کیا ھم دلیل کی جنگ ھار چکے ھیں؟

کیا ھم دلیل کی جنگ ھار چکے ھیں؟

March 6, 2013 at 3:25pm
حق اپنا وجود ھمیشہ دلیل سے ثابت کرتا اور باطل سے اس کے وجود کی دلیل طلب کرتا ھے ،، آسمانی کتابیں نازل ھی اسی مقصد سے کی جاتی ھیں اور انبیاء کو دلیل دینا سکھایا جاتا ھے ،، جو امت آسمانی کتاب کھو دیتی ھے وہ حقِ تبلیغ بھی کھو دیتی ھے ، کیونکہ اس کے پاس آلہ تبلیغ نہیں ھوتا ،،اسی وجہ سے مسلمان آج پوری دنیا میں بستر اٹھائے پھرتے ھیں جبکہ دیگر کسی مذھب کو تبلیغ کی اجازت نہیں دیتے ،، باطل چونکہ  بے دلیل ھوتا ھے ،لہٰذا وہ اپنی بنیاد جبر اور ظلم پر رکھتا ھے ،یہ سورہ البروج میں بہت واضح طور پر سمجھایا گیا ھے ،کہ باطل کو کیوں آگ کی خندقوں کی ضرورت محسوس ھوئی اور کیوں عتبہ بلال کو تپتی زمین پر لٹاتا تھا ،کیونکہ عتبہ ،ربیعہ اور ابو جہل کے پاس دلیل کی طاقت نہیں تھی ، قرآن حکیم میں 400 کے لگ بھگ آیات اوامر اور نواھی یعنی قانون کی ھیں باقی سارا قرآن دلائل سے بھرا پڑا ھے،جو وجودِ باری تعالی کے علاوہ توحید کے دلائل بھی دیتا اور کفار کو چیلنچ دیتا ھے ،کہ ھاتوا برھانکم ، لاؤ اپنے دلائل اگر تم سچے ھو !! آج اھلِ سنت اکثریت میں ھونے کے باوجود دلیل کی قوت سے محروم لگتے ھیں ،اور دلیل کی بجائے اے ۔کے 47 سے کام چلانے کی کوشش کر رھے ھیں- حق اپنے اندر زبردست  کشش اور طاقتور پیغام رکھتا ھے ،،،اسے اپنا پیغام پہنچانے کے لئے لوگوں تک رسائی اور وقت چاھئے،  یہ ھی وہ دو فائدے تھے تو امام الانبیاء نے حدیبیہ کے میدان میں اپنے ھاتھ سے محمد ﷺ رسول اللہ کاٹ کر محمد بن عبد اللہ لکھ کر حاصل کیے تھے، لوگوں تک بلا روک ٹوک رسائی اور وقت !! صحابہؓ کی جزباتیت کے باوجود اللہ نے اس سہولت کو فتح مبین قرار دیا ، اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ وہ کام جو 20 سال میں نہیں ھوا تھا وہ دو سال میں ھو گیا  اور لوگ فوج در فوج اسلام  میں داخل ھوئے، حدیبیہ میں اگر 1400 تھے تو 2 سال بعد 10،000 ھزار کا ایک لشکر مکہ میں فاتحانہ داخل ھو رھا تھا ،، کیا یہ باتیں صرف ممبر پر کہنے کو رہ گئی ھیں؟ عملی زندگی میں اسلام اپنا پیغام اور دلیل کھو چکا ھے؟ گالی دینے والے کے پاس کوئی دلیل نہیں اس لئے وہ کسی کے سامنے گالی دیتا بھی نہیں ،اور نہ ھی کوئی نفیس اور سلیم الطبع شخص گالی کو ثواب سمجھ سکتا ھے ،چاھے اس کا تعلق کسی بھی مذھب کے ساتھ ھو ،، الحمد للہ میں نے اپنی 52 سالہ زندگی میں ایک گالی بھی کسی شیعہ سے نہیں سنی ، شاید  خوش قسمتی سے میرا پالا سدا بہترین انسانوں سے ھی پڑا ، باقی میراثی ،اور بھانڈ نسل کا مولوی یا ذاکر دونوں طرف پائے جا سکتے ھیں، اور میراثی  اور گھٹیا انسان تو اپنی ماں ،بہن ،بیوی ،اور بیٹی ،بیٹے کو بھی گالیاں دیتے  ھیں ،،کسی کو دیں تو کیا گلہ ھے ،انکی وجہ سے کسی کمیونٹی کے قتلِ عام کا فتوی کوئی جاھل ھی دے سکتا ھے ،بریلوی میراثی ، دیوبندیوں کی ماں بہن منبر ِرسول پر ایک کر دیتا ھے اور اس کا وضو بھی نہیں ٹوٹتا ،، دیوبندی میراثی ،، بریلویوں کی ماں بہن کو گندی گالیاں دیتا اور ساتھ کہتا ھے بلند آواز سے کہوووووو سبحان اللہ ،، اصل میں دین معزز نسلوں اور قوموں سے نکل کر میراثیوں اور نیچ ذاتوں کے ھاتھ لگ گیا ھے ،اور رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ھے ،،اللہ پاک نے قومیں قبیلے بنائے ھیں تو انکی کچھ  خصوصیات بھی الگ الگ رکھی ھیں ، جسطرح ،چونسے اور سندھڑی کا فرق ھے ،،   بریلوی  دلیل کی جنگ اسی دن ھار گئے تھے جس دن انہوں نے ممتاز قادری کو اپنا ھیرو بنا لیا تھا ،اس دن انہوں نے اپنے قتلِ عام کا لائسنس طالبان کو دے دیا تھا کہ ،جس کو تم کافر سمجھو اسے مارنے کا تمہیں ای طرح حق ھے جسطرح ممتاز قادری کو سلمان تأثیر کو مارنے کا حق تھا ،، بس اس دن کے بعد پھر داتا صاحب اور پاک پتں پر انہوں نے مشرکوں کو مار کر عشقِ نبیﷺ کا حق ادا کیا ، تعجب کی بات یہ ھے کہ جس قانون کے دفاع میں سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا ،اس قانون پر خود ان لوگوں کو اعتبار نہیں  ،اگر اعتبار تھا اور وہ قانون اتنا ھی بے غبار تھا تو تم لوگوں نے سلمان کے خلاف 295،سی کے تحت مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا ؟ اور  اگر اعتبار نہیں تھا تو اسکی خاطر بندہ کیوں مارا؟؟ کوئی عقلی دلیل ھے تم لوگوں کے پاس؟ اسلام صراط مستقیم ھے اور  بھول بھلیوں سے نکلنے کا واحد رستہ ھے ،،اس کے باھر جس نے بھی رستہ تلاش کیا ھمیشہ بند گلی پہ جا کر کھڑا ھوگیا ، اور آج سارے فرقے بند گلی میں کھڑے ھیں ،کسی کے پاس حل نہیں ،،حل قرآن میں موجود ھے مگر ان سارے فرقوں کا قرآن سے کوئی لینا دینا نہیں سارے قرآن کو اپنے پیچھے چلاتے ھیں قرآن کے پیچھے چلنے اور قرآن کو امام بنانے کا کسی کا ارادہ نہیں ،، موجودہ حالات میں سے اگر نکلنا ھے تو سورہ توبہ میں ان تمام مسالک کے اختلافات کا حل موجود ھے ،،فھل من مدکر؟ اب جب عملماء آپس کے مسائل کو مجمعوں میں لے گئے اور علم کی بجائے کثرت اور طاقت کو  دلیل بنا لیا تو پھر ایسا ھوتا ھے کہ انسان حالات پیدا تو خود کرتا ھے مگر پھر حالات کا یرغمال بن جاتا ھے ،جسطرح ھاکس بے پر ڈوبنے والا  اپنی مرضی سے سمندر میں اترتا ھے ،،مگر پھر اپنی مرضی سے نکل نہیں سکتا ، سمندر کا اسیر ھوجاتا ھے ،،اسی طرح  علماء آج حالات کے اسیر ھیں اور دم سادھ کے اور جان بچا کے بیٹھے ھیں ،، اور مسلک کو بارودی مولویوں کے سپرد کر دیا ھے ، جس نے بھی فتوی بدلنے کی کوشش کی مار دیا گیا ، میرے پاس اس کی عملی مثالیں موجود ھیں ،، عام مسلمانوں سے گزارش ھے کہ ان قاتلوں کے لئے جواز نہ تراشیں اور نہ ان کا دفاع کریں ،، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ھینڈ دیں تا کہ وہ ان سے نمٹیں ، سیاسی رابطوں سے ان کو تحفظ فراھم نہ کریں ،  اسی میں ھر فرقے کی بہتری ھ
ے اور آئندہ نسلوں کی بقا اور ملکی سلامتی کا انحصار ھے، ورنہ تیری داستاں بھی نہ ھو گی داستانوں میں !