Our Present In The Light of Jews past

یہود کے ماضی کے آئینےمیں ھمارا حال ،،
یہودیت کوئی مذھب نہیں بلکہ ایک نسل ھے ، وہ مسلم ھوں یا کافر ، مرتد ھوں یا دھریئے وہ یہودی ھی رھتے ھیں کیونکہ یہ ایک بائیولاجیکل نسل ھے مذھب کا اس کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ،جس طرح کوئی چوھدری مسلمان ھو یا ھندو ھر حال میں اس کی چوھراہٹ قائم رھتی ھے ، وہ مسلمان ھو تو چوھدری شجاعت اور چوھدری افتخار جبکہ ھندو ھو تو چوھدری چرن سنگھ ھوتا ھے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں آل یعقوب جو بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہلاتے ھیں ،کنعان سے مصر منتقل ھوئے تھے ،، وھاں نے ان لوگوں نے بڑا عروج دیکھا اور خوب پھولے پھلے مگر پھر ان کے مظالم کی وجہ سے اس علاقے کے اصل باشندوں میں رد عمل پیدا ھوا اور ان لوگوں نے بنی اسرائیل کا تختہ الٹ کر اپنے یہاں فرعونی نظام یعنی شاھی نظام قائم کیا ،، جس کے سربراہ کو فرعون کہا جاتا تھا ،، یوسف علیہ السلام کے بعد ان میں کوئی نبی نہیں آیا ،، بلکہ ان کے علماء ، صوفی ھی ان کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے رھے ، سورہ المومن میں قوم فرعون کا مومن اپنی قوم سے مخاطب ھو کر کہتا ھے کہ ” ولقد جاءكم يوسف من قبل بالبينات فما زلتم في شك مما جاءكم به حتى إذا هلك قلتم لن يبعث الله من بعده رسولا ( المومن 34) تحقیق اس سے پہلے یوسف واضح نشانیوں کے ساتھ تمہارے پاس آئے تھے ،تم ان کے بارے میں بھی شک میں ھی مبتلا رھے یہانتک کہ جب وہ فوت ھو گئے تو تم نے کہا کہ اللہ اس کے بعد اب کوئی رسول نہیں بھیجے گا ،،،اگر کوئی اور رسول اس دوران آیا ھوتا تو یقیناً اس کا ذکر کیا جاتا ،،،
بغیر نبی صدیوں کے تعامل نے بنی اسرائیل کے علماء کو ان کی رگ رگ میں پیوست کر دیا تھا ، اور وہ ان کی رائے کو اللہ کا حکم اور شریعت کا منشاء سمجھتے تھے ،،اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ،، انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا تھا یہ سارے مذاھب کا المیہ ھے کہ مونچھیں داڑھی سے لمبی ھو جاتی ھیں ، ،، جس طرح ھر پھل کے ضمنی فوائد ھوتے ھیں مثلاً تربوز خود کھا لیا اور چھلکے گائے بھینس کو ڈال دیئے ،، آم خود کھالیئے اور چھلکے بکری کو ڈال دیئے ، مونگ پھلی خود کھا لی اور اس کی ٹانگری بکریوں کو کھلا دی ، اسی طرح ان علماء و مشائخ زندگی میں تو خدا بنے ھی رھتے تھے مرنے کے بعد سوا لاکھ کے ھو جاتے اور ان کے مقبرے بنا کر چوما چاٹی اور سجدے شروع ھو جاتے ، بزنس بھی بن جاتا اور مذھبی سیادت بھی قائم ھو جاتی ،،، یہ وہ حرکت تھی جس سے نبئ کریم ﷺ نے اپنی امت کو خبردار فرمایا تھا ،
اسی قسم کی روایتی یہودیت میں حضرت موسی علیہ السلام کی ولادت با سعادت ھوئی اور آپ معجزانہ طور پہ فرعون کے گھر پہنچے ، شاھی محل میں رھن سہن رکھنے کے باوجود ، حضرت موسی کا بہت سا وقت اپنی والدہ کے پاس ھی گزرتا تھا جو لوگوں کی نظر میں ان کی رضاعی ماں تھیں ،، ھارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کے بڑے بھائی تھے اور ایک بڑی بہن بھی تھی ، عقائد کے لحاظ سے موسی علیہ السلام روایتی یہودی تھے ، جس طرح کے دوسرے یہودی تھے وہ اللہ پہ ایمان و یقین رکھتے تھے ،،، مگر مجرد روایتی مذھب آپ کے لئے بےشک خزانہء ایمان و یقین ھو ، کسی دوسرے کے لئے اتمامِ حجت نہیں بن سکتا جبتک کہ کسی قوم کے پاس براہ راست کلام اللہ موجود نہ ھو ،، اور اسی کو بطور آلہ دعوت وتبلیغ استعمال کیا جائے ،، آخر کوئی اپنے باپ دادا کے فرمائے ھوئے کو آپ کے باپ دادا کے فرمائے ھوئے کی خاطر کیوں چھوڑے گا ، جب تک کہ آپ کے پاس ” اللہ کا فرمایا ھوا ” موجود نہ ھو ؟؟؟؟؟؟؟
موسی علیہ السلام پہلے بھی مسلمان ھی تھے اور اللہ سے واقف اور اس کو ماننے والے تھے ۔جس کا ثبوت یہ ھے کہ جب آپ سے قبطی قتل ھوا تو آپ نے فرمایا ” قال رب إني ظلمت نفسي فاغفر لي فغفر له إنه هو الغفور الرحيم . قال رب بما أنعمت علي فلن اکون ظھیراً للمجرمین ،،، یہ رب رب کی گردان بتا رھی ھے کہ آپ رب سے واقف تھے ، پھر جب فرعون کی پولیس پیچھے پڑی اور آپ مصر سے نکل لیئے تو فرمایا ” رب نجنی من القوم الظالمین ، اے رب مجھے ظالم قوم سے بچا لے ،،، جب رستہ بھول گئے تو فرمایا ” عسی ربی ان یھدینی الی سواء السبیل ،، مجھے امید ھے میرا رب مجھے سیدھے رستے پہ ڈال دے گا ،، جب لڑکیوں کے مویشیوں کو پانی پلا دیا اور درخت کے نیچے جا کھڑے ھوئے تو فرمایا ، رب انی لما انزلت الی من خیرٍ فقیر ،، جب نکاح کا معاھدہ ھوا حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ تو فرمایا ، واللہ علی ما نقولُ وکیل ،، ھم نے جو کہہ دیا اس پہ اللہ ھی ضامن ھے ،، الغرض یہ سب کچھ ھونے کے باوجود ،، اللہ پاک نے پہلی ملاقات پر ھی ان کو کلمہ توحید پڑھایا تا کہ وہ روایتی سے بڑھ کر براہ راست رب سے سن کر ایمان لائیں اور پھر اس ایمان کی حجت اور زور پر لوگوں کو توحید کی طرف بلائیں ،، نہ کہ باپ دادا کے سنے سنائے ھوئے پہ ،، فرمایا ” یا موسی اننی انا اللہ لا الہ الا انا فاعبدنی و اقم الصلوۃ لذکری ،، اے موسی یہ میں ھوں ،، اللہ ، میرے سوا کوئی الہ نہیں ھے سو میری ھی عبادت کر اور میری یاد میں نماز قائم رکھ ،،،
بالکل یہی معاملہ نبئ کریم کے ساتھ بھی ھوا ، آپ بھی روایتی مسلمان تھے یعنی باپ داد کے کہے سنے پہ اللہ سے واقف تھے ،، اس کو ایک سمجھتے تھے اس کے باوجود اللہ پاک نے اپنا تعارف کرانا ضروری سمجھا اور آپ ﷺ نے توحید کے کلمے کو اللہ پاک سے خود سنا پھر لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی ، سورہ محمد میں اللہ پاک نے فرمایا ” فاعلم أنَّه لا إله إلاَّ الله ( محمد -19 ) تو اچھی طرح جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ھے ،، شہادت کی گواھی خود خدا سے سنی ھے ، خدا نے اپنا کلمہ شہادت خود کہا ھے ،
” .. شَھِدَ اﷲُ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَالْمَلٰئِکَةُ وَ اُوْلُوالْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ”
الغرض حضور ﷺ پہ کچھ نازل کیا گیا ھے جس کی تبلیغ کا حکم دیا گیا ھے ،، اور یہیں تنلیغی نصاب ھے ،، انذار اسی کی بنیاد پہ ھو گا ، تبشیر اسی کی بنیاد پہ ھو گی ، اور تبلیغ بھی ” ما انزل الیک ” کی ھو گی ،،
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ. اے رسول ﷺ تبلیغ کرو اس کی جو نازل کیا گیا ھے آپ پر ، اور اگر آپ نے یہ نہ کیا ” تو آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا ” گویا ھزراوں سال لگا لو اور ھزاروں نصاب بنا لو ، وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ،، اگر قرآن ھی نہیں پہنچایا تو کچھ بھی نہیں کیا ،،
جو کام کرنے دنیا میں آئے تھے تم نذیر !
خانہ خراب تجھ سے وھی کام رہ گیا !
جس قوم کے پاس ” ما اُنزِلَ ” نہیں ھوتا وہ حقِ تبلیغ کھو دیتی ھے ،، جب تک کسی کے پاس "ما انزل ” نہ ھو وہ بذاتِ خود کتنا بھی نیک کیوں نہ ھو ،، کسی کو تبلیغ نہیں کر سکتا ،،
لاکھوں حدیثیں قران کی ایک آیت کے برابر نہیں ھو سکتیں ،، کیوں کہ حدیثیں مسلمانوں کا لوکل معاملہ ھے ،، ان کا غیر مسلموں اور تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ،، غیر مسلموں کے لئے ، اعمش و اعرج سے زیادہ اپنے باپ دادا کی اھمیت ھے ،، ھم صرف کلام اللہ کی بنیاد پر ان سے ڈائیلاگ کر سکتے ھیں اور جو بھی مسلمان ھوا ھے قرآن ھی پڑھ کر مسلمان ھوا ھے ، اللہ کے رسول ﷺ نے بھی اپنی امت کے ذمے قرآن پہنچانا ھی لگایا ھے ،، قال النبي صلى الله عليه وسلم : ( بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ) رواه البخاري،، میرے Behalf پہ پہنچاؤ اگرچہ ایک ھی آیت پہنچا سکتے ھو ،،
چونکہ ھم روایتی یعنی پیدائشی مسلمان ھیں لہذا ھمارا ایمان روایتوں کا Addict ھے ،، جونہی کسی روایت پہ بحث شروع ھوتی ھے تو ھمارے ایمان کے چہرے پہ ھوائیاں اڑنا شروع ھو جاتی ھیں کہ دین گیا کہ گیا ،،، جن کے دین کی بنیاد اللہ کے نازل کردہ پر ھو اس دین کو اس کلام اللہ کی موجودگی تک کوئی خطرہ نہیں ،،،
( جاری ھے )