عقلمند باپ

{ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي }طه39
قرآن حکیم ھماری مادر کتاب ھے ، جو ھمیں ایک ماں بن کر سمجھاتی ھے ،، چھوٹے چھوٹے واقعات میں بڑی بڑی حقیتیں بیان کر جاتی ھے ،، اللہ پاک اس میں فرماتے ھیں لقد کان فی قصصھم عبرۃ لاولی الباب ،، ان کے قصوں میں سبق ھیں اھلِ دانش کے لئے ،،
موسی علیہ السلام مدین پہنچے تو عین دوپہر کا وقت تھا جس وقت چرواھے اپنے جانوروں کو پانی پلاتے ھیں ،، چرواھے تو پانی پلا رھے تھے جبکہ دو لڑکیاں ایک طرف ھٹ کر ایک درخت کے نیچے کھڑی تھیں ،،، موسی علیہ السلام جو کہ مصر سے فرار ھو کر پہنچے تھے کیونکہ وھاں ان سے ایک قبطی بندہ جو کہ فرعون کی قوم کا تھا مارا گیا تھا اور فرعون کے یہاں آپ کے قتل کا فیصلہ ھو گیا تھا ،،،،، موسی علیہ السلام کو ایک سائڈ پہ ( Low Profile ) رھنا چاھئے تھا ،، پھر ایک اجنبی کا لڑکیوں سے مخاطب ھونا بنتا نہیں ھے ،، مگر موسی علیہ السلام ان لڑکیوں کے معاملے کو سمجھ گئے تھے صرف تصدیق چاھتے تھے ،، پوچھا آپ دونوں کا کیا معاملہ ھے ؟ ان دوتوں نے کہا کہ جب تک چرواھے فارغ نہ ھو جائیں ھم پانی نہیں پلا سکتیں ( کیونکہ چھوٹی سی باؤلی پہ مردے کے ساتھ ٹکرانا پڑتا ھے ) اور ھمارے ابا بہت ھی بوڑھے ھیں ،، گویا بھائی کوئی نہیں ،،،،،،،، آپ آگے بڑھے اور جھٹ پٹ ڈول کھینچ کر ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا ،، طاقتور کی باڈی اسٹرکچر بھی بتاتا ھے کہ وہ قوی ھے ، اور باڈی لینگویج بھی بتاتی ھے کہ وہ قوی ھے ،،
لڑکیاں چلی گئیں تو آپ اسی درخت کے نیچے جا کھڑے ھوئے اور دعا فرمائی ، ﴿قال رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ﴾:
اے پروردگار،، آج جو جتنی بھی خیر بھیج دے،میں اس کا محتاج ھوں ،،
یہ عبدیت ھے ، کائنات میں ایک ھی داتا ھے باقی سب اس کے محتاج ھیں ،،
اے نوعِ انسانیت تم سب اللہ کے فقیر ھو، اس کے در کے منگتے ھو ،صرف وھی ستودہ صفات غنی ھے ،، دینے والا ھے ،،
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ﴾ فاطر -15
ان دو میں ایک حیاء میں لپٹی ھوئی آتی ھے حیاء اس کی ذات میں ھی نہیں جس زمین پہ چل کر آ رھی ھے اس پہ بھی بچھا جا رھا ھے اور وہ اس حیاء پہ چلتی آ رھی ھے گویا وہ ریڈ کارپٹ ھے ،،،،،،،،، یہ حیاء کا ذکر پہلے نہیں کیا گیا ،، جب وہ دونوں بہنیں تھیں اور موسی علیہ السلام ان سے بات کر رھے تھے ، اس وقت حیاء کا ذکر نہیں ،،یہ اچانک وہ کونسا جینریٹر تھا جس نے حیاء کا ھمالیہ کھڑا کر دیا ،،، ایک لڑکی کے پاس سے پورا بازار گزر جائے ،، یا وہ پورے بازار میں سے گزر جائے وہ بالکل نارمل چلتی رھتی ھے ،ادھر محبوب نظر آیا اور ادھر وہ زمین میں گڑ گئ ،، چال میں لڑکھڑاھٹ ،، پاؤں کدھر ڈالو تو پڑتا کدھر ھے ،،،، یہ حیاء سے آگے بڑھ کر تعلق کا استحیاء بن جاتا ھے ،، کہا میرے ابا آپ کو بلاتے ھیں تا کہ وہ اپ کو بدلہ دیں اس نیکی کا جو آپ نے ھمارے مویشیوں کو پانی پلا کر کی ھے ،،، پھر جب وہ پہنچے شیخ مدین یا حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس اور اپنا قصہ بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ فکر مت کر جوان تو ظالموں کے علاقے سے نکل آیا ھے ،، ان میں سے ایک نے کہا ،،،،،، ابا جی اسے اجرت پہ ملازم رکھ لیں ،، اجرت پر رکھنے کے لئے بھلا قوی اور امانتدار سے بڑھ کر کون مستحق ھو گا ،،،،،،،،،
شعیب علیہ السلام اللہ کے نبی تھے اور نہایت حکیم شخصیت تھے ،، بیٹی کا مشورہ اور بیٹی کے منہ سے ایک ایسے مرد کی صورت ” قوی ” اور سیرت و کردار ” امین ” کی بات سن کر آپ بات کی تہہ تک پہنچ گئے ،، اور یہ نہیں کہا کہ میں تجھے اجرت پہ رکھتا ھوں ،،،،، فرمایا میں تیرا نکاح کرتا ھوں ان دو میں سے ایک بیٹی کے ساتھ ،،،،،،،،، اس شرط پہ کہ تُو آٹھ سال میری بکریاں چرائے گا ،، اگر تو دس سال پورے کر دے گا تو یہ تیری مہربانی ھو گی میری طرف سے تجھ پر کوئی زبردستی نہیں ھو گی،،، جب لڑکی نے اتنا کر دیا تھا تو پھر موسی علیہ السلام نے بھی قرض چکا کر محبت کی اس شادی میں اپنا حصہ کامل مکمل ادا کیا اور اسی لڑکی کو چن کر 8 کی بجائے 10 سال پورے بکریاں چرائیں ،، ایسا حق مہر کسی نبی نے ادا نہیں کیا ،،
تعجب کی بات ھے کہ زلیخا جسی بدکار عورت کو زبردستی اللہ کے پیغمبر کے گلے منڈھا جا رھا ھے بلکہ آخرت والی جوانی بھی اسے دنیا میں ھی نقد دلوا دی ھے کہ اسے دوبار جوان کر کے یوسف علیہ السلام سے بیاہ دیا ،، کیونکہ وہ ان کی والدہ کی عمر کی تھی ،، قیامت کو ساری عورتیں جوان ھو کر جنت میں داخل ھوں گی سوائے زلیخا کے کیونکہ وہ اپنی جوانی دنیا میں لے کر استعمال کر چکی ھے ،،،
مگر جہاں حقیقی محبت گھٹائیں باندھ کر آئی ھے جس میں نبی نے 10 سال بکریاں چرائی ھیں ،،،،،،،، وھاں سے چپ چاپ گزر جاتے ھیں
آخر میں موسی علیہ السلام کے کردار پہ تعجب نہیں ھوتا آپ کو ؟ کہ ایک نیکی اگرکر ھی دی ھے تو اس کا بدلہ لینے ساتھ چل پڑے ھیں ،کوئی بھی معقول آدمی کہہ دیتا ھے کہ نہیں نہیں ، بدلہ کاھے کا ؟ لا نرید منکم جزآءً ولا شکوراً ،، میں نے اللہ کی خاطر کیا ھے مجھے نہ بدلے کی ضرورت ھے اور نہ ھی شکریئے کی ،،، وہ بھی چادر کندھے پہ رکھ کر ساتھ چل پڑے ھیں ،،،،،،،، کیوں ؟ ،،،،،،،،،،،،،،،
{{ وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے !
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں }}