت اپنی جوان بہو کو لے کر آئی ھے جسے دو دن سے پیچس لگے ھوئے ھیں،، سامنے مرد ھیں،، ڈاکٹر صاحب ان کے سامنے اس جوان لڑکی سے تفصیل پوچھ رھے ھیں ” پیچس کس رنگ کے ھیں؟،،، لیسدار ھیں یا بغیر لیس کے؟ بدبودار ھیں یا بغیر بدبو کے ؟ اور وہ بیچاری شرم سے منہ چادر میں چھپاتی پھرتی ھے،، اب مرد کی طرف منہ کریں گے ،، ھاں بابا آپ کو کیا تکلیف ھے ؟ جی پیشاب بار بار آتا ھے،،، تفصیل ”بابا پیشاب کی دھار کتنے دور جاتی ھے ؟ کھڑے ھو کر آسانی سے آتا ھے یا بیٹھ کر ؟ بیوی زندہ ھے یا فوت ھو گئ ھے؟ پیشاب کے بعد کوئی لیسدار پانی تو نہیں آتا؟؟؟؟؟؟؟ کوئی بتائے کہ ھم بتائیں کیا ؟ یہ ڈاکٹر کا حال ھے جسے دیہاتیوں کی صحبت نے ایک جنگلی بنا کر رکھ دیا ھے،،دوسری طرف اسلام آباد کے صاحبوں کے شوفروں کو میں نے دیکھا ھے کہ دانت میں خلال کرتے وقت منہ کے آگے ھاتھ رکھ کر خلال کرتے ھیں،،صاحب کی صحبت نے انہیں آداب سے آشنا کر دیا ھے،، مجھے پاکستان کے علماء سے کوئی گلہ نہیں وہ اس سطح سے نہ اٹھتے ھیں نہ اٹھ سکتے ھیں کہ ماحول کا فطری تقاضا ایک حقیقت ھے،اپنی ھی فقہ کی جنگ لڑنا ضروری ھے ! مگر پاکستان کے باھر کے حقائق کچھ اور ھیں! یہاں انسان کا اسلام سے جڑے رھنا چاھے وہ کسی فقہ سے بھی منسلک رھے، یا ساری فقہوں سے الگ ھو جائے مگر اسلام کے ساتھ جڑا رھے،، یہ سب سے اھم ضرورت ھے، مسلمان ھے تو فقہیں بھی چلتی رھیں گی،اگر دین ھی چھوٹ گیا تو فقہوں کا کسی نے اچار ڈالنا ھے ؟ گھر بار ساز و سامان گاڑی اور زمینیں انسان کے لئے ھوتی ھیں اگر وہ ھی مر جائے تو یہ سارا کس کام کا،،فقہوں کی جنگ میں انسان ایمان ھار جائے تو فقہ جیت کر بھی ھار جاتی ھے،، اللہ کے رسولﷺ نے کافروں سے صلح کے لئے محمد رسول اللہ لکھا ھوا اپنے ھاتھوں سے مٹا ڈالا تھا،،ھم مسلمان سے صلح کے لئے اسے فقہ کی پابندی سے آزاد نہیں کر سکتے،، بندہ کہتا ھے کہ میں اسلام تو قبول کر لوں گا مگر شراب نہیں چھوڑوں گا، اللہ کے رسولﷺ اس کی بیعت قبول فرما لیتے ھیں اور فرماتے ھیں ابھی ایمان چکھا نہیں ،،ایمان شراب چھڑا لے گا،، بندہ کہتا ھے میں ایمان تو لاؤں گا مگر جہاد نہیں کروں گا ،،اللہ کے رسولﷺ اس شرطِ فاسد پہ بھی ایمان قبول فرما لیتے ھیں اور فرماتے ھیں ایمان لڑا لے گا،،اور وہ بندہ میدانِ جنگ میں ھی جان دیتا ھے،، علامہ بدر عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حدیثوں کو ایک عنوان کے تحت جمع کیا ھے ” شرطِ فاسد کے ساتھ بھی ایمان قبول کیا جائے گا ” مگر ھم کہتے ھیں مسلمان رھنا ھے تو ھماری فقہ پر ورنہ جاؤ بھاڑ میں،، آج کل لوگ جب اپنی اولاد کی شکایتیں
لے کر آتے ھیں تو میں انہیں کہتا ھوں،، اللہ کے بندو آج کل کے حالات میں تمہارے بچے یہ مان لیں کہ اللہ ھے تو وہ ولی اللہ ھیں ان کی قدر کرو،،خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کو لعن طعن نہ کیا کرو ،،، جانے والے سب لکھا ریکارڈ چھوڑ کر گئے ھیں،، اور بعد والوں نے تحقیق سے جہاں مناسب سمجھا کمی بیشی بھی کی اضافے بھی ھوئے اور بات کو واضح کرنے کے لئے شرحیں بھی لکھی گئیں،، مگر ان سب سے اتفاق نہ کر کے بھی بندہ مسلمان رہ سکتا ھے،سب سے بڑا علم یہ ھے کہ بندے کو یہ معلوم ھو کہ کن چیزوں کو چھوڑ کر بھی مسلمان رہ سکتا ھے اور کن چیزوں کو اپنا کر نہ صرف مسلمان بلکہ اچھا مسلمان بن سکتا ھے،، آپ جب گاڑی چلاتے ھیں تو آپ کی نظر پیٹرول کے گیج پر ھوتی ھے ساتھ والے کو پتہ ھو یا نہ ھو، آپ کو اندازہ ھوتا ھے کہ ابھی کتنے کیلومیٹر کی گنجائش میرے پاس ھے،، علماء اس امت کے ڈرائیور ھیں،، انہیں دیانتداری سے اس چیز کو ایپلائی کرنا چاھئے کہ کون کس حد تک مسلمان رہ سکتا ھے اور اسے مسلمان کی ڈیو ریسپیکٹ دینی چاھئے،چاھے وہ کسی بھی فقہ کو فالو کرتا ھو یا غیر مقلد ھو،، آج جب ساری دنیا دین دشمنی پر متحد ھو چکی ھے علماء بھی کافر ڈیکلئیر کرنے پر زور رکھیں گے تو پھر اس امت کا اللہ ھی حافظ ھے،، باڑ ھی جب کھیت کو کھانا شروع کر دے تو اس کھیت کی حٖفاظت کون کرے گا ؟