یہ علماء ھیں یا خدا ؟

June 27, 2013 at 1:20pm

    "این کاؤنٹر” (پیرس ریویو )دوسری جنگِ عظیم کے فوراً بعد دنیا میں کمیونزم کا سب سے بڑا نقیب بن کر طلوع ھوا،آفسٹ پیپر پر جدید ترین پرنٹنگ سسٹم کے تحت شائع ھونے والا یہ رسالہ پیرس کی بندرگاھوں ،ائیرپورٹس، اور ریلوے اسٹیشنز سے نکلتا اور پھر چند ھی روز میں دنیا بھر کے ٹی اسٹالز ، کافی شاپس اور شراب خانوں میں پہنچ جاتا،جہاں نہ صرف اس کی ایک ایک سطر کو الہام کے طور پر پڑھا جاتا، بلکہ ایمان کا درجہ دے کر اس پر فوراً عملدرآمد بھی شروع کر دیا جاتا! یہ سچ ھے کہ اگر ھم مارکسی نظریات،مارکسزم کے پیروکاروں کے حلیوں اور ان کے متشدد نظریات کی تاریخ کھود نکالیں تو ھمیں "این کاؤنٹر ” ھی ملے گا،جس نے پوری دنیا میں بھوک کو مضبوط ترین فلسفہ بنا دیا، یہ این کاؤنٹر ھی تھا جس سے متاثر ھو کر نوجوانوں نے بال بڑھا لئے ،غسل کرنا ترک کر دیا،مارکسی لٹریچر کو مقدس سمجھ کر ایک ایک حرف کو رٹ لیا، بیویوں کو طلاقیں دے دیں، اور بچوں کو "ان امیروں کو لوٹ لو” کا درس دینا شروع کر دیا! رسالے کے پیچھے کروڑوں روبل تھے، دنیا کے بہترین ترین مارکسی دماغ تھے،ماہر صحافی،انتہای زیرک نقاد اور دانشور تھے، لہٰذا اس زمانے میں اس سے بڑھ کرمعیاری،جامع اور پر اثر جریدہ دنیا میں کوئی نہیں تھا،معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ سپینڈر۔ آڈن ، اور مارلو جیسے دانشور اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل تھے، اس کے علاوہ ایک بین الاقوامی مجلسِ ادارت تھی،جو دنیا بھر سے موصول ھونے والے مضامین، تجزیوں اور تبصروں کا کڑی نظر سے جائزہ لیتی،انہیں مارکسی کسوٹی پر پرکھتی،زبان و بیان کی غلطیوں کی نشاندھی کرتی،، اعداد وشمار اور حقائق کی صحت کا جائزہ لیتی ،،تسلی کے بعد یہ مضامین مختلف ڈیسکوں پر چلے جاتے،جہاں اپنے وقت کے ماھرین،ان کا انگریزی میں ترجمہ کرتے، ان کی نوک پلک سنوارتے،اس کے بعد ایک اور شعبہ اس ترجمے کا جائزہ لیتا،اس میں پائی جانے والی جھول،سقم اور لفظی کوتاھیاں درست کرتا ،، آخر میں جب اشاعت کا مرحلہ آتا تو انتظامیہ انگریزی ٹیکسٹ کے ساتھ ساتھ اصل متن جو مختلف زبانوں میں ھوتا بھی چھاپ دیتی،تا کہ اگر ترجمے میں کوئی غلطی رہ گئی ھو تو قارئین خود اصل متن کو دیکھ کر اسے درست کر لیں،،اس کڑے معیار ،انتخاب اور عرق ریزی کے باعث ناقدین "این کاونٹر” کو وہ مقام دیتے جو خود شاید کارل مارکس اور لینن کو بھی حاصل نہیں تھا ! مگر تقریباً دو دھائیوں بعد یہ انکشاف ھوا کہ جسے دنیا کمیونزم کی ” بائبل” سمجھ رھی تھی دراصل سی آئی اے کا منصوبہ تھا اور امریکی خفیہ ادارے کے ھیڈکوارٹر کے ایک چھوٹے سے کمرے سے ڈپٹی سیکرٹری رینک کا ایک امریکی، دو کلرک اور ایک چپڑاسی ،چند فائلوں،ٹیلکس کے چند پیغامات، اور کچھ خفیہ ٹیل فون کالز کے ذریعے برسوں تک پوری اشتراکی دنیا کو بے وقوف بناتے رھے،ان کے نظریات میں زہر گھولتے رھے،یہانتک کہ کمیونزم کے ٹارگٹ ممالک میں مقامی سطح پر اس کے خلاف مزاحمت شروع ھو گئی ! عرصے بعد جب این کاؤنٹر پراجیکٹ کا چیف ثقافتی یلغار کے موضوع پر منعقدہ ایک سیمینار میں شرکت کرنے پیرس گیا تو شرکاء نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور ھال دیر تک ان کی تالیوں سے گھونجتا رھا،، بوڑھے ریٹائرڈ امریکی نے ھیٹ اتار کر اور جھک کر سب کا شکریہ ادا کیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا،،، پوچھنے والوں نے سوال کیا ” سر آپ نے یہ سب کچھ کیسے کر لیا؟ بوڑھے امریکی نے مسکرا کر مائیک کو چھوا اور جواب دیا،، ینگ مین ویری سمپل،، ھم نے کمیونزم کو اتنا کڑا،سخت اور غیر لچکدار بنا دیا کہ وہ لوگوں کے لئے قابل قبول ھی نہ رھا” ایک اور نوجوان اٹھا اور بوڑھے امریکی سے مخاطب ھو کر بولا،، لیکن سر جریدے کے سارے منتظمین تو بہت کومٹٹیڈ اشتراکی اور کمیونسٹ تھے،، اور جہاں تک ھماری معلومات ھیں ان کا سی آئی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی رابطہ بھی نہیں تھا؟ امریکی نے قہقہ لگایا اور دوبارہ مائیک کو چھو کر بولا،،،، ھاں بے شک ھمارا این کاؤنٹر کی انتظامیہ ،اس کے ایڈیٹوریل بورڈ اور کمیونسٹ ورکرز کے ساتھ کوئی تعلق اور رابطہ نہیں تھا،،لیکن دنیا کے مختلف کونوں سے اس تک پہنچنے والے مضامین کو لکھنے والے ھمارے ھی پیڈ دانشور تھے اور یہ مضامین ھم ھی لکھواتے تھے،،اس پر ایک اور نوجوان کھڑا ھوا اور بولا ،مگر اس سے کیا ھوتا ھے” بہت کچھ ھوتا ھے ینگ مین،، امریکی نے سنجیدگی سے جواب دیا،،تم خود فیصلہ کرو،جو بائیبل انسانوں کو ایسے احکامات دے جو انسانی فطرت سے متصادم ھوں، جو انسان کو آزادی سے سوچنے،بولنے اور عمل کرنے سے روکتے ھوں،جو لوگوں کو بدبودار اور بے ڈھنگے لباس پہننے، شیو نہ کرنے، دانت گندے رکھنے اور گالی دینے کا درس دیتی ھو،وہ لوگوں کے لئے قابلِ قبول ھو سکتی ھے؟ ھم نے یہی کیا،،این کاؤنٹر کے پلیٹ فارم سے اشتراکی نظریات کے حامل لوگوں کو بے لچک متشدد،اور سخت موقف کے حامی افراد ثابت کر دیا، جس کے بعد تیسری دنیا میں ان لوگوں کے خلاف مزاحمتی تحریکیں شروع ھوئیں اور لوگوں نے اپنے جان و مال اور خون سے ھماری جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑا اور ھمارا کام آسان ھو گیا،،یہاں پہنچ کر پورا ھال تالیوں سے دوبارہ گھونج اٹھا اور بوڑھا امریکی پھر نشست سے اٹھا ھیٹ لہرا کر سامعین کا شکریہ ادا کیا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا،، میں جب بھی کسی ملحد پیج پر جاتا ھوں،، میں جب بھی نوجوانوں ک
و اسلام کے خلاف بولتے سنتا اور لکھتے دیکھتا ھوں،، تو میرا دل خون کے آنسو روتا ھے،، ان نوجوانوں کو ان کے اپنے ھی مولویوں نے اپنی جنت کمانے کے لالچ میں گمراہ کر دیا،، میں جب بھی کسی مولوی کو بہت جزباتی انداز میں دین کا وہ روپ پیش کرتے سنتا ھوں جو کبھی بھی اللہ اور اس کے رسول
کےپیشِنظرنہیںتھاتو مجھے وہ بوڑھا امریکی یاد آ جاتا ھے،، یہ لوگ دین کو ناقابلِ عمل ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رھے ھوتے ھیں،،اور یوں رھتی دنیا تک کے لئے دیئے گیئے دین کو سابقہ دور میں محصور کرنے کی کوشش کرتے ھیں،،، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام کو جتنا نقصان خود اسلام کے نام پر پہنچایا گیا ھے کوئی غیر یہ نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا،اسلام کے خلاف جتنی نفرت اسلام کے ذریعے پھیلائی گئی ھے،مولوی کو جتنا مولوی کے ذریعے ناقابلِ برداشت بنایا گیا،مدرسے کو مدرسے کے خلاف جس بےدردی سے استعمال کیا گیا اور مسجد کو مسجد کے ذریعے جتنا بدنام کیا گیا،، اتنا ھندؤں،عیسائیوں،اور یہودیوں کی تقریروں اور تحریوں نے پچھلے تین سو سال میں بھی نہیں کیا ! آج ھندوستان کا مسلمان جس سکون اور اطمینان سے مسجد میں نماز پڑھتا ھے اور جس امن اور تحفظ کے احساس کے ساتھ اعتکاف بیٹھتا ھے،،پاکستان والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے،، اور یہ پاکستان میں مدارس اور مساجد کی مشروم نما بڑھوتری کا تحفہ ھے،، مساجد اور مدارس کھلے اور وسیع ھو گئے ھیں،،مگر ان سے نکلنے والے تنگ نظر اور سخت دل ھو گئے ھیں،، اسلام کا نیا پاکستانی ایڈیشن لوگوں سے وہ اختیار چھین لینا چاھتا ھے جو انہیں ان کے خالق نے عطا کیا تھا،، من شاء فلیومن و من شاء فلیکفر،، اما شاکراً و اما کفوراً کو مسجد کے منبر سے ھی منسوخ کیا جاتا ھے،،اور حشر کے فیصلے اللہ پر چھوڑنے کی بجائے زمین پر کرنے کی رسم کو رواج دیا جا رھا ھے،، کیا کسی کو یہ احساس ھے کہ یہ دعوئ خدائی ھے ؟ جب علماء خدا بن جائیں اور لوگ ان کو خدا مان لیں تو امید کی ھر کرن بجھ جاتی ھے، اور قومیں تاریخ کی دیوار میں،چن دی جاتی ھیں،،اتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ !! فیس بک کے استعمال کو حرام کہنے والے اسلام کے دوست نہیں نادان دوست ھیں،، فیس بک ایک نعمت ھے،جسے زحمت کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ھے،، جس طرح انکھیں ایک نعمت ھیں جنہیں زحمت کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتاھے،، حرام صرف وھی ھے جسے بقول قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیقؓ اللہ نے حرام کے نام کے ساتھ حرام کیا ھے،، باقی کے لئے جائز یا ناجائز کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی ھے،، اور جائز یا ناجائز کا فیصلہ انسان کی نیت اور اس کا استعمال کرتا ھے،،اپنی ذات میں کوئی بھی ایجاد حرام نہیں ھے ! ھٰذا ما عندی والعلم عنداللہ،وما علینا الا البلاغ