1- قرآن قول فیصل ھے ،،، اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ھے ،،
وَالسَّمَاء ذَاتِ الرَّجْعِ {11}
وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ {12} إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ {13} وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ {14}
2 – قران ھی وہ واحد میزان ھے جس پہ حق و باطل کو پرکھا جائے گا ، جھوٹ اور سچ کا فیصلہ کیا جائے گا ، صحابہ کا مقام بھی اس کی روشنی میں طے کیا جائے گا – قول رسول ﷺ کو بھی اسی پر تولا جائے گا اور اس کے سامنے پیش کیا جائے گا ، اگر وہ اس کی تشریح ھے تو قرآن کے بنیادی ڈھانچے اور بنیادی تعلیمات کے خلاف نہیں ھونی چاھئے ،، یہ اصول چند لوگوں نے بیٹھ کر طے نہیں کیا ،، یہ خود اللہ پاک نے طے کر دیا ھے ،،
الله الذي أنزل الكتاب بالحق والميزان ( شوری )
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ( الحدید )
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ – امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ۔ امام نسائیؒ – امام ترمذیؒ- امام ابو داودؓ – ابن ماجہؒ – امام مالکؒ کو اگر حق حاصل ھے کہ وہ اپنی اپنی کتاب کے لئے اپنے اپنے اصول وضع کریں اور ھم سے تقاضہ کیا جاتا ھے کہ ھم ان کتابوں کو ان کے طے کردہ اصولوں کی روشنی میں ھی پڑھیں ،، تو اللہ پاک اس کا زیادہ حقدار ھے کہ اپنی کتاب کے اصول طے کرے اور اس کی کتاب کو اس کے طے کردہ اصولوں کی روشنی میں ھی پڑھا جائے ، یہ اصول قرآن حکیم میں موتیوں کی طرح بکھرے پڑے ھیں ،، جہاں جہاں الکتاب کا ذکر آیا ساتھ اس کا مشن ضرور بتایا گیا ھے ،، متعلقہ آیات کو فرصت ملتے ھی اسی پوسٹ میں ڈال دیا جائے گا ،،،