قوموں کی مشابہت اور اسلام ۔ من تشبہ بقوم فھو منھم ـ

من تشبہ بقومٍ فھو منھم ! کا جس بے دردی سے استعمال ھم کر رھے ھیں شاید کسی قوم نے نہیں کیا ھو گا !
پہلی بات یہ کہ اس حدیث کے کئ ٹکڑے کئے گئے ھیں جن میں سے ایک ٹکڑا یہ ھے،، پورا متن کچھ اس طرح ھے ‘عن ابن عمرؓ قال رسول اللہ ﷺ بُعِثتُ بین یدی الساعۃ بالسیف،حتی یُعبداللہ وحدہ لا شریک لہ و جعِلَ رزقی تحت ظلۜ رُمحی،و جُعلَ الذلۃ والصغارَ علی من خالف امری و من تشبہ بقومٍ فھو منھم ۔۔،،(مسند احمد 5114-5115 ) پوری حدیث جنگی قوانین سے بحث کر رھی ھے،، میں قیامت سے پہلے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ھوں( یعنی میں دوسرے نبیوں کی طرح بس تبلیغ کر کے نہیں رہ جاؤں گا ،میں تلوار کا استعمال کروں گا) یہانتک کہ گواھی دے دی جائے کہ اللہ وحدہ لا شریک کے ساتھ کوئی شریک نہیں، میری روزی میرے نیزے کے سائے میں رکھ دی گئ ھے (یعنی نبیوں کی تاریخ میں پہلی بار مال غنیمت حلال کیا گیا ھے ) جس نے میری مخالفت کی اللہ نے ذلت اور رسوائی اس کے حق میں لکھ دی ھے اور ( دورانِ جنگ اگر کسی دوسری قوم کا بندہ اپنے متشابہ حلئیے کی وجہ سے مارا گیا تو ھم اس کا نہ قصاص دیں گے نہ فدیہ کیونکہ) جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ ان میں سے ھی گنا جائے گا ! بزرگوں نے جب دیکھا کہ من تشبہ سے جو مطلب وہ لینا چاھتے ھیں پوری حدیث لکھی گئ تو وہ مطلب ثابت نہیں ھوتا تو انہوں نے بقیہ حصہ ذکر کرنا ھی چھوڑ دیا یوں صرف من تشبہ بقوم فھو منھم کو پروموٹ کیا گیا اور وھی لوگوں کی زبان پر چڑھ کر ایک اصول بن گیا – اگر اسی طرح لا تقربوا الصلوۃَ کے ٹکڑے کیئے جائیں تو پہلے ٹکڑے کا مطلب یہی نکلتا ھے کہ ایمان والو نماز کے قریب بھی نہ پھٹکو ( اگر تم نشے میں ھو ) اس سے مشابہت سے مراد اعمال کی مشابہت بھی ھے اور لباس کی مشابہت بھی ھے،، اب اگر لباس پر اس کا اطلاق کیا جائے تو سب سے پہلے پینٹ شرٹ سے نہیں بلکہ شلوار قمیص اور جیکٹ شیروانی اور قراقلی سے شروع کرنا چاھئے کہ یہ کس کا لباس ھے؟ کیا محمد بن قاسم فوج کے ساتھ لنڈے کے بورے بھر کر شلوار قمیص اور شیروانیاں بھی لایا تھا ؟ یہ شلوار قمیص اور جیکٹ شیروانی راجپوتوں کا لباس ھے ھندوؤں کا لباس ھے،، اور صرف کتابوں میں نہیں پایا جاتا،ھندوستان کا راجپوت آج بھی یہی لباس پہنتا ھے،، واجپائی،وی پی سنگھ ،جسونت سنگھ ،، چوھدری چرن سنگھ،، کی تصاویر آج بھی آپ کو شیروانی اور جیکٹ میں مل جائیں گی،، وی پی سنگھ تو قراقلی بہت کم اتارتا تھا
گویا وہ لباس جسے آج کل علماء بہت اھتمام کے ساتھ زیب تن کرتے ھیں وہ اسلام کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ راجپوتانہ ھندو کلچر کی نمائندگی کرتا ھے،مگر یہاں ایک اصول متعارف کرایا جاتا ھے کہ ‘ جب کوئی لباس ھر قوم پہننا شروع ھو جائے تو پھر وہ کسی مخصوص قوم کا لباس نہیں رھتا بلکہ سب کا مشترکہ کلچر بن جاتا ھے،چونکہ مسلمان بھی شلوار قمیص اور جیکٹ شیروانی کثرت سے پہنتے ھیں لہذا اب اس میں سے تشابہ کا عنصر ختم ھو گیا ھے،، بس تھوڑی سی وسعتِ قلبی اور وسعتِ ںظری اختیار کر کے اس دفعہ سے دوسروں کو بھی استفادہ اختیار کرنے دیجئے ، یہی دفعہ پینٹ شرٹ اور ٹائی پر بھی لاگو ھوتی ھے،اب یہ کسی خاص قوم کا لباس نہیں بلکہ بین الاقوامی اور ھر قوم کا مشترکہ لباس بن چکا ھے،، مصر کا قومی لباس پینٹ شرٹ اور ٹائی ھے،، الازھر میں ٹائی مفتی کے لباس کا لازمی جزو قرار پائی ھے،، ٹائی کا کوئی مذھبی بیک گراؤنڈ نہیں ھے،یہ سرد علاقوں کی ضرورت ھے،،گردن موٹی ھو جانے سے قمیص کا اوپر کا بٹن باندھنا پھانسی لینا بن جاتا تھا،اس کے لئے چائنا والوں نے کپڑے کی یہ چیز ایجاد کی تھی تاکہ بدصورتی بھی نہ ھو اور گلا حسبِ ضرورت ایڈجسٹ کر لیا جائے،، فرانس والوں نے کلپ ٹائپ نیکٹائی ایجاد کی مگر مقصد عمرانی ضرورت تھی،مذھب کا اس کے ساتھ کوئی تعلق کسی ملک میں بھی نہیں رھا،،
خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ نے مصر کے دارالخلافے کا محاصرہ کیا ھوا تھا،، آپ کو مخبروں نے اطلاع دی کہ شہر کا شہر مسلمان ھونے کو بیتاب ھے مگر انہیں یہ فکر کھائے جا رھی ھے کہ ایک ترقی یافتہ قوم صحراء کے بدوؤں کا کلچر کیسے اختیار کرے گی،، یہ سن کر آپ نے شہر کے تمام رؤساء کی دعوت کا انتظام کیا،، خود بھی مصری لباس پہنا،، باورچیوں کو بھی مصری باورچیوں کا سا رسمی لباس پہنایا اور کھانے بھی خالص مصری انداز کے پکائے،دسترخوان تک کی ھیئت میں مصری انداز اختیار کیا ،، مصری رؤساء جب دعوت میں آئے تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، انہیں لگا گویا وہ کسی مصری تقریب میں ھی شریک ھیں،، کھانا کھانے کے بعد خالد بن ولیدؓ نے چھوٹا سا خطاب فرمایا جس میں ارشاد فرمایا ” مصر والو، جب ھم تم میں آئیں گے تو تمہارا لباس اور کلچر اختیار کریں گے،مصر میں ھم یوں ھونگے جیسا کہ تم نے ھمیں دیکھا ھے، صحراء میں ھم یوں ھونگے جیسا کہ تم نے ھمارے بارے میں سنا ھے اور میدان جنگ میں ھم یوں ھونگے جیسا کہ تم نے ھمیں آزمایا ھے،، فیصلہ تمہارا اپنا ھے،، اگلے دن شہر نے خالد ابن ولیدؓ کے لئے دروازے کھول دیئے !
دنیا اب ایک گاؤں بن چکی ھے اور ملک محلوں میں تبدیل ھو چکے ھیں،تعلیمی اور مالی تعامل نے لوگوں اور کلچروں کو ایک دوسرے میں یوں مدغم کر دیا ھے کہ لوگ اسے عمرانی اور سماجی پسِ منظر میں دیکھتے ھیں،مذھبی پسِ منظر میں نہیں،، تشابہ کی تلوار کو میان میں ھی رکھا جائے تو بہتر ھے اور اس کا اطلاق کردار پر کیا جائے تو بھی کچھ مناسب ھو گا ،،، مثلاً قوم لوط کے فعل کا مرتکب قوم لوط کے مشابہ ھے،، اگرچہ وہ بیوی کے ساتھ ھو،، متکبر فرعون و نمرود کے ساتھ -زکوۃ کا منکر قارون کے ساتھ،، حق پہچان کر انکار کرنے والا ابوجہل کے ساتھ،، دین میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی فکر اور بڑے بڑے گناھوں کا ارتکاب کرنے والا یہود کے مشابہ،، وغیرہ وغیرہ !

ساجد حمید صاحب کا تجزیہ !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

من تشبہ بقوم فھو منھم ـ

مرد کی داڑھی اور عورت کی بھنویں !!
داڑھی مشت سے کم رکھنے والوں پہ عام طور پر کافروں کی مشابہت کی دفعہ لگائی جاتی ہے ، جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہود کی مخالفت میں جوتوں سمیت نماز جماعت کے ساتھ پڑھائی ھے اور صحابہؓ نے بھی جوتوں سمیت پڑھی ھے ، یہاں ذرا جوتوں سمیت پڑھ کر دیکھئے یا جوتوں سمیت صرف مسجد میں گھس کر دیکھئے مسجد تو مسجد ،کھیتوں میں پڑھے جانے والے جنازے میں بھی جوتے پہن کر کھڑے ھوں تو جاھل سب کے سامنے بے عزت کر دیتے ہیں ،، حالانکہ جنازہ نماز نہیں دعائے جنازہ ھے ،صلاۃ دعا کو بھی کہتے ہیں اور قرآن کریم میں جگہ جگہ صلاۃ کو دعا کے لئے استعمال کیا گیا ہے ـ الغرض جہاں مشابہت کا اطلاق کر کے رسول اللہ ﷺ نے عملا دکھا دیا اس پر عمل نہیں کرتے ،، البتہ داڑھی اور کپڑوں کو خواہ مخواہ مشابہت میں شامل کر لیتے ہیں ، شلوار قمیص ،شیروانی اور واسکٹ ھندو چوھدریوں اور راجوں کا لباس ہے صحابہ کا لباس نہیں ،، مگر یہاں مشابہت نہیں ھوتی ، داڑھی کاٹنا سکھوں کے یہاں جرم اور رکھنا فرض ھے ، ھم نے ان کی مشابہت میں بالکل داڑھی کو فرض بنا لیا ہے ،،

محدثین نے جب ایک مکمل حدیث کو توڑ کر اسکریپ کی شکل دی اور اس میں سے اسپئر پارٹس لے کر اپنے اپنے عنوان دیئے تو بات کو مزید گھما دیا ،،کسی خطاب میں جو مرکزی نقطہ ھوتا ھے ھر جملہ اور ھر مثال ، ھر وعدہ اور ھر وعید اسی سے متعلق ھوتی ھے ،،مگر جب آپ اس جملے کو مرکزی نقطے سے الگ لے جا کر ٹانک دیتے ھیں تو پھر وہ خود مرکزی نقطہ بن جاتا ھے ،،

من تشبہ بقومٍ فھو منھم ،، کو ایک مکمل حدیث کے طور پر پیش کیا جاتا ھے گویا حضورﷺ نے جب یہ حدیث بیان کی تو آپ کی گفتگو کا مرکزی موضوع ھی تشبہ بالکفار تھا ، اور آپ ﷺ مسلمانوں کو اس مشابہت سے روک رھے تھے ،،، اور پھر علماء نے اسی کو مرکزی موضوع قرار دے کر لمبی چوڑی کتابیں تصنیف فرما دیں ، اور مختلف چیزوں کو تشبہہ بالکفار کہہ کر ان پر فتوؤں کی چاند ماری کی گئ ،، مگر اسی جملے کو واپس اس حدیث میں لے کر دیکھئے تو آپ کا پتہ چلے گا کہ تشبہہ بالکفار سرے سے گفتگو کا موضوع ھی نہیں تھا اور نہ ھی اللہ کے رسول ﷺ اس وقت لباس یا کلچر کی مشابہت کو موضوع بنا کر گفتگو فرما رھے تھے ،،

آپ ﷺ کی گفتگو کا موضوع جہاد کے قوانین تھے ، انہیں کے دوران آپ نے فرمایا کہ جب ھم کسی قوم پر حملہ آور ھوں اور اس قوم میں کوئی ایسا آدمی مکس اپ ھے جو کسی دوسرے ایسے قبیلے سے تعلق رکھتا ھے جس سے ھماری جنگ نہیں یا اس کے ساتھ ھمارا کوئی امن کا معاہدہ ھے ، تو اگر وہ مشتبہ بندہ بھی اس یلغار میں مارا گیا ھے تو ھمارے ذمے نہ تو اس کا قصاص ھے اور نہ دیت ھے ،کیونکہ وہ ھمارے دشمنوں میں مکس اپ تھا اور ھمارے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں تھا کہ جس کے ذریعے ھم اس کو جان کر الگ کر سکتے ، اس کو اس قوم میں نہیں ھونا چاھئے تھا ،، اس حدیث میں تشبہ اصل میں مکس اپ ھونے کے معنوں میں استعمال ھوا ھے ،،

عورتوں کے ابرو بنانے کی حدیث کے ساتھ بھی یہی واردات ھوئی ھے ، پوری حدیث میں ابرو کو رکھ کر دیکھ لیجئے وھاں صاف نظر آ رھا ھے کہ اللہ کے رسولﷺ کی گفتگو کا موضوع ” طوائفیں ” ھیں جو بن سنور ی گاھک پٹانے نکلتی ھیں ، مائل ھوتی ھیں اور مائل کرتی ھیں ، بال اونٹ کی کوھان کی طرح کر کے نکلتی ھیں ،ابرو بناتی اور مرد پھنساتی ھیں ، ان کی سرینوں پہ شیطان بیٹھا ھوتا ھے جو ھر نظر ڈالنے والے کو ٹریپ کرتا ھے ،،،، اس روایت میں سے ابرو کو نکال کر گھریلو عورتوں پر اطلاق کرنے والوں پہ جب خود اپنے اوپر نفاق کا اطلاق کیا جائے تو بلبلا اٹھتے ھیں کہ نہیں جناب اس سے وہ والا منافق مراد نہیں ھے ،، اعتقادی منافق مراد نہیں ھے ،، عملی منافق اور ھیں اعتقادی منافق اور ھیں ،، ھم بھی آپ سے یہی گزارش کرتے ھیں کہ طوائفوں کا بال بنانا ، ابرو بنانا ، اعتقادی چیز ھے نیت ھی جب بری ھے تو ان کا ایک ایک قدم گناہ ھے ،مگر آپ ان نشانیوں کو گھریلو عورت پہ تھوپ کر جب اسے لعنت کا مستحق ٹھہراتے ھیں تو کونسے
دین کی خدمت کرتے ھیں ؟ انما الاعمال بالنیات نہیں ھے ؟

ایک لڑکی کی کل پرسوں شادی ھے ، اس کے ابرو مردوں کی طرح ھیں گھر والے اصرار کرتے ھیں کہ وہ انہیں ھلکا کر لے مگر وہ کہتی ھے کہ اللہ کی لعنت ھوتی ھے ، اللہ کی لعنت ان پر نہیں ھوتی جنہوں نے ھزاروں مسلمان تہہ تیغ کر دیئے ھیں اور چند بال اکھاڑ پھینکنے والی پر اللہ کی لعنت ھو جائے گی ، جب زینت عورت کا حق ھے اور اللہ کا حکم ھے ،، اور اسے اپنے شوھر کے لئے اس کی اجازت ھے ،،زنا کرنے والی کو صرف سو کوڑا اور پھر وہ بخشی بخشائی ،مگر ابرو اکھاڑ پھینکنے والی پر اللہ کی لعنت بلکہ خوشبو لگانے والی پر بھی اللہ کی لعنت ،، عورت نہ ھو گئ اڈیالہ جیل کی قیدی ھو گئ ،،

ابن شیبہ رحمہ اللہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عن ابن عمر، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ جعل رزقی تحت رمحی وجعل الذلۃ والصغار علی من خالف أمری، من تشبہ بقومٍ فہو منہم. (رقم ۳۳۰۱۶، ۶/ ۴۷۱)
’’ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا رزق میرے نیزے کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور جو میری مخالفت کرے گا اس کے لیے ذلت اور میری ماتحتی لکھ دی ہے، جس نے کسی قوم کی مشابہت کی، وہ ان میں سے ہو گا۔‘‘
مسند احمد بن حنبل کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعثت بالسیف حتی یعبد اللّٰہ لا شریک لہ، وجعل رزقی تحت ظل رمحی، وجعل الذلۃ، والصغار علی من خالف أمری، ومن تشبہ بقوم فہو منہم.(رقم۵۱۱۴)
’’ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے۔کہ میں تلوار کے ساتھ جہاد کروں حتیٰ کہ صرف اللہ ، جس کا کوئی شریک نہیں کی عبادت کی جائے۔ میرا رزق میرے نیزے کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور جو میری مخالفت کرے گا، اس کے لیے ذلت اور میری ماتحتی لکھ دی ہے، جس نے کسی قوم کی مشابہت کی، وہ ان میں سے ہو گا۔‘‘

اسی طرح عورت کے چہرے کے کسی حصے سے بھی بال اکھاڑنے کے بارے میں مالکیہ حنفیہ اور شافعیہ علماء کے نزدیک یہ ممانعت اجنبی مردوں کے لئے زیب و زینت اختیار کرنے کی وجہ سے ھے ، اپنے شوھر کے اپنے چہرے کو صاف کرنے سے کسی نے منع نہیں کیا ،، حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ایک عورت نے آ کر پوچھا کہ کیا میں اپنے شوھر کے لئے اپنے چہرے کے بال اکھاڑ سکتی ھوں تو آپؓ نے فرمایا تو اس گند کو جتنا اتار سکتی ھے اتار دے ،، جہاں تک تعلق ھے کہ عورت کے بھنوؤں کے بال اتارنے سے رب کی تخلیق میں تبدیلی ھوتی ھے ، ان سے گزارش ھے کہ یہ بال تو ھفتے دس دن میں پھر آ جاتے ھیں ،، یہ جو ختنہ کرتے ھیں اور اللہ کی تخلیق کا بیڑہ غرق کر دیتے ھیں اصلی بگاڑنا تو اس کو کہتے ھیں ،جبکہ دوسری حدیث بیان کرتی ھے کہ قیامت کے دن اللہ لوگوں کے ساتھ وہ ختنے والا گوشت بھی پھر جوڑ دے گا اور لوگ غیر مختون اس کے سامنے کھڑے ھونگے ،، تو جب اس نے چمڑی کے ساتھ بھیجا اور چمڑی کے ساتھ اٹھائے گا تو آپ نے یہ چمڑی چوری ھی کیوں کی ؟ پھر شوافع تو لڑکی کے بھی ختنے کراتے ھیں ، بال اتارے تو اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ھو جائے اور آپ اس کا ختنہ بھی کر دو تو خلقت اسی طرح برقرار رھے ؟

ختنے کے عمل سے یہ ثابت ھوا کہ تبدیل خلقت کا لفظ رسول اللہ ﷺ کا نہیں بلکہ راوی کا اپنا وضاحتی بیان ھے جس کو بریکٹ میں ھونا چاھئے تھا ، تبدیل خلقت جیسے اھم لفظ کو بھنوؤں کے بالوں تک محدود کر دینا نبئ کریم ﷺ کا ویژن ھر گز نہیں ھو سکتا کیونکہ سورہ نساء میں یہ لفظ شرک کرنے ، جانوروں کو اللہ کے بجائے مخلوق کے آگے قربان کرنے ، ان پر مختلف نشان بنا کر غیراللہ کے نام پر مختص کرنے اور اللہ کی بجائے شیطان کی غلامی کرنے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ھے – سنت میں بچے کے سر کے بال کاٹنے کا ذکر ھے اگرچہ وہ بچہ ھو یا بچی اسی طرح بچے اور بچی دونوں کے ختنے کا ذکر ھے ،اگر ان کو تبدیل خلقت نہیں کہا گیا تو پھر اس معاملے کو بھی تبدیل خلقت رسول اللہ ھر گز نہیں کہہ سکتے ، یہ محترم راوی کا اپنا فہم اور اپروچ ھے ،، (
وَلأُضِلَّنَّهُمْ وَلأُمَنِّیَنَّهُمْ وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ آذَانَ الأَنْعَامِ وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّهِ وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْطَانَ وَلِیّاً مِّن دُونِ اللّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَاناً مُّبِیناً .النساء-119 ))
اور انھیں گمراہ کروں گا _ امیدیں دلاؤں گا اور ایسے احکام دوں گا کہ وہ جانوروں کے کان کاٹ ڈالیں گے پھر حکم دوں گا تو الله کى مقررہ خلقت کو تبدیل کردیں گے اور جو خدا کو چھوڑکر شیطان کو اپنا ولى اور سرپرست بنا ئے گا و ہ کھلے ہوئے خسارہ میں رہے گا_

( وأجاز المالكية والحنفية والشافعية والحنابلة ما لو فعلته المرأة لتتزين به لزوجها بإذنه، فإن كانت صغيرة لا زوج لها، أو توفي عنها زوجها، أولم يأذن زوجها، أوتفعله لتتزين به للأجانب ، فلا يجوز.
قال الشيخ النفراوي المالكي : وَالتَّنْمِيصُ هُوَ نَتْفُ شَعْرِ الْحَاجِبِ حَتَّى يَصِيرَ دَقِيقًا حَسَنًا، وَلَكِنْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا جَوَازُ إزَالَةِ الشَّعْرِ مِنْ الْحَاجِبِ وَالْوَجْهِ وَهُوَ الْمُوَافِقُ لِمَا مَرَّ مِنْ أَنَّ الْمُعْتَمَدَ جَوَازُ حَلْقِ جَمِيعِ شَعْرِ الْمَرْأَة مَا عَدَا شَعْرَ رَأْسِهَا، وَعَلَيْهِ فَيُحْمَلُ مَا فِي الْحَدِيثِ عَلَى الْمَرْأَةِ الْمَنْهِيَّةِ عَنْ اسْتِعْمَالِ مَا هُوَ زِينَةٌ لَهَا كَالْمُتَوَفَّى عَنْهَا وَالْمَفْقُودِ زَوْجُهَا . اهـ الفواكه الدواني
قال العلامة ابن عابدين الحنفي :النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بُعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين إلا أن يُحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. اهـ حاشية ابن عابدين
وقال الشيخ سليمان الجمل الشافعي : وَيَحْرُمُ أَيْضًا تَجْعِيدُ شَعْرِهَا وَنَشْرُ أَسْنَانِهَا … وَالتَّنْمِيصُ وَهُوَ الْأَخْذُ مِنْ شَعْرِ الْوَجْهِ وَالْحَاجِبِ الْمُحَسَّنِ فَإِنْ أَذِنَ لَهَا زَوْجُهَا أَوْ سَيِّدُهَا فِي ذَلِكَ جَازَ لَهَا ؛ لِأَنَّ لَهُ غَرَضًا فِي تَزَيُّنِهَا لَهُ كَمَا فِي الرَّوْضَةِ وَأَصْلِهَا وَهُوَ الْأَوْجُهُ وَإِنْ جَرَى فِي التَّحْقِيقِ عَلَى خِلَافِ ذَلِكَ فِي الْوَصْلِ وَالْوَشْرِ فَأَلْحَقَهُمَا بِالْوَشْمِ فِي الْمَنْعِ مُطْلَقًا . اهـ حاشية الجمل
وقال العلامة ابن مفلح الحنبلي في كتاب الفروع : وَأَبَاحَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ النَّمْصَ وَحْدَهُ ، وَحَمَلَ النَّهْيَ عَلَى التَّدْلِيسِ، أَوْ أَنَّهُ كَانَ شِعَارَ الْفَاجِرَاتِ. وَفِي الْغُنْيَةِ يَجُوزُ بِطَلَبِ زَوْجٍ . وَلَهَا حَلْقُهُ وَحَفُّهُ، نَصَّ عَلَيْهِمَا وَتَحْسِينُهُ بِتَحْمِيرٍ وَنَحْوِهِ، وَكَرِهَ ابْنُ عَقِيلٍ حَفَّهُ كَالرَّجُلِ، كَرِهَهُ أَحْمَدُ لَهُ، وَالنَّتْفَ وَلَوْ بِمِنْقَاشٍ لَهَا .اهـ
وقال ابن حجر : قال النووي: يستثنى من النماص ما إذا نبت للمرأة لحية أو شارب أو عنفقة فلا يحرم عليها إزالتها بل يستحب. قلت: وإطلاقه مقيد بإذن الزوج وعلمه، وإلا فمتى خلا عن ذلك منع للتدليس.
وقد أخرج الطبري من طريق أبي إسحاق عن امرأته أنها دخلت على عائشة وكانت شابة يعجبها الجمال فقالت: المرأة تحف جبينها لزوجها فقالت: أميطي عنك الأذى ما استطعت. والله أعلم )

سورس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیروانی اور واسکٹ –

کوئی چوھدری صاحب اپنی شیروانی کے لئے بہت ھی قیمتی کپڑا لے کر آئے ، شنید تھی کہ درازی کپڑا نکال لیتے ھیں اور خاص طور پر جب کپڑا نہایت قیمتی ھو تو خطرہ بھی 220 وولٹ سے بڑھ کر 11 ھزار وولٹ تک چلا جاتا ھے ، لہذا چوھدری صاحب نے طے کر لیا کہ وہ شیروانی کی کٹائی تک ضرور درزی کے پاس بیٹھیں گے اور اپنی نظروں کے سامنے شیروانی کٹوا کر باقی کپڑا لے جائیں گے،،،

درزی نے جب چوھدری صاحب کو سر پر سوار دیکھا تو اپنی مہارت دکھانے کا فیصلہ کر لیا ، اس نے چوھدری صاحب کو ایک قصہ سنانا شروع کیا ،، قصہ ختم ھوا تو چوھدری صاحب بولے واہ بھئی واہ ،، مزہ آ گیا ھے ،، درزی نے دوسرا قصہ شروع کر دیا ،، قصہ جب ختم ھوا تو چوھدری صاحب کی شیروانی کی کٹائی بھی تقریباً مکمل ھو چکی تھی ،، چوھدری صاحب نے اصرار شروع کر دیا کہ مزید کوئی اور قصہ سناؤ – درزی نے کہا ” چوھدری صاحب قصوں کی میرے پاس کوئی کمی نہیں مگر پیچھے پھر صرف واسکٹ ھی رہ جائے گی ،،

حدیث جب مکمل تھی تو” من تشبہہ بقومٍ فھو منھم ” کا مطلب کچھ اور تھا ،یعنی جو جس قوم سے مشابہ ھو گا اس کو ان کے ساتھ ھی سمجھا جائے گا – یہ پوری حدیث نبئ کریم ﷺ کا ایک جنگی خطبہ ھے جس میں آپ ﷺ اپنی جنگی پالیسی اور اس کے بعض قانونی پہلو بیان فرما رھے ھیں ،جن میں سے یہ بھی تھا کہ اگر ھم اپنے کسی دشمن قبیلے پر یلغار کرتے ھیں ، اور وھاں کوئی ھمارے حلیف قبیلے کا یا اس قبیلے کو کوئی بندہ ھوا جس کا ھمارے ساتھ امن کا معاہدہ ھے اور وہ بندہ وھاں ھمارے ھاتھوں مارا گیا تو ھم نہ تو اس مقتول کا قصاص دیں گے اور نہ ھی اس کا فدیہ دیں گے بلکہ اس کا خون مباح ھو گا – اس لئے کہ جو کسی قوم میں گڈمڈ ھو گا وہ انہیں میں سے سمجھا جائے گا – (جنگ میں شناختی کارڈ دیکھنے کا وقت نہیں ھوتا -)
((ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بیان کردہ یہ حدیث مسند احمد بن حنبل رحمہ اللہ میں یوں روایت ہوئی ہے:
عن أبی منیب الجرشی، عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعثت بالسیف حتی یعبد اللّٰہ لا شریک لہ، وجعل رزقی تحت ظل رمحی، وجعل الذلۃ، والصغار علی من خالف أمری، ومن تشبہ بقوم فہو منہم.(رقم۵۱۱۴)
ابن عمرہی کی روایت سے یہ حدیث جب امام ابو داؤد رحمہ اللہ اپنی سنن کی ’’کتاب اللباس‘‘ میں لائے، تو چونکہ اس کے بعض جملے ’’کتاب اللباس‘‘ سے میل نہیں کھاتے تھے، لہٰذا انھوں نے وہ جملے محذوف کردیے اور آخری جملہ نقل کرنے پر اکتفا کیا۔
عن أبی منیب الجرشی، عن ابن عمر، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم.(رقم ۴۰۳۱)
مگر جب اس کو مختصر کیا گیا تو پورے خطبے میں سے اس ایک جملے کو پکڑ کر اودھم مچا کر رکھ دیا گیا ،کہیں کسی کی پینٹ قمیص پر اور کہیں اس کے سر کے بالوں کو اور کہیں کسی کے رسم و رواج کو تاک تاک کر نشانہ بنایا جا رھا ھے کہ من تشبہ بقومٍ فھو منھم ،، کوئی پوچھے سرکار آپ کے ختنے یہود کے مشابہ اور داڑھیاں سکھوں کے مشابہ ھیں تو کیا یہ مشابہت میں شمار ھو گا ؟ یوں ظاھر کیا گیا جیسے رسول اللہ ﷺ نے نشابہہ کو موضوع بنا کر خاص خاص قسم کی شکل و صورت اور لباس کو ھی ٹارگٹ کیا ھے ،جبکہ نبئ کریم ﷺ کو خیال بھی نہ آیا ھو گا کہ بعد والے اس جملے کو کدھر کا کدھر لے جائیں گے –

حدیث میں کہا گیا کہ ” لباس پہن کر ننگا رھنے والیاں ، سر کے بال اونٹ کے کوھان کی طرح بنا کر رکھنے والیاں بھنویں بنا کر رکھنے والیاں اور مائل ھونے والیاں مائل کرنے والیاں ، ان پر اللہ لعنت ھو ،،،

یہ سیدھا سیدھا پیشہ ور عورتوں کا بیان ھے ، ایک طوائف کا اسکیچ بیان کر دیا گیا ھے ، ایک طوائف کی ان ساری صفات میں سے بھنویں بنانے کو نکالا گیا اور گھریلو عورتوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ،، چاھے وہ عورت نیک پاکباز اور تہجد گزار ھو ،، بس بھنویں سیدھی کر کے وہ جھنم میں چلی جائے گی ،، اگر اس کی 99 نیکیوں میں اس کو جنت لے جانی کی طاقت نہیں اور اس چھوٹی سے بات کی اتنی طاقت ھے کہ جھنم میں کھینچ لے جائے تو سرکار پھر ایسی کمزور نیکیاں کوئی کرے گا کیوں ؟

حدیث میں کہا گیا کہ جس نے تکبر سے تہبند کو گھسیٹا اللہ پاک اس کو رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا ،، یار لوگوں نے فٹے لے کر گٹے ناپنا شروع کر دیئے اور یہ نہ دیکھا کہ متعلقہ بندہ تکبر کی وجہ سے کپڑا گھسیٹ رھا ھے یا یونیفارم کا حصہ ھونے کی وجہ سے مجبور ھے –

حدیث میں ایک ٹولی کا انجام بیان کیا گیا کہ ” میری امت کے کچھ لوگ شراب پی کر گانے والیوں میں بدمست ھونگے کہ اسی حال میں اللہ پاک ان کو زمین میں دھنسا دے گا –

اس حدیث میں سے شراب اور زنا کو نہایت مہارت سے نکال کر گانے والیوں کو لے کر گانے کی حرمت اور اس پر عذاب بیان کرنا شروع کر دیا ،حالانکہ وھاں فسق و فجور کی محفل جمی تھی جس میں شراب خون کو گرم کر رھی تھی تو مغنیات لٹک مٹک کر آگ بھڑکا رھی تھیں اور پھر زنا کی صورت بجھا بھی خود ھی رھیں تھیں ،،کہ اللہ پاک کا غضب بھڑکا جس کی لپیٹ میں وہ لوگ آ گئے ،، ظاھر ھے کہ ایسی مجلس میں گانا ھی نہیں بلکہ تکہ کباب کھانا بھی حرام تھا ، اس حدیث میں سے غنا کو الگ کر کے فتوی بنا لیا گیا ، حالانکہ صحابہؓ نے گانے والیاں خریدیں بھی اور پہلے ان سے آلہ موسیقی اس لونڈی کے ھاتھ میں پکڑا کر کہا کہ چلو شروع ھو جاؤ ، اس گانا سن کر اس کی مہارت کا اندازہ کیا پھر اس کا ریٹ لگایا ،

– وروى هشام بن زيد ثنا حسان عن محمد بن سيرين قال: قدم المدينة بجوار، فنزل
ً، قال على ابن عمر وفيهم جارية تضرب، فجاء رجل فساومه فلم يهو منهن شيئا : انطلق إلى
ً من هذا رجل هو أمثل لك بيعا . فأتى إلى عبد االله بن جعفر فعرضهن عليه، فأمر جارية فقال:
خذي فأخذت حتى ظن ابن عمر أنه قد نظر إلى ذلك، فقال ابن عمر: حسبك سائر اليوم
من مزمور الشيطان، فبايعه ثم جاء الرجل إلى ابن عمر فقال يا أبا عبد الرحمن إني غنيت
بتسعمائة درهم، فأتى ابن عمر مع الرجل إلى المشتري فقال له إنه غبن في تسعمائة درهم، فإما
أن تعطيها إياه وإما أن ترد عليه بيعه. فقال: بل نعطيها إياه. فهذا عبد االله بن جعفر وعبد االله
بن عمر رضي االله عنهما قد سمعا الغناء بالعود، وإن كان ابن عمر كره ما ليس من الجد فلم
ينه عنه، وقد سفر في بيع ما استجازذلك أصلاً . مغنية كما ترى، ولو كان حراما،،

ھشام نے روایت کی ھے کہ محمد بن سیرین نے کہا ھے کہ ایک آدمی اپنی لونڈیاں لے کر مدینے آیا اور ابن عمرؓ کے پاس آ کر ٹھہرا- ان میں سے ایک لونڈی گانا گانے والی تھی ،یعنی آلہ موسیقی پر ضربیں لگا کر اس کا اظہار کر رھی تھی کہ اس میں ایکسٹرا کوالیفیکیشن بھی ھے ،،ایک آدمی آیا جس کے ساتھ بھاؤ نہ بنا تو ابن عمرؓ نے تاجر سے کہا کہ چل میں تمہیں اس گاھک کے پاس لے چلتا ھوں جو اچھا خریدار ھے ، اس کے بعد ابن عمرؓ اس تاجر اور لونڈیوں کو لے کر عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور وہ لونڈیاں پیش کیں ، عبداللہ بن جعفر نے بجانے والا آلہ اس لونڈی کی طرف بڑھایا اور کہا کہ اس کو لے اور اس لونڈی نے لے لیا جس پر ابن عمرؓ نے (بطور مزاح ) کہا کہ بس آج کا دن تمہارے لئے یہ شیطانی آلات کافی ھیں ، عبداللہ بن جعفر نے وہ لونڈی خرید لی ، بعد میں وہ تاجر ابن عمرؓ سے کہنے لگا کہ میرا تو 900 درھم کا نقصان ھو گیا ھے ،، ابن عمرؓ پھر اس کو لے کر عبداللہ بن جعفرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ اس بندے کا 900 درھم کا نقصان ھو گیا ھے ، یا تو اس کو مزید نو سو درھم دے دو یا پھر لونڈی اس کو واپس کردو ، عبداللہ بن جعفر نے کہا کہ ھم اس کو مزید پیسے دے دیتے ھیں ” لونڈی نہیں دیں گے )

یہ عبداللہ بن جفعرطیاؓر ھیں اور یہ عبداللہ بن عمرالفاروقؓ ھیں اگر گانا حرام ھوتا تو گانے والی کے سودے میں سفارشی بن کر گناہ کے لئے قدم نہ اٹھاتے اور دلیل بن کر گاھک تک پہنچا کر گناہ میں تعاون نہ کرتے –

وروى سفيان الثوري وشعبة كلاهما عن أبي إسحاق السبيعي عن عامر بن سعد البجلي
أن أبا مسعود البدري وقرظة بن كعب وثابت بن زيد كانوا في العريش وعندهم غناء
فقلت: هذا وانتم أصحاب رسول االله؟! فقالوا: إنه رخص لنا في الغناء في العرس، والبكاء على
الميت في غير نوح،

سفیاں الثوری بیان کرتے ھیں کہ عامر بن سعد البجلی کہتے ھیں کہ ابومسعود البدریؓ اور قرظہ بن کعبؓ اور ثابت بن زید (ثابت بن ودیعہ) ایک جھونپڑی میں تھے اور گانا سنا جا رھا تھا ، میں نے کہا کہ آپ لوگ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں اور یہ شغل چل رھا ھے ؟ تو انہوں نے کہا کہ شادی میں ھمیں گانے کی رخصت دی گئ ھے اور میت پر بغیر بین یا نوحہ کیئے رونے کی اجازت دی گئ ھے ،،