نیکی اور بدی کے مضمرات اور الحاد کی نرسریاں

انسان جب بھی کوئی اچھائی یا برائی کرتا ھے تو اس کے پیچھے وہ پورا فلسفہ کام کرتا ھے جو اس کے دل دماغ میں انسٹال ھوتا ھے ، جس طرح آپ کا پرنٹر جب تک آپ کے پی سی پہ انسٹال نہ ھو کوئی کمانڈ نہیں لیتا ،، اس فلسفے کے پیچھے موجود سافٹ ویئرز اور اس کے ڈرائیورز تمام انسانوں میں یکساں ھوتے ھیں ، برائی کرتے وقت پہلے پہل اسے یہ احساس ھوتا ھے کہ یہ بُرا کام ھے ، اس کا کرنے والا برا ھے اور اس برائی کے نتائج نکلیں گے ،، اس احساس کے نتیجے میں وہ خود کو مجرم سمجھتا ھے اور خود کو گزارے مافق مسلمان ،ھندو ،یا عیسائی سمجھتا ھے ،، اس کا عملی ثبوت یہ ھے کہ وہ اللہ کا ، یا بھگوان کا یا گاڈ کا سامنا کرنے سے کتراتا ھے ، اس احساسِ کمتری کے تحت نہ اس سے مطالبات کرتا ھے ،اور نہ کسی مصیبت کے وارد ھونے پہ ،خدا یا بھگوان یا گاڈ کو کوستا ھے ، بلکہ ھمیشہ اپنے اعمال یا کرموں کو جواز سمجھتا ھے کہ میں اس قابل تھا کہ مجھے اس سے بھی سخت سزا دی جاتی مگر پھر بھی ھلکے پہ چھوٹ گیا ھوں یہ اللہ کا فضل ھے ، یا بھگوان کی کرپا ھے ،، گریٹ نیس آف مائی گاڈ ھے ! یہی احساس ھے کہ جس کے نتیجے میں ایک مسلمان اپنے مولوی ، ھندو اپنے سادھو اور عیسائی اپنے پادری یا فادر کے قدموں میں جاتا ھے کہ یہ اللہ کے قریبی لوگ ھیں ، یہ میرا کام کروا سکتے ھیں ، وہ ان ھی سے پانی دم کرواتا ھے ، ان سے ھی بچے کو پھونک مرواتا ھے اور ان سے ھی دعا کرواتا ھے ، تمام مذھبی رسوم میں اپنے مولوی ،سادھو اور پادری کو آگے آگے رکھتا ھے اور خود اس کے پیچھے پیچھے چھُپ کے چلتا ھے ،، یوں ایک مذھبی طبقہ وجود میں آتا ھے ،،،،
اگر بات یہاں تک رھتی تو بھی ٹھیک تھی مگر آگے چل کر یہ احساسِ جرم بھی دو حصوں میں بٹ جاتا ھے ،، جب گنہگار پہ اللہ کی رحمت ھوتی ھے ،، دولت کی بارش ھوتی ھے ،صحت و عافیت سے نوازا جاتا ھے تو ،، یہ ساری باتیں اس کے اندر اور باھر کی دنیا کے اصولوں کے خلاف ھوتا ھے ،، وہ ٹھٹک جاتا ھے ،گناہ کے بدلے مصیبت تک تو بات فطری لگتی تھی ،، مگر گناہ کے بدلے اتنی رحمتیں ؟ اس کا سینس آف جسٹس اس بات کو ھضم نہیں کر پاتا ،، ایک بچہ اسکول نہ آئے اور پھر ٹافی سے نوازا بھی جائے ، اسکول نہ آنے والے کو ڈنڈے پڑتے تو سب نے دیکھے ھیں مگر اسکول نہ آنے والے کو انعام میں موبائیل ملتے کسی نے نہیں دیکھا ،، پھر یہ کیا ھے ؟ یہاں آ کر وہ خدا کے وجود کا ھی انکار کر دیتا ھے ،، یہ کیسا خدا ھے جو نماز پڑھنے والے کو تو بھوکا مار رھا ھے ، اپنی تابعداری کرنے والے کو کچرے کے ڈرم سے اٹھا کر کھانے پہ مجبور کر رھا ھے ؟ جب کہ اپنے نافرمانوں ،ظالموں کے کتوں کو دودھ پہ پال رھا ھے ، ان کے یہاں دولت شراب اور شباب پہ لٹائی جا رھی ھے ،، وہ کنجریوں کو نوٹ بچھا کر ان پر نچاتا ھے مگر دولت ھے کہ ختم ھونے کا نام نہیں لیتی ،، اس کا سینس آف جسٹس یہ کہتا ھے کہ یہاں تک چھوٹے چھوٹے گناہ تو قابلِ برداشت تھے کیونکہ میں بھی اپنے بچوں کی بعض چھوٹی چھوٹی غلطیاں درگزر کرتا ھوں ،مگر ایک وقت آتا ھے کہ میں بھی ایکشن لیتا ھوں ،،پھر اگر خدا موجود ھے تو وہ میرے حرم کے اندر حطیم کے مقام پہ جیب کاٹنے پہ حرکت میں کیوں نہیں آیا ؟ مجھے فالج کیوں نہیں کردیا ، کم از کم اس ھاتھ کو تو مفلوج کیا جا سکتا تھا ؟ یہ ھے وہ مقام ،، وہ دلدل جہاں ھر مذھب کے اندر الحاد کا انڈہ خود انسان کا اپنا نفس دیتا ھے ، یہیں وہ لاروا اور پیوپا بنتا ھے ،، اور یہیں سے پر اور طاقتِ پرواز پاتا ھے،، حرم میں جیب کاٹنے والے ملحدین ھوتے ھیں ،، گوا اور بنارس میں جیبیں کاٹنے والے ھندو اپنے مذھب کے ملحدین ھوتے ھیں ،کیونکہ بھگوان کا پیدا کردہ وہ احساسِ انصاف جو اس کے ضمیر کے خلش پیدا کر رھا ھے اسے کہیں نظر نہیں آتا ،، وہ اس کا اظہار نہ کرے ،منہ سے کچھ نہ کہے مگر ایسے لوگوں کی اکثریت مذھب کو چھوڑ چکی ھوتی ھے وہ ھر عبادت اور شادی بیاہ طلاق اور جنازے کی رسموں کو بس سماجی رسم کے طور پہ ادا کر رھی ھوتی ھے ،، ایسے لوگوں کو سیدھا نماز روزے کی تلقین کرنا ، سود سے بچنے کی تلقین کرنا ،، رزقِ حلال کی ترغیب دینا عبث فعل ھے ،، یہ وہ لوگ تھے جن کا ذکر اللہ پاک قرآن حکیم میں جگہ جگہ کراتا ھے کہ ان کا کوئی علاج نہیں ھے ، ذالک بانھم آمنوا ثمہ کفروا ،،” المنافقون ” یہ اس وجہ سے ھے کہ وہ پہلے ایمان لائے اور کفر کر دیا ،، ولا یاتون الصلوۃ الا و ھم کسالی ،،یہ نماز میں نہیں آتے مگر سستی کے ساتھ ( پاؤں گھسیٹتے ھوئے جیسے بستہ ب کے مجرم تھانے حاضری لگانے آتے ھیں ) ولا ینفقون الا و ھم کارھون ،، اور نہ ھی خرچ کرتے ھیں مگر مجبوری کے طور پہ( مسلمانی کا ٹیکس سمجھ کر نہ کہ عبادت سمجھ کر ) سورہ توبہ !!
یہ لوگ اس وقت کے ملحدین تھے !!

نیکی کا ڈیپریشن !!
دوسری جانب نیک آدمی بھی بالکل اسی Sense of justice کے تابع نیکی کرتا ھے کہ وہ جب اللہ کے قریب ھو گا تو اللہ بھی اس کے قریب ھو گا ،، اگر وہ اللہ کی حمایت کرتا ھے تو اللہ بھی اس کی حمایت کرے گا ،، وہ اگر اللہ کے دشمنوں کو مٹا رھا ھے تو اللہ بھی اس کی مدد کرے گا ،، اپنے منکروں کو سزا دے گا یوں اس کا حق پر ھونا ثابت کرے گا ، جو اس کے ساتھ بد تمیزی کرے گا اللہ اس کو مفلوج کر دے گا ، جو دعا وہ کرے گا وہ جھٹ قبول کر لی جائے گی ، اس کی ھر کال کو اٹینڈ کیا جائے گا ! مگر ھوتا بالکل اس کے الٹ ھے !! اللہ دھڑا دھڑ کافروں کے گھر کافر بچے پیدا کیئے جا رھا ھے ،،کم از کم کافروں کی کمک تو روکی جا سکتی تھی تا کہ وہ پہلے کافروں سے نمٹ لے ، اور اولاد کی بندش سے کافروں میں سراسیمگی پھیل جاتی وہ اس کی بات کو سنجیدگی سے سنتے ،، مگر یہ کیا اور کیسا انصاف ھے کہ ھم جس کے سپاھی ھیں وہ خود ھاتھ پہ ھاتھ دھرے بیٹھا ھے ، الٹا اپنے منکروں کو نئے بچے ،نئی کھیپ نیا خون دے رھا ھے ، اور اسے ان کو مٹانے پہ لگا رکھا ھے جبکہ خود ان کو مٹنے نہیں دے رھا ،، بدی اور بدکار پھیلتے چلے جا رھے ھیں ،مومن اور ایمان مٹتے چلے جا رھے ھیں ،، وہ جوں جوں اسے راضی کرنے کی کوشش کرتا ھے وہ اُتنا ھی اس سے دور ھوتا ھے ،اس پر مشکلیں بھیجتا ھے ، اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ؟
ایک طرف اس کی اپنی نیکی اسے غبارہ بنا رھی ھوتی ھے تو دوسری طرف مصائب اس کی ذات کا رخ کر لیتے ھیں ،، نتیجے میں وہ پھٹ جاتا ھے ، پاگل ھو جاتا ھے ،، جنہیں رب پیدا فرما رھا ھوتا ھے وہ انہیں واپس رب کی طرف لے جانے کی بجائے مٹانے پہ تُل جاتا ھے ، یہ کیسا انصاف ھے کہ ایک بندہ ساری زندگی رب سے لڑتا رھے پھر توبہ کر لے تو اس کے نہ صرف گناہ معاف کر دیئے جائیں بلکہ گناھوں کے عوض نیکیوں سے اس کے پلڑے بھر دیئے جائیں ؟
یہ ھے وہ فتنہ ، خیر کا فتنہ ،، و نبلوکم بالشر والخیر فتنہ و الینا ترجعون ( الانبیاء ) اور ھمیں تمہیں شر اور خیر کے فتنے سے آزمائیں گے ، اور انجام کار دیکھنے کو تمہیں ھمارے پاس لوٹایا جائے گا !! اس کی ابتدا خوارج سے ھوئی تھی جنہیں اپنے سوا سارے کافر نظر آتے تھے ،، جن کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا تھا ” تم ان کی نمازوں کو دیکھو گے تو اپنی نمازیں تمہیں حقیر نظر آئیں گی ،، ان کی عبادت کو دیکھو گے تو اپنی عبادت کو کچھ نہ جانو گے ،، مگر یاد رکھو دین میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ھو گا ! پھر تو اس امت میں یہ فتنہ رہ رہ کر اٹھتا رھا اور بجھ بجھ کر بھڑکتا رھا ،، جن کی نیکی سے معاشرہ مستفید تو نہ ھوا مگر جن کی نیکی کے فتنے نے قوموں کی قومیں مٹا دیں اور معاشروں کو خون اور اشکوں میں ڈبو دیا !

یہ وھی باتیں ھیں جن کو ملحدین مختلف پوسٹوں کے ذریعے ،، مختلف بینرز اور مختلف ٹائیٹلز کے تحت بار بار نشر کرتا رھتے ھیں اور لوگ اس کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ھیں اور سمجھتے ھیں کہ مذھب کے پاس ان اعتراضات کا کوئی جواب نہیں ، جبکہ یہ اعتراضات قرآن میں جگہ جگہ کوٹ کر کے ان کا جواب دیا گیا ھے اور بتایا گیا ھے کہ ان اعتراضات کی تاریخ اتنی ھی پرانی ھے جتنی پرانی وحی اور نبوت ھے ،، ھر نبی اور اس کے پیروکاروں کو ان سوالات کا سامنا کرنا پڑا ، خاص طور پر کسی زمانے میں مکہ ان اعتراضات سے گھونجتا رھا ھے ،، نوح علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کو بھی ان سوالات کا سامنا کرنا پڑا ۔۔ اس سے پہلے کہ میں ان سوالات کے قرآنی جوابات پر تفصیلی روشنی ڈالوں ،، کچھ حضرات کے لئے عرض کرونگا کہ ان سوالات سے نظریں چرانا ،، اپنی اولاد سے ان کو چھپاتے پھرنا ،، اور سمجھنا کہ اولاد کو ان سے ناواقف رکھ کر ھم انہیں دین سے جوڑیں رکھیں گے ،، تو یہ مسئلے کا حل نہیں ھے ، وہ آج آپ کے تابع ھے کل کالج اور ہونیورسٹی چلا جائے گا ،، آج پاکستان میں ھے تو کل کنیڈا اور امریکہ چلا جائے گا جہاں وہ جسمانی طور پہ بھی آپ کی دسترس سے باھر ھو گا ،اگرچہ ذھنی طور پر آج بھی وہ پوری دنیا سے صرف ایک کلک کے فاصلے پہ ھے ،، پھر یہ سوالات اور وسوسے تقریباً ھر سوچنے والے فرد کے اندر اٹھتے رھتے ھیں ، اور بڑے حقیقی لگتے ھیں،، ھمیں اگر ان وسوسوں سے جانکنی کے عالم میں پالا پڑ گیا تو کیا کریں گے ؟ کیوں نہ ان کا سامنا بیچ میدان کے کیا جائے اور حقیقت جان کر ان کو اس طرح مسترد کیا جائے کہ پھر یہ زندگی میں کبھی ھمیں تنگ نہ کر سکیں ، ھم Face Value پہ ایک مومن کی زندگی جئیں اور ایک مومن کی موت مریں ،، والدین کی جانب سے ملنے والا وراثتی ایمان ان سوالات سے لرزتا اور منہ چھپاتا پھرتا ھے ، ھم یہ سمجھتے ھیں کہ اگر ھمارے پاس ان سوالات کا جواب نہیں تو اسلام کے پاس بھی ان کا جواب نہیں ،، ھم نے اپنی کم مائیگی کو دین کی کم مائیگی سمجھ رکھا ھے اور یہی ھماری سب سے بڑی غلطی ھے ، یاد رکھیں دیں کی بنیاد ان سوالات کے جواب پر قائم ھے ، یہ وراثتی مسلمانوں سے نہیں شروع ھوا بلکہ فردِ واحد سے اس کی ابتدا ھوئی ھے ،جس نے ھر سوال کا جواب دیا ھے ، ھر وسوسے کو دلیل کے ساتھ مسترد کیا ھے ، سوال کرنے والوں کو لاجواب کیا ھے اور یہ ساری روداد اللہ پاک نے قرآن کی صورت میں قیامت تک محفوظ کر دی ھے تا کہ کل کلاں کوئی حشر میں یہ نکتہ نہ اٹھا دے کہ جناب رسول کی عدم موجودگی میں ھمارے پاس ملحدین کے سوالوں کے جوابات نہیں تھے لہذا ھم ملحد ھو گئے تھے ،، ملحدین اور دھریئے کوئی نئ بات نہیں کہہ رھے بلکہ نئ بوتلوں میں پرانی شراب ھے ،، وہ ھمارے ذھن کے کیڑے ھی پکڑ کر انہیں سانپ بنا کر ھمیں ڈرا رھے ھیں ،، یہ سانپ فرعون کی جادوگروں کی سی جادوگری ھے جہاں رسیاں تو حقیقت تھیں مگر سانپ جعلی تھے اسی طرح یہ سوالات تو ھمارے اندر پیدا ھونا ایک حقیقت ھے مگر ان کو سانپ بنانا ملحدین کی صنعت ھے !
بعض فائلز کسی مخصوص فارمیٹ پہ ھی کھُلتی ھیں جہاں آپ کو آپشن دیا جاتا ھے کہ Open With ,,, آج ھم ان سوالات کو اپنے خوفزدہ ایمان پہ نہیں بلکہ اللہ کے قرآن پہ کھول کر دیکھیں گے ،،
———————————————————————————————————————————————————-