"حدیث کی روشنی"

یہ سچ ہے کہ حدیث جیسی اعلی نعمت کے سوئے فہم نے عہد جدید کے انسان کو مذہب کے معاملے میں مضطرب کر دیا ہے ۔
حدیث کی اس روشنی کو جب تک صحیح طور پر نہ سمجھا جائے اس کی اہمیت واضح نہیں ہو سکتی ۔احادیث درحقیقت دین کی شرح و وضاحت اور تفہیم و تبیین ہیں ۔
آئیں ایک حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں ۔
مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا فَإِنَّهُ يَنْقُصُ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ إِلا كَلْبَ حَرْثٍ أَوْ مَاشِيَةٍ(مسلم )
مسلم کی اس حدیث کا جو مفہوم عام طور پر بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جس نے گھر میں کتا رکھا اس کی نیکیوں میں سے روز قیراط کم کر دی جائینگی ۔
نتیجہ:کتا نجس ہے ،گھر پر کتا رکھنا ممنوع ہے سوائے شکار و حفاظتی ریوڑ کے ۔جو رکھے گا اس کی نیکیاں روز کے حساب سےسلب ہو جائینگی ۔
اب اسی حدیث کے الفاظ کی انگلی پکڑ کر تدبر اور دقت سے غور کریں تو دیکھیں کیا مختلف نتیجہ نکلتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو آزادی دی ہے.ارادے ،اختیار کی حریت ،اس کی جان مال آبرو کو حرمت حاصل ہے کوئ شخص اس کا یہ استحقاق چھین نہیں سکتا ،اسے نقل و حرکت کی بھی آزادی ہے !
رسول اللہ ﷺ نے انسان تو انسان آگے بڑھ کر جانوروں کی بھی اس آزادی کا حق بیان کیا اور فرمایا
من امسک الکلب کے الفاظ آئے ہیں ،،،
یعنی جو کوئی کتے کو بغیر مقصد حبس بے جا میں رکھے قید کرے ،تو یہ ظلم ہے اللہ اس پر سوال کرے گا اور اس آدمی کی نیکیاں کم ہو جائیں گی ۔
اور یہی بات خود حضور ﷺ نے ایک دوسری جگہ واضح فرما دی،،،
أخبر النبي صلى الله عليه وسلم أولاً بأنه ينقص قيراط ، ثم زاد بعد ذلك العقوبة فأخبر بنقص قيراطين زيادةً في التنفير عن اقتناء الكلب –
اللہ کے رسول ﷺ پہلے ایک قیراط کہا پھر کتے کو باندھ کر رکھنے کی سزا کو زیادہ کر دیا اور دو قیراط نیکیاں روزانہ کم ھونے کی سزا سنائی ،،اس وجہ سے کہ آپ کو کتوں کو باندھ کر رکھنا سخت ناپسند فرماتے تھے ،،
نتیجہ:زیر غور حدیث کا کتے کو بطور پالتور جانور گھر میں رکھنے سے کوئ تعلق نہیں ،نہ ہی اس کو رکھنا یہ کوئ جرم ہے جس پر نیکیاں کم ہوں ،نیکیاں کسی اخلاقی اصول پر کم ہوتی ہیں ،اور یہ حدیث اس آفاقی مضمون کو بیان کر رہی ہے جو اسلام کے ماننے والوں کے دلوں میں جانوروں تک سے اچھے سلوک اور برتاو کا حکم دیتا ہے ۔
محمد حسن
( جن کتوں کا رکھنا جائز ھے ان کی خرید و فروخت بھی جائز ھے ،جیسے شکاری کتا اور رکھوالی کا کتا ،، کتے صدقے میں کہیں نہیں ملتے ،، دکنی صاحب کی خدمت میں عرض ھے کہ رحمت کے فرشتے اگر زانی کے گھر جاتے ھیں ،کم ناپنے اور تولنے والے کے گھر جاتے ھیں ،، غیبت اور چغلی کرنے والے کے گھر جاتے ھیں ،، تو کتے سے فرشتوں کو ڈر نہیں لگتا ،، کتے سے چور یا ڈاکو ڈرتے ھیں ، اس قسم کی حدیثوں کو قران پر پیش کرنا چاھئے کہ قرآن کتے کے مارے ھوئے کو حلال کہہ رھا ھے ، اور خود نبئ کریم ﷺ رکھوالی کے لئے کتے کی اجازت دیتے ھیں پھر یہ کیونکر فرما سکتے ھیں کہ جس گھر میں کتا ھوتا ھے رحمت کے فرشتے داخل نہیں ھوتے ؟ کیا کتے اور کتے میں بھی فرق ھوتا ھے کچھ کتے مومن ھوتے ھیں اور کچھ کافر ھوتے ھیں ؟ کیا رکھوالی والا کتا برتن میں منہ مار لے تو وہ پاک ھوتا ھے ؟ یہ وہ کھلا تضاد ھے جو سوچنے والوں کو صاف سے بھی زیادہ روشن نظر آتا ھے ،مزید روشنی کی ضرورت نہیں ھوتی ،،)