حامد کمال الدین – ایقاظ کی سعئ مشکور !
’صراطِ مستقیم‘ کا سوال کرلینے کے بعد
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ
کی صراحت کی کیا ضرورت تھی؟
اب یہاں ہم ایک اہم موضوع متعارف کرائیں گے، گو یہ ادارہ ایقاظ کا ایک مستقل موضوع رہے گا بلکہ خدا نے چاہا تو اس کی پہچان بھی۔ یہ ہے ’دین کے فہم کے معاملہ میں ”اصولِ اہلسنت“ پر اعتماد‘۔ یہ موضوع آگے چل کر ہمیں نہ صرف یہ کہ اہلسنت کا ایک تاریخی اور واقعاتی تسلسل بن جانے میں مدد دے گا بلکہ یہ ہمیں وحدتِ اُمت کا ایک درست اور متوازن تصور بھی دے گا اور عملاً اس راہ پر بھی ڈال دے گا۔
وحی کی طرف رجوع کس طرح؟ دین کی تفسیراور تعبیر کے معاملہ میں بے شمار انداز اور طریقے اپنائے گئے ہیں۔ ان میں غلط اور درست کے تعین کا کیا ہمارے پاس کوئی ذریعہ ہے؟ پیش ازیں ہم اس سوال پر غور کر آئے ہیں کہ ہر آنے والے شخص کو دین کی تعبیر اور تفسیر کیا ’خود‘ کرنی ہے اور اس عمل کا ’ازسرنو‘ آغاز کرنا ہے؟ یا پہلے سے موجود کسی ’تسلسل‘ کا حصہ بننا ہے، جس کا مطلب ہے کہ امتِ محمد میں اس کو پہلے سے کی گئی دین کی کسی تعبیر اور تفسیر کو ہی اپنانا ہے؟ اور پھر اس کیلئے کسوٹی کیا ہے؟ ”دین کے حقائق“ اور”دین کے فرائض“ کے فہم میں اگر لوگوں کا کچھ فرق ہو گیا ہو، اور کسی حد تک تو یہ ایک انسانی واقعہ ہے، تو لوگوں کے اس اختلاف یا تنوع کے ساتھ کیونکر پیش آیا جائے؟ کیا ’ذرہ بھر‘ اختلاف کی گنجائش نہ دی جائے؟ یا اختلاف کے دروازے ’چوپٹ‘ کھول دیے جائیں؟ توازن کی کیا صورت ہو؟
اس معاملے میں کسی ’کسوٹی‘ کی ضرورت ہے تو وہ کیا ہر آدمی خود تجویز کرے گا؟ ’کسوٹی‘ اگر ہر آدمی خود تجویزکرے گا تو کیا سب سے پہلے ”کسوٹی“ کے تعین میں ہی اختلاف نہ ہوجائے گا؟ پھر وہ ”کسوٹی“ کیا ہوئی؟ کیا کہیں آملنے کی کوئی صورت ہے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے لئے جانے والے ”فہم واستنباط“ کی صحت جانچنے کیلئے لوگوں کے مابین آخر کوئی تو حوالہ refering point ہو!
اس معضلہ dilemma کو مناسب انداز میں حل کئے بغیر لوگوں کو اکٹھا کرنے کیلئے چل پڑنا ایک بڑے انتشار کو برقرار رکھنا اور حل کئے بغیر چھوڑ دینا ہے۔
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے درست رہنمائی لینے کا عمل اُمت میں ایک تاریخی واقعہ رہا ہے جس کا اب آپ کو خود اپنے دور میں تسلسل بننا ہے۔ اس میں اگر کچھ تنوع پایا گیا تو اس کی بھی کچھ حدود ہیں۔ اسی طرح آپ جانتے ہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی غلط تاویل اور باطل تشریح بھی اُمت کی تاریخ میں ایک واقعہ رہا ہے جس سے آپ کو دامن بچا کر رہنا ہے اور اس کا تاریخی تسلسل بننے سے خدا کی پناہ مانگنی ہے۔ وحی سے رہنمائی لینا چنانچہ ایک ”مسلسل عمل“ رہا ہے۔ یہ کام اُمت کی تاریخ میں آپ ’پہلی بار‘ نہیں کریں گے۔ باطل میں آپ کچھ یکسر نیا متعارف کرائیں تو اس کا ضرور امکان ہے کیونکہ باطل کسی خاص متعین صورت میں محصور نہیں۔ البتہ حق کے معاملہ میں وہ جو آپ سے پہلے ہیں آپ کو انہی کے پیچھے کھڑا ہونا اور انہی کے پیچھے چلنا ہے۔ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ (1)۔ ایک پہلے سے چلے ہوئے راستے پر ہی آپ کو چلنا ہے۔ اس راستے میں اگر کچھ تنوع ہے تو یہ انسانی فطرت ہے اور اس کی گنجائش ہونا خدا کی مہربانی ۔۔۔۔ مگر ایک مجموعی معنیٰ میں آپ اسی راستے پر رہنے کے مکلف ہیں اور دوسری طرف اہل زیغ وانحراف کی راہ سے دور رہنے کے پابند۔ حتی کہ ”اہل زیغ“ کا تعین بھی اہل اتباع کے تعین کے بعد اور اسی کے حوالہ reference سے ہوگا۔
وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ (2)
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ (3)
درست ہے کہ اُمت پر اس بار جو زوال آیا اور جس کی کہ پہلے کبھی کوئی مثال نہیں ملتی، امت کی صفوں میں ایک بڑے خلا کا باعث بنا۔ اس کے باعث ”اہلِ اتباع“ کا وجود شدید حد تک متاثر ہوا اور اس انحطاط کے ان پر طرح طرح کے اثرات مرتب ہوئے۔ یہاں تک کہ اب وہ نشاناتِ راہ جس پر یہ مجتمع قافلہ صدیوں تک کامیابی کے ساتھ چلتا اور علم وشعور، فکر وبصیرت اور تہذیب ومعاشرت کے سب میدانوں میں دنیا کو متاثر کرتا رہا ۔۔۔۔ اس کے یہ نشاناتِ راہ اب ایک بڑی حد تک اور ایک بڑی سطح پر ازسرنو متعارف کرائے جانے کی ضرورت مند ہیں اور اس کے وابستگان کو اس راہ پر چلانا اب ایک محنت طلب کام ہے۔ یوں بھی زوال سے نکل کر عروج کی جانب بڑھنے کا یہ تقاضا ہونا ہی چاہیے ورنہ ہم اس کو زوال مانیں ہی کیوں؟ ۔۔۔۔ کہ دور زوال کی اپنی یادگاریں ہوا کرتی ہیں اور دور عروج اپنی مثالیں رکھتا ہے۔۔۔۔
چنانچہ اس بحران کا اعتراف کرنے میں ہرگز ہمیں تامل نہیں بلکہ یہ بھی ہمارے مقدمے case کا ایک حصہ ہے مگر یہ کہ ہمیں اس تسلسل کا حصہ بننے کی اب ضرورت نہیں جو اُمت کے بھلے دنوں میں عالم اسلام کی روح رواں تھا اورمشرق تا مغرب جو علم، ایمان اور عمل کا ایک حسین ترین اور متوازن ترین نمونہ پیش کرتا رہا تھا، اورجو نصف کرۂ ارض پر خدائے وحدہ لاشریک کی عین اس بندگی کا نقشہ پیش کرتا تھا جو کہ اس کی جانب سے اتری ہوئی وحی کا تقاضا تھا ۔۔۔۔ سو یہ کہ اتباع کا یہ نمونہ اور تالیف و اجتماعِ اُمت کا یہ نقشہ اور اندرونی وبیرونی سطح پر باطل کی سرکوبی کا یہ اسوہ اپنانا اور اس کا ایک باقاعدہ تسلسل بننا اب ہماری ضرورت نہیں اور یہ کہ اپنا راستہ اب ہم اس تاریخی تسلسل سے بے نیاز رہ کر بھی بنا سکتے ہیں ۔۔۔۔ تو یہ سوچ اور ذہنیت دراصل اس دور انتشار ہی کی عکاس ہے اور اس بحران کا ہی ایک تسلسل۔
سلف کی راہ ہمیں اس دور میں بھی بلکہ ہر دور میں ہی ایک ایسی بنیاد فراہم کرتی ہے جو مستحکم ہے اور جس پر اہلسنت کے مختلف گروہ اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے بھی مل کر اور جم کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اصول اہلسنت کی صورت میں یہ راہ ہمارے لئے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہے۔ اس میں وحدت ویگانگت کے خدوخال بھی بہت واضح ہیں، اختلاف کی حدود بھی اور باطل کے ساتھ اندرونی وبیرونی کشمکش کا میدان بھی۔ علم، ایمان، عبادت، تزکیہ، تربیت، معاشرہ، تہذیب، سیاست، خلافت، جماعت، وحدت، اصلاح، جہاد، دعوت، امر بالمعروف، اہل بدعت سے تعامل، اُمت پر آنے والے مختلف ادوار اور تغیرِ حالات کی نسبت سے مختلف احکام اور مسائل، اور اس میں قابلِ رجوع اصول اور ضوابط ۔۔۔۔ اصول اہلسنت میں ہمیں سب کچھ ملتا ہے۔
اُمت کے دور اول (یعنی دور سلف) کی اتباع کرنے کی دعوت دیتے ہوئے اور پھر ہر دور میں دور اول کی اتباع کرتے رہنے والوں (جن کو کہ متبعین سلف یا اہلسنت کہا جاتا ہے) کی راہ پر چلنے اور اسی کا تسلسل بننے کی دعوت دیتے ہوئے۔۔۔۔ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ اب ہر ’نئی بات‘ اور ہر ’نیا کام‘ کرنے پر پابندی لگ جائے گی اور یہ کہ اپنے دور کے مطابق کوئی لائحہ عمل تجویز کرنے پر سرکھپانا یا اپنے دور کے کسی فقہی مسئلے یا کسی سماجی معضلے کا حل پیش کرنا ہی غلط ہو جائے گا، جوکہ اہلسنت کی اصطلاح میں ”نوازل“ کہلاتے ہیں اور جوکہ مختلف ادوار میں مختلف انداز کے ساتھ پیش آسکتے ہیں۔ یا حتی کہ اپنے دور کے مطابق لائحہ عمل اختیار کرنے یا وقت کے کسی مسئلے کا حل پیش کرنے کے معاملہ میں ”اجتہاد“ کرنا ممنوع ہوگا یا کسی دوسرے کو اجتہاد کا حق دینا یا حتی کہ اجتہاد میں غلطی کر لینے پر کسی کو عذر دینا اور اس باب میں اختلاف کو قبول کرنا ممنوع ٹھہرے گا!
ہماری اس دعوت کا ہرگز یہ مطلب نہیں، جیسا کہ بعض ذہنوں میں یہ غلط فہمی جنم لے سکتی ہے۔ بلکہ یہ بات خود ”اصول اہلسنت“ سے ہی متصادم ہے۔ خود صحابہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے چھوڑے ہوئے کتاب وسنت کے اصولوں کی بنیاد پر اور اپنے دور کے مسائل اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اور پھر نئے نئے انحرافات اور مبنی بر بدعت رجحانا ت کے بالمقابل حہاں فقہی مواقف اختیار کرنے کی ضرورت تھی وہاں فقہی مواقف اختیار کئے اور وہاں اپنے مابین اختلافِ فہم واجتہاد کو بھی کھلے دل سے قبول کیا اور جہاں عقائدی مواقف اپنانا ضروری تھا وہاں عقائدی اور اصولی مواقف اپنائے اور وہاں وہ سب یک آواز دیکھے گئے اور اپنے مابین اختلاف نام کو بھی نظر نہ آنے دیا۔ یوں اصول اور فروع کو شریعت سے لینے اور ان کو بنیاد بنا کر چلنے کے معاملہ میں امت کے اندر ایک باقاعدہ منہج پر امت کے صالح اور اہل حق طبقوں کیلئے ایک رخ متعین کردیا۔ صحابہ کے پڑھے ہوئے تابعین نے پھر اسی کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے زمانے کے مطابق طرز عمل اختیار کیا اور عین انہی خطوط پر اپنے فہم و فقہ اور اپنے تطبیقِ فکر وعلم کو زبردست توسیع دی۔ اَتباع تابعین (جن میں کہ ائمۂ اربعہ اور بیشتر ائمۂ حدیث آتے ہیں اور جن کے دور میں فقہ کا پھیلاؤ ہوا اور علوم کی تصنیف اپنے عروج کو پہنچی) نے پھر اسی چیز کا تسلسل بنتے ہوئے اپنے دور کی علمی و فقہی وفکری ضروریات پوری کیں اور اپنے دور کے فتنوں اور بدعتوں کے مد مقابل اپنے عقائدی اور اصولی مواقف رقم کئے۔۔۔۔ اور نسل درنسل پھر یہ سلسلہ چلتا رہا ۔۔۔۔ البتہ یہ ایک سلسلہ تھا نہ کہ ہر ذہین شخص کے اپنے صغریٰ و کبریٰ جات۔
ایک عدالت میں آنے والا ہر کیس اپنی نوعیت میں گو دوسرے ہر کیس سے مختلف ہو سکتا ہے اور اس کے باعث ہر نئے کیس کا فیصلہ دوسرے سے مختلف اور نیا ہونا متوقع ہو سکتا ہے اور اس لحاظ سے حاضر وقت عدالتوں اور قاضیوں کا کردار کسی بھی وقت حاشیائی نہیں ہو سکتا پھر بھی نئے آنے والے مقدمات کی بابت وقت کی عدالتیں گزشتہ عدالتوں کے کئے ہوئے مقدموں کے فیصلوں کو مدنظر رکھنے کی پابند ہوتی ہیں جن کو کہ نظائر Precedents کہا جاتا ہے۔ ”قانون“ کتابوں میں بے شک موجود ہو مگر عدالتی نظام اس مفروضہ کو درست نہیں سمجھتا کہ کوئی جج دنیا میں آج پہلی بار ’عدل‘ قائم کرے گا اور یہ کہ کوئی شخص آج پہلی بار ہی قانون کا ’صحیح فہم‘ پائے گا! عدالتی نظام جج کا تعین بلکہ کرے گا ہی اس صورت میں جب وہ اس میدان میں ”اپنے سے پہلوں“ predecessors کی حیثیت کا اعتراف کرے اور ان کے تسلسل کو لے کر چلنا قبول کرے ۔۔۔۔ ورنہ وہ عدالتی نظام ’نظام‘ نہیں کہلائے گا۔ اس کو ’سلسلہ‘ نہیں کہا جائے گا۔
’نئے‘ کا امکان بھی ختم نہ ہو اور ’پرانے‘ کی حیثیت اور اہمیت بھی مسلم رہے، ایک ’تسلسل‘ سے ہماری یہی مراد ہے۔۔۔۔ افکار کی دنیا میں یہ حُسن صرف منہجِ اہلسنت کو میسر ہے۔
اب یہ ’سلف‘ جس چیز کانام ہے وہ Predecessors کا ہی لفظی ترجمہ جس کا عدالتی تشریح کے ضمن میں اوپر ذکر ہوا۔ ایک سلسلہ کو جو چیز ”سلسلہ“ بناتی ہے وہ Predecessors کا ہی التزام ہے۔ ”قانون“ تو ہمارے لئے اور رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کیلئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہے مگر ہر دور میں سلف کی راہ پر چلتے آنے والوں کی راہ پر چلنا اور ان کے فہم و فقہ کا التزام کرنا دراصل نظائر Precedences کی اتباع ہے جو کہ ”بعد والوں“ کو ”پہلوں“ کے ساتھ جوڑ دیتی ہے اور سب کو ایک ہی آسمانی حقیقت کا مجموعی تسلسل بنا دیتی ہے۔
وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ ۔۔۔۔ (التوبۃ: 100)
”اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہو۔۔۔۔“ (4)
کیا یہ بات بے انتہا قابل توجہ نہیں کہ تاریخ اسلام میں ایک پوری نسل کا نام ’تابعین‘ رکھ دیا جاتا ہے اور قیامت تک ہم ان کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد کی نسل کو ’اَتباعِ تابعین‘ کہتے ہیں؟ کیا اپنے دین کی فطرت اور مزاج کو سمجھنے کیلئے یہ ایک بہت کافی بنیاد نہیں؟
کتاب وسنت کو ”سمجھنا“ بلاشبہ ہم نے بھی ہے، کہ اس کو سمجھے بغیر ہدایت پانا ممکن ہی نہیں۔ مقصد یہ نہیں کہ کتاب وسنت کو پہلوں نے سمجھ لیا تو اب ہمیں اس کی ضرورت نہیں، ہم خیر سے کوئی اور کام کریں! دین کا فہم لئے بغیر ہرگز کوئی چارہ نہیں مگراس کا ”فہم“ ہمیں ”سلف“ سے اور ”سلف کی راہ پر چلتے آنے والوں“ سے لینا ہے۔ انہی کے اصولوں سے مدد لینی ہے اور اُمت کے اندر انہی کے ”تسلسل“ کا حصہ بننا ہے۔
ہمارے اس رسالہ کا، بلکہ حق تو یہ ہے ہماری پوری دعوت کا ، یہی اصل لب لباب ہے۔ راستے کے بہت سے گڑھوں میں گرنے سے بچاؤ کا پیشگی بندوبست اسی منہج کو اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ بہت سے ’دلکش‘ مناہج اس کے سوا آپ کو ’قائل ‘ بلکہ اپنے ’دلائل‘سے گھائل کرنے کو ہر زمانے میں موجود ہوں گے، بڑا کچھ یہاں بنتا اور بگڑتا رہے گا اور کئی عمارتیں یہاں کچھ دیر کیلئے بڑی اونچی جاتی اور پھر کسی نئے تعمیر ساز کی عمارت کو جگہ دینے کیلئے بڑی بے چارگی سے ملبہ بنتی دیکھی جائیں گی، کئی ایک فتنے زبان زد عام ہوجانے کے بعد بالآخر زمانے کی گرد میں روپوش ہو رہیں گے اور بڑا غلغلہ کرالینے کے بعد زیادہ ہوا تو لائبریریوںکی شیلفوں میں’مطالعہ نگاروں‘ کے منتظر رہ جائیں گے، مگر وہ چیز جس کو چودہ صدیوں سے دوام حاصل ہے او رکبھی اس کا سر نگوں ہونا ممکن نہیں اور جس سے ٹکرانے والا ہر شہ زور بالآخر چت ہوا، وہ اہلسنت کا منہجِ فہم و اتباع ہے جس میں اصول اور فروع، التزام اور اجتہاد، اتفاق واجماع اور تعدد آرا، وحدت و یکسانیت اور تنوعِ افکار سب کی حدود متعین ہیں اور جن کو اصحاب رسول اللہ ﷺ سے نہ صرف باقاعدہ تلمذ بلکہ سندِ توثیق پارکھنے کا شرف حاصل ہے۔
کسی راستے کا نیا ہونا، اس امت کے اندر، اس کے ٹھکرائے جانے کیلئے ایک بہت کافی اور معقول بنیاد ہے۔ اس کے سوا، اس کو مسترد کردینے کیلئے، کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں، ’نیا‘ ہونے کے سوا اگر اس کے رد کردینے کیلئے کوئی اور دلیل دی جائے گی تو وہ نفل کے باب سے ہوگا نہ کہ فرض کے باب سے۔ ’اتباعِ حق‘ کا عمل اس امت کے اندر اس قدر تسلسل کے ساتھ ہوا ہے اور نسل در نسل اور کڑی در کڑی اس شدید حد تک مربوط ہے اور کہیں رکے یا روپوش ہوئے بغیر اصحابِؓ رسول اللہ سے سیدھا بے ساختہ یوں جا ملتا ہے، کہ ’پہلوں‘ کے ذخیروں سے ایک بات کا ثبوت نہ دیا جا سکنااور ایک مکتبِ فکر کا محض ’تحقیق‘ کے نتیجے میں سامنے آجانااس کے محدَث اور ’فَهُوَ رَدٌ‘ ہونے پر مہرِ تصدیق کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ امتِ محمد ﷺ ہے کوئی مذاق نہیں!!
ائمۂ اہلِ سنت نے کیا سچ کہا، انقطاع _ یعنی دین کی کسی تعبیر کا پورے ایک تسلسل کے ساتھ پیچھے نہ جاسکنا _ اس کے باطل ہونے کیلئے کافی اور بجائے خود ایک دلیل ہے۔
من یہدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ہادی لہ