کیلشیم کس طرح پتھری بنتا ھے اور رسمیں کس طرح دین بنتی ھیں !!
بعض رسمیں کس طرح دین بن جاتی ھیں جبکہ عوام الناس کو پتہ ھی نہیں ھوتا ،،،،،،،،،
پاکستان میں منگل بدھ گوشت کا ناغہ ایک انتظامی بندوبست ھے تا کہ جانوروں کی تعداد کو Maintain رکھا جائے ،،مگر ھم اس کو مذھبی معاملہ سمجھتے تھے کہ شرعاً منگل ، بدھ کو گوشت کھانا حرام ھے ،،،،،،
جب امارات آمد ھوئی تو عربوں کو ساتوں دن گوشت کھاتے دیکھ کر اسی طرح کراھت محسوس ھوئی جس طرح کسی مردار کو کھانے والے سے ھوتی ھے ،، یہانتک کہ خود مولوی بنے تو حقیقت واضح ھوئی ،، بالکل اسی طرح بہت ساری باتیں جن کا ایمان کے ساتھ کوئی سرے سے کوئی تعلق نہیں ان کو ھمارے ایمان کا جزوِ لاینفک بنا دیا گیا ھے کہ گویا اس پر ایمان لائے بغیر چارہ نہیں ،، اور بڑے بڑے علماء اس کو دانتوں سے پکڑے بیٹھے ھیں ،،، اس لئے کہ ان کے معتقدین و فدائین اسی پہ ایمان رکھتے ھیں ،، اب اپنے بنائے ھوئے بُت توڑنے کی ان میں ھمت نہیں ،، ورنہ ان باکس وہ مسئلہ بھیجو تو فوراً فرما دیں گے کہ ھم اس پہ بحث نہیں کرتے ،اس کا ایمانیات سے کوئی لینا دینا نہیں ، اپنے اپنے ذوق پہ منحصر ھے مانو یا نہ مانو ،،،،،، عوام الناس میں اعتراف کر لیں تو ان کے اپنے ماننے والوں کے ذھن بھی کشادہ ھو جائیں ،، جو دوسروں کو اسی بات پر کافر قرار دیتے پھرتے ھیں ،،،،،،،،
عیسی علیہ السلام کی رسالت پہ ایمان لانا ھمارے ایمانیات کے پیکیج کا جزو ھے ، اور ان پہ نازل شدہ وحی پر بطور انجیل ایمان لانا بھی اس کا جزو ھے ،، اس کے بعد ان کی موت و حیات یا بطور امتی واپسی پر ایمان لانا بالکل ضروری نہیں ھے ،، ان کی واپسی مجرد گمان ھے اور گمان عقیدہ نہیں بنتا ،، ان الظن لا یغنی من الحق شیئاً،،
جو وقت ان کے آنے کا دیا گیا تھا وہ صدیاں ھوئیں گزر گیا ھے ،، اس وقت سے پہلے کوئی ان کہانیوں پہ یقین رکھ سکتا تھا ، اس کے بعد اب صرف ضد و عناد ھے ،، حضرت ابوھریرہؓ کو یقین تھا کہ وہ ان کی زندگی میں تشریف لے آئیں گے ،، پھر گمان یہ ھوا کہ شاید کچھ لیٹ ھو جائیں تو ،، وہ جوان لوگوں کو ان کے نام پیغام دیا کرتے تھے کہ بھائی تمہاری زندگی میں عیسی ابن مریم تشریف لائیں گے تو ان کو میرا سلام دینا ،، اللہ کے رسول ﷺ سے منصوب کیا گیا کہ ” یہ بچہ اگر عمر دیا گیا تو یہ ابھی بوڑھا نہیں ھو گا کہ عیسی نازل ھو جائیں گے ،، وہ بچہ کب کا مر کھپ گیا مگر عیسی نازل نہیں ھوئے ، اپنے نبی ﷺ کی صداقت پہ ھم ایمان رکھتے ھیں جھوٹ راوی نے بولا ھے ،، اگلی فلائیٹ قسطنطنیہ کے فتح ھونے والے دن تھی ،،کہ مالِ غنیمت ابھی تقسیم نہیں ھوا ھو گا کہ آوازہ لگے گا اپنے گھرون کی خبر لو دجال نکل آیا ھے ، لوگ پنے گھروں کی طرف دوڑ پڑیں گے اور عیسی نازل ھو جائیں گے ، قسطنطنیہ فتح ھوئے صدیاں بیت گئیں ،مال غنیمت سمیٹنے والے ھضم کر کے بھی خاک ھو گئے مگر عیسی تب بھی نہیں آئے ،، جس خبر کو وقت نے تین بار جھوٹ ثابت کیا ، اس جھوٹ کے راویوں کے قد ناپ کر اسے سچا ثابت نہیں کیا جا سکتا ،،،،،،، چونکہ عیسائی کے اگلے کمنٹس اسی رجعت کے بارے میں ھیں لہذا ان پہ تبصرہ کرنے سے پہلے یہ نوٹ لکھ دیا ھے تا کہ جس نے خفگی نکالنی ھے یہاں نکال لے ،،
جب دجال ھی کوئی نہیں تو کونسا لشکر ؟ دجال کا انتظار یہود کو ھے جو عیسی علیہ السلام کو دجال سمجھتے تھے اور اصلی مسیح یعنی دجال کا انتظار کر رھے ھیں ،، جبکہ عیسائیوں کے نزدیک عیسی واپس آ کر آسمانی بادشاھت قائم کریں گے ،، ھمارے حصے کے نبی آ چکے جو کہ قیامت تک آنے والی انسانیت کے رسول ھیں ،جبکہ عیسی علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے رسول ھیں ، انہوں نے اپنی زندگی میں ھی بات ختم کر دی تھی کہ میری دعوت و تبلیغ نیز تعلیم و تربیت صرف بنی اسرائیل کی امانت ھے ،، اپنے بچوں کی روٹی چھین کر کتوں کے آگے نہیں ڈالی جاتی ،، اب وہ کتوں کے لئے کیوں تشریف لائیں گے ؟ وہ کونسی گیدڑ سنگھی ھو گی ان کے پاس جس سے وہ اپنی زندگی میں تو امن لا نہیں سکے ،، اور اب آتے ھی امن قائم کر دیں گے ،، نبئ کریم ﷺ کی کوشش سے تو انسانیت ایک دین پر جمع نہیں ھوئی حالانکہ قرآن نے ان کے بارے میں بشارت دی تھی کہ لیظھرہ علی الدین کلہ ،،، دوسری بات امن و امان میں مبالغہ حالانکہ یہ امن و امان خود خلیفہ راشد عثمان غنیؓ اور علی المرتضیؓ کے زمانے میں قائم نہیں ھو سکا ،،الغرض ھر لحاظ سے یہ کہانیاں یہودیت و عیسائیت کے عقائد کا چربہ ھیں جو کاربن پیپر نیچے رکھ کر بائیبل سے نقل کی گئ ھیں ،، جب اللہ کے رسول ﷺ نے ایک بچے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ” اگر یہ بچہ زندگی دیا گیا تو یہ ابھی بوڑھا نہیں ھو گا کہ دجال نکل آئے گا اور عیسی نازل ھو جائیں گے ” تو وہ بچہ تو بوڑھا ھو کر اپنے رب سے بھی جا ملا ،، صدیاں گزر گئیں خبر کو وقت نے جھوٹا ثابت کر دیا ،، اب آپ کا ذوق ھے کہ اس جھوٹ کو محدثین کی طرف منسوب کریں یا راویوں کی طرف یا معاذ اللہ اپنے نبی کی طرف ،، قسطنطنیہ بھی فتح ھوا نہ دجال آیا نہ عیسی آئے اور نہ ان کی ضرورت ھے اور نہ وہ آئیں گے ،، ولا یزالون مختلفین ،، دنیا اسی طرح مختلف مذاھب میں ھی تقسیم رھے گی اور اسی حال میں قیامت بپا ھو گی ،، جب عیسی علیہ السلام سے اللہ سوال کرے گا کہ کیا آپ نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو بھی خدا کے ساتھ خدا بنا لو ،،،،،،، چونکہ عیسی علیہ السلام اس عقیدے سے واقف نہیں ھیں ،، یہ عقیدہ بعد میں اختیار کیا گیا ،، لہذا وہ جواب دیتے ھیں کہ پروردگار مین جب تک ان میں موجود تھا ، تب تک کا ذمہ دار ھوں جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ھی ان کا نگران تھا ، اور تو ھر چیز کا گواہ ھے ،، یہ جواب کیوں نہیں دیا کہ پھر جب تو نے مجھے دوبارہ بھیجا تو میں نے اس عقیدے کے بارے میں سنا اور عیسائیوں کی خوب گوشمالی کی اور ان کو توحید کی طرف بلایا ؟ قال سبحانک مایکون لی ان اقول ما لیس لی بچق ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم ما فی نفسی ولا اعلم مافی نفسک انک انت علام الغیوب(المائدہ 116)
ما قلت لھم الا ما امرتنی بہ ان اعبدواللہ ربی وربکم وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (المائدہ 117)
وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد أفإن مت فهم الخالدون 34 كل نفس ذائقة الموت ونبلوكم بالشر والخير فتنة وإلينا ترجعون( 35 الانبیاء )اور ھم نے آپ سے پہلے کسی بشر کو ھیشہ کی زندگی نہیں دی ” سب مر گئے ” کیا پھر اگر آپ مر گئے تو یہ ” منکرین ” ھمیشہ زندہ رھیں گے ؟ قرآن کھول کھول کر بات کرتا ھے مگر ھم کہانیوں کے نشئ لوگ ھیں ،، قرآن کی کب مانتے ھیں ،ایسا ممکن نہیں تھا کہ بات عقیدے کی ھو اور اللہ پاک کے آخری خطاب میں زیرِ بحث نہ آئے ، اور اللہ پاک عقیدے کو مبھم چھوڑ کر وحی کا دروازہ بند کر دے اور رسالت کا سلسلہ ختم کر دے ،، نبی کریمﷺ کا دوبارہ اٹھ کھڑا ھونا زیادہ قابل قبول ھے کیونکہ آپ ﷺ کی رسالت کا زمانہ ابھی باقی ھے ،، امتی نبی کا فسانہ شریعت میں اپنا کوئی جواز نہیں رکھتا ،، ھارون علیہ السلام مکمل نبی تھے ، امتی نبی نہیں تھے ،، اور نہ کوئی اور امتی نبی ھوا ھے ،،