علامہ فخر الدین رازی  اور نیساپور کی سوت کاتنے والی بُڑھیا

ایک لیجنڈ تھے ، ۸۷ کتابوں کے مصنف جنہوں نے ہر موضوع کو ایڈریس کیا اور اس کا حق ادا کیا ، ان کی ساری زندگی مختلف فرقوں سے برسرِ پیکار رہتے ہوئے گزری، جس فرقے سے پالا پڑا انہوں نے اس فرقے کا سارا کچا چٹھا بیان کیا ، ان کے دلائل کا رد کیا اور مفصل کتاب لکھ دی ،، علماء و فقہاء نے ان کے خلاف مقدمے درج کرائے اور اپنے معتقدین کو بطور گواہ پیش کر کے ان کو ہر علاقے سے علاقہ بدر کرایا ، ان کے مکتبے کو مکمل طور پر جلا کر لگے کپڑوں میں نکال دیا گیا ، اس زمانے میں کتاب لکھنا کس قدر مشکل کام تھا ، شاید ہم اندازہ نہ کر سکیں ،نہ کوئی فلیش ڈرائیو تھی کہ اپنا لکھا محفوظ کر سکیں ، جب آنکھوں کے سامنے متاع حیات جل رہی ہو تو ایک عالم پہ کیا گزری ہو گی ، یہ وہ جانتا ھے یا اس کا خدا ،، اسکے باوجود ۸۷ کتابیں دے جانا بہت بڑی اچیومنٹ تھی ،،
امام رازی نے توحید کے موضوع پر قرآن کی تین سو ساٹھ آیات منتخب کی تھیں ، ایک دن وہ چرخہ کاتنے والی بڑھیا کے پاس سے گزرے تو خیال آیا کہ پتہ کرنا چاہئے کہ یہ بڑھیا اللہ کی توحید تک کیسے پہنچی ہو گی ،،،
امام رازی نے سلام دعا کر کے بڑھیا سے پوچھا کہ اماں آپ اللہ پر ایمان رکھتی ہیں ؟ اس نے کہا کیوں نہیں بیٹا ،، پوچھا اماں تجھے کیسے پتہ چلا کہ اللہ واقعی موجود ہے ؟ بڑھیا نے کہا کہ بیٹا مجھے میرے اس چرخے نے بتایا ہے کہ اللہ موجود ہے ،، امام رازی دنگ رہ گئے یعنی ان کا تراہ نکل گیا ، پوچھا اماں چرخے سے خدا کا وجود کیسے ثابت ہوا ؟ وہ بولی بیٹا میں صبح سے شام تک چرخہ چلاتی ہوں، جب ہاتھ روکتی ہوں تو یہ رک جاتا ہے ،، اگر یہ چھوٹا سا چرخہ خود بخود نہیں چل سکتا تو اتنا بڑا چرخہ کیسے خود بخود چل سکتا ھے ؟ اس نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا ،، امام رازی نے کہا کہ آپ کو یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ چرخہ چلانےوالا اکیلا ہے ، دو بھی تو ہو سکتے ہیں ؟ بیٹا یہ بات بھی مجھے میرے چرخے نے بتائی ہے، میرے چرخے کو تم اپنے طریقے سے چلاؤ اور میں اپنے طریقے سے چلاؤں تو یہ چلنے کی بجائے ٹوٹ جائے گا ، یہ تبھی تک ٹھیک چلے گا جبتک اس کو ایک ہاتھ چلائے گا ،، پھر اتنا بڑا چرخہ دو خدا مل کر چلائیں گے تو وہ تباہ ہو جائے گا کیونکہ ہر الہ اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہے گا ،، امام رازی کو قرآن کی آیت یاد آ گئ ،[ لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (22ـ الانبیاء ) اگر اللہ کے سوا زمین آسمان میں کچھ اور الہ ہوتے تو وہ دونوں یعنی زمین و آسمان کو تباہ کر دیتے ـ پاک ہے اللہ عرش کا رب ان شریکوں سے جو یہ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں
دوسری جگہ فرمایا [ مَا اتَّخَذَ اللهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا کَانَ مَعَہُ مِنْ إِلَہٍ إِذًا لَذَھَبَ کُلُّ إِلَہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَابَعْضُھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ سُبْحَانَ اللهِ عَمَّا یَصِفُونَ ۹۱، المومنون
نہ تو اللہ کا کوئی بیٹا ہے ، اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور الہ اس کائنات میں شریک ہے ، اگر کچھ اور الہ ہوتے تو تمام الہ اپنی اپنی پیدا کردہ مخلوق کو لے کر دوسرے الہ پر حملہ آور ہو جاتے، اللہ پاک ہے ان معبودوں کی شراکت سے جن سے یہ اللہ کو متصف کرتے ہیں ـ
یہ تھی وہ بڑھیا جس کے بارے میں امام رازی نے مرتے دم کہا تھا کہ میں ایمان لایا اپنے رب پر نیساپور کی سوت کاتنے والی بُڑھیا کی طرح ـ

فیس بک پوسٹ