سلام ملتِ ابراھیمی کا تحیہ تھا ، مکے کے مشرک بھی سلام کیا کرتے اور مدینے کے یہود نصاری بھی ،، سوال سلام کرنے کا نہیں اٹھا تھا بلکہ سلام کا جواب دینے کا اٹھا تھا ، اس کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا ھے کہ جو تمہیں کوئی بھی کلمہ خیر تحیہ کے طور پر کہے تم اس کا جواب اس سے بھی بہترین انداز میں دو ورنہ کم از کم جتنا اس نے کہا ھے ویسا تو لوٹانا تمہارے ذمے ھے ، قرآن حکیم جہاں بھی فرشتوں اور ابراھیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتا ھے وہ انسانی شکل میں آنے والے ان فرشتوں کے سلام اور ابراھیم علیہ السلام کے اس سلام کے جواب ، پھر ان کو اجنبی مسافر سمجھ کر ان کے کہے بغیر ان کے لئے بچھڑا تل کر لانے کا ذکر کرتا ھے ،، یہ سلام جوابی سلام اور کھانا کھلانا اخلاقیات کو نمایاں کرنے کے لئے بیان کیا گیا ھے ،، جسے حضور ﷺ نے افشوا السلام و اطعموا الطعام کے الفاظ مین اپنی امت کو حکم دیا ،، قرآن کہیں نہیں کہتا کہ جب انسانی روپ میں فرشتوں نے سلام کیا تو ابراھیم علیہ السلام نے جواب میں کہا کہ ” چن ماھی پہلے نادرا کا شناختی کارڈ دکھاؤ کہ تم مسلمان ھو یا کافر ،، بریلوی ھو یا دیوبندی ،، شیعہ ھو یا سنی ،، صابی ھو یا وھابی ،،،،،،، سلام انسانی اخلاق کا حصہ ھے مذھب کا نہیں ،،،