میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ھیں !
تیری مثال، تیری عظمتوں سے چھوٹے ھیں !
شہادتِ علی الناس اور نبی ﷺ کی سیرت !
دین کا تنہا ماخذ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ھے ! اس ماخذ یا سورس سے میں دو چیزیں ملی ھیں قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی طریقہ جسے سنت کہا جاتا ھے، جب ھم یہ کہتے ھیں کہ دین کا تنہا ماخذ مصطفی ﷺ کی ذات اقدس ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ پورا دین ان کی ذات پر کھڑا ھے قرآن کو اللہ کا کلام قبول کیا گیا ھے ان کی کریڈیبیلیٹی اور اعتماد و اعتبار کی بنیاد پر،خود قرآن اپنی تصدیق کے لئے قولِ مصطفی ﷺ کا محتاج ھے کہ آپ ﷺ فرمائیں کہ یہ قرآن ھے ،، قرآن پر نہ اللہ کے دستخط و مہر لگی ھے نہ ھی جبرائیل کے دستخط ھیں،، سننے والوں نے اسے مصطفیﷺ کی زبان اور آواز میں سنا ،حقیقی ایمان، ایمان باللہ ھے مگر عملی ایمان ،، ایمان بالمصطفی ﷺ ھے،کیونکہ آپ پر ایمان لائے بغیر اللہ سے تار جڑتی نہیں ھے، جو لوگ بھی دین پر وار کرنا چاھتے ھیں وہ کوشش کرتے ھیں کہ آپ ﷺ کی ذاتِ پاک کو لوگوں کے لئے ناقابلِ قبول بنا دیں،مکے والوں کی کوشش بھی یہی تھی کہ قرآن تو ٹھیک ھے بس یہ کسی اور بندے پر نازل ھونا چاھئے تھا،،
انبیاء کے سلسلے کے ختم ھونے کے بعد اب قیامت تک ھر پیدا ھونے والے بچے تک دین پہنچانا اور اتمام حجت کرنا جناب محمد مصطفی ﷺ کی ذمہ داری ھے کیونکہ جو بھی جب بھی پڑھے گا وہ محمدﷺ کا کلمہ پڑھے گا اور محمد رسول اللہ کی گواھی دے کر آپﷺ کو ھی دین کا ذریعہ تسلیم کرے گا کہ قرآن و شریعت سمیت جو ملا ھے وہ مجھے محمد رسول اللہ ﷺ سے ملا ھے ! ھم دین کی تبیلغ و دعوت کے لئے اپنے ساتھ ذات و صفات نبیﷺ کو لے کر جاتے ھیں کہ اس ھستی نے ھمیں گارنٹی دی ھے کہ یہ اللہ کا کلام ھے آپ اس ھستی کی سیرت بھی پڑھ لیں اور اس کا لایا ھوا کلام بھی پڑھ لیں !
شروع شروع میں جب ھم لوگوں کے پاس دعوت لے کر جاتے تھے تو تبلیغی جماعت نہیں لے کر جاتے تھے بلکہ جنگی لشکر لے کر جایا کرتے تھے اور دوسروں کے پاس کوئی آپشن نہیں ھوتا تھا سوائے اس کے کہ اسلام قبول کرو یا مرو اور لونڈیاں غلام بنو ! یا پھر جزیہ دو ! قرآن خود مسلمانوں کے پاس نہیں ھوتا تھا تو سیرت کون بیان کرتا تھا؟ یوں ھم نے تین براعظم فتح کر لئے ! یادش بخیر یہ وھی زمانہ تھا جب احادیث مرتب کی جارھی تھیں اور ان میں ھر رطب و یابس ثواب کے نام پر اکٹھا کیا جا رھا تھا، کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک زمانہ وہ بھی آئے گا جب ھم حاکم کی بجائے محکوم یا برابر کی سطح پر آ جائیں گے اور ھمیں دین کی دعوت منت سماجت فی سبیل اللہ کے طریقے پر بھی دینی پڑے گی ! ھم لوگ مسلمان نسل ھیں،جس طرح بکری کا بچہ بکری ھوتا ھے ،گائے کا بچہ گائے ھوتا ھے ،اسی طرح ھندو کا بچہ ھندو اور مسلمان کا بچہ مسلمان ھے ! ھم نے مساجد کی طرح اللہ اور رسول ﷺ بھی اپنے نام الاٹ کروا لئے ھیں ،حالانکہ قرآن اللہ کو رب العالیمن اور نبیﷺ کو ساری نوع انسانیت کا رسول کہتا ھے،وما ارسلناک ِالۜا کآفۃٍ للناس بشیراً و نذیراً ! قل یا ایہالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً- اے نبی ھم نے آپ کو تمام نوع انسانیت کے لئے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ھے اور اے نبی کہہ دیجئے کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ھوں ! گویا رسول ﷺ قیامت تک آنے والے انسانوں کے رسول ھیں صرف ھمارے نہیں،، اور نہ ھمیں یہ حق پہنچتا ھے کہ ھم دوسروں کی امانت کو اس طرح داغدار کر دیں کہ وہ پہچاننے سے انکار کر دیں یا اس امانت سے کراھت کریں ! جو لوگ کہتے ھیں کہ جی ” وہ جیسے بھی ھیں اور انہوں نے جو بھی کیا ھو ” تو کیا ھم انہیں چھوڑ دیں گے ؟ گزارش ھے کہ ھمیں انہیں نہیں چھوڑیں گے اور نہ ھی چھوڑنے کا کوئی آپشن ھمارے پاس ھے،،ھم نے مرتد ھو کر مرنا ھے؟ حکومت نہ مارے گی تو کوئی بندہ مار دے گا،مگر حقیقت یہ ھے کہ لوگ مرتد ھو کر بھی مسلمان رھنے پر مجبور ھیں،، مگر مسئلہ ان لوگوں کا ھے جن کے پاس آج آپشن ھے جو قرون اولی سے ان کے پاس نہیں تھا،، ھمارا نبی جو بھی تھا جیسا بھی تھا انہیں قبول کرنا تھا ورنہ مرنا تھا ! مگر آج ایک ھندو یا عیسائی اس خوف سےآزاد ھے ،وہ کہتا ھے ٹھیک ھے جناب آپ یہ سیرت کی کتاب چھوڑ جائیے مجھے وقت ملا تو دیکھ لوں گا،، سیرت کی کتاب پڑھ کر اگر اسے کوئی بات قابلِ اعتراض نظر آتی ھے تو اعتراض کرنا اس کا حق بنتا ھے اور اس اعتراض کا جواب دینا ھمارا فرض بنتا ھے ! تا کہ وہ صمیمِ قلب سے مسلمان ھو ،شک کا وائرس لے کر نہ آئے ! گویا فریضہ شہادتِ علی الناس کے لئے قیامت تک ھمارے نبی کو بے عیب رھنا ضروری ھے جس طرح وہ کوہ صفا پر کھڑے ھوتے وقت بے عیب تھے ،کیونکہ وہ پیمانہ ھیں ، رول ماڈل ھیں اور دروازہ اور گیٹ وے ھیں اسلام کا ! آپ کی ذات پر راویوں کے زور اور چند انسانوں کے بنائے ھوئے اصولوں کی بنیاد پر ایسے داغ لگا دینا کہ جس کو کوئی معاشرہ قبول نہ کرے دین کا رستہ روکنے کے مترادف ھے! ھم جب یہ کہتے ھیں کہ ” وہ جیسے بھی ھیں ھمیں قبول ھیں ” تو یہ کوئی عجیب اور انہونی بات نہیں اور نہ اس کی بنیاد پر اپنی تعریف خود ھی کرنی چاھئے ،، یہ تو تعصب ھے جو ھر اس چیز کے بارے میں پیدا ھو جاتا ھے جس کے ساتھ ھمارا نام لگ جاتا ھے یا جو ھمارے نام لگ جاتی ھے،لوگ اپنی مرغی کو گالی برداشت نہیں کرتے اسے اپنی ذات کو گالی سمجھتے ھیں،، گائے بھینس کو مارنے یا گالی دینے پر قتل ھو جاتے ھیں،، اسی طرح یہ مذھبی تعصب ھے عقل کی بات نہیں ھے، ھم تک پہنچ کر نبوت ختم نہیں ھو گئ کہ ھم جو چاھئیں اس کا حشر کریں،ھمیں اس سے اپنی پیاس بھی بجھانی ھے اور دوسروں تک بھی پہنچانا ھے،مگر ھم نے ایسی ایسی کہانیاں نبیﷺ کے ساتھ وابستہ کر دیں ھیں کہ اب انہیں کوہ صفا والا مصطفی چھوڑا ھی نہیں ،، ساتھ دعوی یہ ھے کہ ھمارے نبی ھیں کسی کو کیا تکلیف ھے ؟ دین کے اس اکلوتے منبع کو بدنام مت کرو،، انسانیت نے قیامت تک اسی کنوئیں سے پانی پینا ھے،، اس کنوئیں کو ناپاک مت کرو !