ھمارے ایک دوست لکھتے ھیں کہ عورت اکثر ایسی حرکت کر جاتی ھے کہ اسے اس پر مارنے کی اجازت دی گئ ھے ،،،،،،،، ( اس کی فزیکل دلیل مرد کا مارنے کے قابل ھونا ھے ،جبکہ عورت اس معاملے میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ) گویا بما فضل اللہ بعضھم علی بعض ” کے تحت شوھر کو انچارج بنانے کی ایک وجہ اس کا پھینٹی لگانے کے قابل ھونا بھی ھے کیونکہ گھر چلانے کے لئے اس پھینٹی کی اکثر ضرورت پڑتی ھے ،، یہ ایک بندے کی سوچ نہیں بلکہ صدیوں سے کوٹ کوٹ کر بھرا گیا فسلفہ ھے ،،
خود ھر دوسرا مرد کہیں نہ کہیں اکھ مٹکا لگا کر رکھتا ھے ،، بعض مرد بیوی کو بتا کر غیر عورتوں سے بدکاری کرتے ھیں اور بعض تو اپنے کلپ بھی بیوی کو دکھا دیتے ھیں ،،، بیوی کے سامنے غیر عورت سے چیٹ کرنا تو عام مرض ھے ،،،،، اب اسلام کیا کہتا ھے ؟ ایسا مرد تو سنگسار کیئے جانے کے قابل ھے نہ کہ احترام کے قابل اور اگر عورت پلٹ کر جواب دینے پر مار کی مستحق ھے تو شوھر کو کھلی چھُٹی کیوں ھے ؟ کیا یہ عدل کا دین ھے یا غلبے کا دین ھے ؟ جس کے ھاتھ میں ڈنڈا وھی قوام ھے ؟ ایک ان پڑھ عورت تو اس عذاب سے سسک سسک کر گزر جاتی ھے ، کیونکہ اسے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ھوتی ھے ،مگر ایک پڑھی لکھی عورت جو اپنی روزی کا سامان بھی کر سکتی ھو وہ ری ایکشن دیتی ھے ،،،،،،، اس ری ایکشن کی حدود کیا ھیں ؟ کیا وہ اس شوھر کو ساری برادری محلے میں ننگا کرے کہ اس کے کرتوت کیا ھیں ؟؟ اگر اس کی بیٹیاں ھوں تو وہ اس بات سے بھی ڈرتی ھے کہ کل کلاں میری بچیوں کے لئے طعنہ بن جائے گا اور ان کی روٹیاں خراب ھونگی ،،،،،،،، اس کا بہترین حل بھی ” طاقت زما قانون ” کے تحت ھی حل نہ کیا جائے ،،،،،،، ؟
اللہ پاک نے فرمایا ھے کہ ” ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف ” جیسے عورتوں کے فرائض ھیں ویسے ھی ان کے حقوق ھیں ” اگر مار کھانا عورت کے فرائض میں شامل ھے تو کیا مارنے کا حق بھی اسے حاصل ھے ؟ کیا عورت اپنی جسمانی کمزوری کے مداوے اور مرد کو لائن پہ لانے کے لئے اپنے بھائیوں کی خدمات حاصل کر سکتی ھے ،،،، ؟؟