اپنے نبی کی سیرت کا دفاع کریں

کسی کی بھی ہر بات قبول کرنے والی نہیں ہوتی اور نہ ہر بات رد کرنے والی ہوتی ہے۔ ہم ہمیشہ کیس ٹو کیس ایڈریس کرتے ہیں۔ ایک مرغی اور گائے میں بھی ہر چیز کھانے والی نہیں ہوتی۔ یہی معاملہ روایات کا ہے۔ منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی بہت کوشش کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو داغدار کرنے کی آور وفات کے بعد تو وہ سارے صحابی قرار پا گئے تھے جبکہ تقریبا ایک صدی تک راویوں کو چیک ہی نہیں کیا گیا اس خوش گمانی میں کہ بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کون جھوٹ بول سکتا ہے، وہ جو غزوہِ تبوک میں صحابی بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے ہی اس نیت سے تھے کہ معرکہ گرم ہوا تو فرینڈلی فائر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی شھید کر دیں گے مگر قیصر پیچھے ہٹ گیا اور جنگ نہ ہو سکی تو ان صحابی نما منافقین نے واپسی پر تبوک کے پہاڑی سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو گرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حادثاتی موت کا شکار بنانے کی کوشش کی و ھموا بما لم ینالوا۔ انہوں وہ نیت کی جس کو پورا نہ کر پائے،یعنی یہ صحابی نما منافق رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل تو کر سکتے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بول سکتے تھے؟؟
سورہ توبہ جو غزوہِ تبوک کو ڈی بریف کرتی ہے اس کی آیت ایک سو ایک میں اللہ تعالیٰ جو نقشہ کھینچ رہے ہیں وہ نہایت خوفناک ہے کہ مدینے کی ارد گرد کی بستیوں کے بدو اور اھل مدینہ میں بھی نہایت ماہر اور مکار منافقین بھرے پڑے ہیں۔وہ نفاق میں اس قدر ماہر ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو نہیں پہچان سکتے تو پھر راوی کیسے پہچان سکتے تھے۔ اسی خدشے کے پیشِ نظر خلفائے راشدین نے حدیث حدیث کھیلنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی کوئی مجموعہ ترتیب دینے کی کوشش کی،نہ ہی کسی اور کو کرنے کی اجازت دی اور حکم دیا کہ تمام تر توجہ قرآن پر مرکوز رکھیں،۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ کی وفات کے بعد راویوں کا وہ سارا ریوڑ رضی اللہ عنہم بنا اور پھر منافقین کے اس ریوڑ سمیت تمام صحابہ کو یکساں قرار دےکر الصحابۃ کلھم عدول قرار دے کر بعد والوں نے اپنی کتابیں موٹی کرنے کا سامان تو پیدا کر لیا مگر اسلامی لٹریچر میں منافقین کو بارودی سرنگیں لگانے کا موقع بھی دے دیا۔ دو سو سال بعد والے اگر سنت تلاش کرتے تو بھی ان کو مدینے میں مل جاتی کیونکہ مدینہ ام السنہ تھا اور وہ تمام بلاد اسلامیہ میں بھی دن رات پریکٹس ہو رہی تھی،وہ بریکنگ نیوز کی تلاش میں صحراؤں میں نکلے ایک تو اپنے اس احسان کے نیچے امت کی کمر توڑ ڈالی دوسرا صحراؤں سے منافقین کا پھیلایا ہؤا مواد گھسیٹ لائے جو صحابہ کے نام سے ہی فلوٹ کیا گیا تھا۔بس امت قیامت تک انہی بڑے بڑے اماموں کے جمع کیئے گئے مواد کو بھگتے گی۔جب تک اسلاف کی عظمت کے بت کو پاش پاش کر کے فیس ویلیو پر اس مواد کو قرآن اور سنت پر پیش نہیں کیا جائے گا تب تک ہم یہود کی طرح قیامت تک ان روایتوں کے میدان تیہہ میں چکر کاٹتے رہیں گے،اور صراط مستقیم سے دور رہیں گے۔
اگر یہ امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بطور رسول پیش کر کے آپ کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دینا چاہتی ہے تو پھر اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کوہ صفا والا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم رسول بنانا ہو گا۔ مدینے والی تمام داستانیں راویوں کے منہ پر مارنی ہونگی۔ اور ان دولے شاہ کے چوہے نما علماء کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا رد کرنا ہو گا جو کہتے ہیں کہ نو بیویاں رکھنے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دو سال کی بچی کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ اگر یہ بچی میری زندگی میں جوان ہو گئ تو میں اس سے شادی کرونگا۔ اور کہتے ہیں کہ اس میں کیا بات بری ہے؟ واضح رہے کہ واقعہ تخییر کے بعد اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی بیویوں کو طلاق دینے یا نیا نکاح کرنے کی پابندی لگا دی تھی لہذا جونیہ والا پراسرار نکاح بھی منافقین کی اسٹوری ہے،اشعث ابن قیس کی بہن سے غیبی نکاح کی کہانی بھی منافقین کی اسٹوری ہے اور دو سالہ بچی سے نکاح کی خواہش بھی منافقین کی اسٹوری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی اپنے مسلمان بھائی کا دفاع اس کی عدم موجودگی میں کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس بندے کا دفاع قیامت کے دن کرے گا۔ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں آپ کے بارے میں عجیب و غریب توھین آمیز کہانیوں سے اپنے نبی کا دفاع اس امت کی اجتماعی ذمہ داری ہے، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامنِ صاف کرنے نہ کوئی نبی آئےگا نہ کوئی کتاب نازل ہو گی، ہر کہانی کو قرآن کے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کر کے رد کریں،راویوں کے قد نہ ناپیں، ہر قوم اور مذھب کا بیڑہ اس کے بڑوں کے ہاتھوں ڈوبا ہے
Masters are Monsters
عام گنہگار تو اپنی عاقبت کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔ Innovations یہی بڑے کرتے ہیں