نیکی کا ادھورا تصور

مسئلہ نیک لوگوں اور نیکیوں کا نہیں، نیک لوگ پرانے زمانے کی نسبت زیادہ ہیں۔ پرانے زمانے میں بس چند بوڑھے داڑھی رکھتے تھے جبکہ اب داڑھی والے جوانوں کی بہتات ہے،پہلے گاؤں میں ایک جامع مسجد ہوتی تھی اب ہر مسجد جامع ہے اور ہر گلی میں مسجد ہے۔مسئلہ نیکی کا ادھورا تصور ہے شریعت ما انفع للناس نیکی کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ یعنی وہ نیکی جو لوگوں کے لئے نفع رساں ہو۔ذاتی نیکی حقیقت میں خود ہی بریانی پکا کر خود ہی کھا لینے کا نام ہے اگرچہ پورا محلہ فاقے سے ہو۔ بیوہ کا سر ننگا ہو اور مسجد میں تین انچ موٹا کارپٹ بچھانا نیکی نہیں نفاق ہے۔سورہ الماعون بتاتی ہے کہ اگر یتیم شفقت سے محروم ہو اور مسکین بھوکے پیٹ ہے تو پھر تم آخرت کے منکر ہو اور تمہاری نمازیں ریاکاری کے سوا کچھ نہیں۔اگر تم وعدے کا پاس نہیں رکھتے،امانت میں خیانت کرتے ہو۔ جھوٹ بولتے ہو اور بات ہے بات آپے سے باھر ہو جاتے ہو تو تم خالص منافق ہو۔ ولو صلی و صام و زعم انہ مسلم فھو منافق خالص۔ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو اور روزہ رکھتا ہو اور اسے زعم ہو کہ وہ مسلمان ہے جبکہ وہ خالص منافق ہے۔