تعویذ کی شرعی حیثیت !

تعویذ کی شرعی حیثیت !

May 8, 2013 at 5:48pm

تعويذ كي شرعي حيثيت ██▒██▒

تعويذ عربي زبان كالفظ هے ۔جس كا لفظي مطلب ’’پناه طلب كرنا‘‘هے۔ اورتعوذ بھی ان ھی معنوں میں استعمال ھوتا ھے،،تعوذ الفاظ کے ذریعے پناہ کے لئے استعمال ھوتا ھے اور تعویذ تحریر کے ذریعے پناۃ طلب کرنے کے لئے استعمال ھوتا ھے،یعنی تحریری پناہ مانگنا ،،همارے معاشرے ميں اس سے مراد كاغذپر چند اعداديا اسماء وغيره كو لكھ كرگلے ميں لٹكانا هے۔جس سے يه تاثر ليا جاتا هے كه يه كاغذكا ٹكڑا انسان كو مصائب اور تكاليف سے نجات ديتا هے۔اسے غموں سے نجات دلانے اور كاروبار ميں وسعت كے ليےيه كارآمد نسخه سمجھا جاتاهے۔ذيل ميں قرآن اور صحيح آحاديث كي روشني ميں اس بات كي وضاحت پيش كرنا چاهتے هيں تاكه اس مسئلے كےبارے لوگوں ميں شكوك وشبهات كو تاريخي اور اسلامي تناظر ميں پيش كر كے اس كا حل تلاش كيا جائے۔
دم اور تعويذ ميں فرق:
تعويذ سے مراد هر وه چيز هے جس كے ذريعے پناه طلب كي جاتي هے ۔جيسا كه اس كے معني سے عياں هے۔۔جو تعويذ بول كركيا جائےاسے دم،جھاڑ پھونك،رقيه يا منتر كها جاتاهے۔ليكن عموماً تعويذ سے مراد كوئي مادي (لٹكانے ،پينے يا باندھنے والي )چيز هي لي جاتي هے۔اكثر احاديث ميں چونكه دم اور تعويذ كا اكٹھے ذكر آيا هے اس ليے ان كے فرق كوسمجھنا ضروري هے۔دوسرے لفظوں ميں آپ يوں سمجھ سكتے هيں كه دم كي مثال دعا كي سي هے۔(جيسا كه آگے مذكور هے۔)جبكه تعويذ ايك مادي عمل هے۔
همارے معاشرے میں چند ايسے كام جن كے ليے تعويذ كيے جاتےهيں۔
• بيماري سے نجات كے ليے(جس ميں سردرد سے لے كر كينسركي بيماري تك شامل هے)
• نافرمان اولاد كے ليے
• كاروبار كي بندش ختم كرنے كے ليے
• پڑھائي ميں كاميابي كے ليے
• اس كے علاوه هر مشكل ،تكليف،پريشاني اور مصيبت سےنجات كے ليے۔
آئيے اس مسئلے كي شرعي حيثيت كا تعين كرتے هيں۔
كسي بھي مسئلے كي تحقيق كے ليے هم اس پر هر دو طرح سےسوچ كر اس كي حقيقت تك پررسائي حاصل كر سكتے هيں۔
1. نقلي طريقه(قرآن وحديث سے دلائل اكٹھے كرنا)
2. عقلي طريقه (مسئلے كو عقلي وسائنسي معيار پرپركھنا)
اگر كسي موضوع كے بارے قرآن وسنت سے واضح اور واشگاف دلائل ميسر آجائيں تو اس بارے میں بلا تردد و حيل وحجت اس كے مستحسن اور مسنون هونے كےبارے ميں گواهي دي جاسكتي هے۔ اور اس كو بلا چوں چراں تسليم كرلينا ايك كامل مسلم كا طريقه اور فرضِ عين هے وه اس كے سامنے نه اپني مرضي اور خواهش كو پيش كر سكتاهے اور نه هي عقل كو(بلكه قرآن وسنت كا كوئي مسئله عقل كے خلاف هے هي نهيں يه الگ بات هے كه وه مسئله هماري عقل ميں نه آتا هو ،عقل كے خلاف نهيں هو سكتا كيونكه اسلام دينِ فطرت اور عقل سليم سے مطابقت ركھتاهے۔)
ا :

ابتدائے آفرينش سے انسانيت كا جوسلسله حضرت آدم عليه السلام سے شروع هوا تو اس كے ساتھ هي الله رب العزت نے انسان كي هدايت كے ليے ازخود انبياء ورسل اور كتب وصحائف كا نزول فرما كر انسان كو گمراه هونے سے بچانے كا پورا پورابندوبست فرمايا۔مگر چونكه مرورِ ايام سے هر چيز تغير وتبدل كا شكار هو جاتي هے اسي طرح هر قوم كے امراء وروساء اور مذهبي پيشواؤں نے ذاتي مفاد اور حرص وھوس كي خاطر وحي الٰهي ميں تبدل و تحرف كر كے دين كو مذهب ميں بدل كراس كو جامد وساكن بنا ديا۔اسي كي تجديد وتنظيف كے خاطر ايك نبي كے بعد دوسرا نبي آتا اور بعض اوقات اپنےساتھ كتاب يا صحف بھی لےكر آتا ،تا آنكه پيارے پيغمبر حضرت محمد رسول الله صليالله عليه وسلم كي بعثت مبارك هوئي۔
انسان گمراه كيسے هوا ؟

:
دنيا كے پہلے انسان حضرت آدم عليه السلام كے بعد جب انسان شيطان كے بہكاوے ميں آكر آهسته آهسته توحيد كا درس بھولنے لگا تو ايك خدا سے ڈرنے كي بجائے اس نے هر اس چيز سے ڈرنا شروع كر ديا جس كے مقابلے ميں وه بےبس،كمزور،ناتواں اور نہتا هوتا۔هر طرف فلك بوس پهاڑ،بھيانك چٹانيں،آتشيں زلزلے،لرزه خيز گرج وچمك،عظيم الجثه حيوانات، خونخوار درندے، دهشت انگيز تلاطم،بحرِ بے كراں،مهيب جنگلات ،دهكتا هوا سورج،رات كو روشن چاند، ستاروں كي چمك،هاتھي كا چنگاڑنا، شير كا دھاڑنا، يه تمام قوائے فطرت گزرتے وقت كے ساتھ نه صرف انسان كي مرعوبيت كا منبع ثابت هوئے بلكه انسان كي عبادت كے مراكز بھی بن گے۔ اورانسان كی كيفيت يه هوگی كه علي الصبح جب مشرق سے سورج طلوع هوا تو اس كے سامنے سجده ريز هوگيا، بجلي كي چمك اور رعد كي كڑك روح فرسا هوئي تو اس كے سامنے سر نگوں هوا، شير كي دل دوز آواز سني تو اسے ديوتا بنا ليا، آگ كو جلتے ديكھاتو اسے’’اگني ديوي‘‘ كا نام دے كر پوجنا شروع كر ديا،حتی كه اس نے اپنے ھی جيسے  ظالم وجابر انسان(بادشاه)کے سامنے بھی سجده ريز هونے ميں  عار محسوس نه کیا۔جس كي واضح مثال فرعون اور نمرود هيں ۔
اس كے علاوه وه بزرگ بھي اس كے معبود و مسجود كہلائےجن كو يه اپنے سے زياده نيك پرهيز گار اور متقي سمجھتا تھا ۔پہلے پہل انسان نے ان بزرگوں كے وسيلے سے اور بعد ميں ان هي سے سب كچھ مانگنا شروع كر ديا اور ان كي عبادت ورياضيت ميں اتنا متشدد هوگيا كه پيغمبر وقت كے سامنے كھلے لفظوں اپنے ان معبودوں كو نه چھوڑنے كا عزم ظاهر كيا۔ تكليف ،پريشاني اورمصيبت ميں انسان اپنےخالقِ حقيقي كو بھول كر ان هي معبودانِ باطل كي طرف رجوع كرنے لگا اور ان سے پناه اور امان كا متمني بنا۔

انسان پناه كيوں طلب كرتا هے؟

جب انسان زندگي كے كسي موڑ پر اپنے آپ كو كمزورسمجھتا هے تو وه اپنے سے بڑي طاقت كي طرف رجوع كرتا هے ، جس كي پناه ميں آكر وه خود كو محفوظ مامون خيال تصور كرتا هے۔خدا كا تصور تو اس ميں موجود تھا ليكن اپنےعهدِ طفوليت كي وجه سے اپنے آپ كو اتنا كمزور سمجھتا تھا كه خدا تك پہنچنے كے ليے واسطے،وسيلے اور ذريعے ڈھونڈنے لگا اور بعد ميں يه واسطے هی اس كے معبود بن كر ره گئے ۔هر لمحه اس كي زبان پر ان هي كا نام اور ترانه هوتا۔تكليف اورمشكل وقت ميں انسان ان هي كو پكارتا اور پناه طلب كرتا۔ يه ھي پناه جب وه زبان سے طلب كرتا هے تواسے زمانه جاهليت ميں منتر كها جاتا تھا اور جب لكھ كر كسي ذات سے پناه طلب كرتاتو تعويذ كہلاتا۔اسلام ميں زبان سے پناه طلب كرنا دم كهلاتا هے جبكه لكھ كر پناه طلب كرنے(يعني تعويذ لكھنے،لٹكانےاور باندھنے) كا ثبوت قرآن وسنت سے نهيں ملتا۔

توهم پرستي اور تعويذ كا تعلق

:

تعويذ كي شرعي حيثيت سمجھنے سے پہلے توهم پرستي(ضعيف الاعتقادي) كے بارے ميں علم ضروري هے۔
بجز معجزے كے علت و معلول كے درميان جب كوئي مادي واسطه نه هو تو ايسی صورت توهم پرستي كہلاتي هے۔
مثلاً كسي عدد كو اپنے ليے منحوس سمجھنا (جبكه عدد اورنحوست كا آپس ميں كوئي واسطه نهيں)،منگل كے دن سفر كا آغاز نه كرنا(جبكه سفر اورمنگل كے دن كا آپس ميں كوئي تعلق نهيں)، مختلف موتيوں اور نگينوں كو انساني معاملات ميں موثر سمجھنا وغيره۔ان مثالوں ميں عدد كا نحوست كے ساتھ،منگل كا سفر كےساتھ،موتيوں اور نگينوں كا انسان زندگي كے ساتھ كوئي تعلق،واسطه اور رشته نہيں لهذا ان كے خواص واثرات كو ماننا توهم پرستي كہلائےگا۔اسلام ميں توهم پرستي حرام،ناجائز اور شرك هے۔بطورِ دليل صحيح مسلم شريف كي ايك حديث كا مفهوم

ملاحظه فرمائيں۔

ستاروں کے اثرات ؟

حضرت زيد بن خالد جهني رضي الله عنه بيان فرماتے هيں كه رسول الله ﷺ نے حديبيه ميں صبح كي نماز ادا كی اس رات بارش هوئی تھی آپﷺ نے پوچھا كيا تم جانتے هو تمهارا رب كيا كہتا هے؟صحابه نے عرض كي اے الله كے رسولﷺ ! الله اور اس كا رسول هي بہتر جانتے هيں۔آپ نے فرمايا تمهارا رب كہتا هے ۔آج صبح كئی بندے مومن اور كئی كافر هو گئے۔صحابه نے حيراني سے اس كا مفهوم دريافت فرمايا تو آپ ﷺنے فرمايا جس شخص نے يه كہا كه يه بارش فلاں ستارےكے اثرات كي وجه سے هوئی ھے  وه اللہ کا كافر  اور ستاروں  کا مومن هوا اور جس نے يه كہا كه بارش الله كے فضل ،كرم اور اذن سے هوئي وه اللہ کا مومن اور ستاروں کا کافر هو گيا

۔
كيا ستاروں كا انسانی زندگی پر كوئي اثر هوتا هے؟

چونكه ستاروں كے اثرات كو انسانی زندگی اور نظام فطرت میں مؤثر سمجھنا توهم پرستي هے لهذا آپ ﷺ نے اس كو كفر قرار ديا۔كيونكه ستارے كا بارش كے ساتھ كوئي تعلق نهيں هے۔(بارش كيسے هوتي هے اس بارے میں سائنس كی كوئی بنيادي كتاب يا قرآن مجيد كے درج ذيل مقامات كو ديكھ ليا جائے۔

)
شريعت نے جو ستاروں كو انساني زندگي پر مؤثر ماننےكي ممانعت كی هےاس كا يه مطلب نہيں كه ستارے انسانی زندگی كو متاثر تو كرتے هيں ليكن اس چيز پر يقين نہيں ركھنا چاهيے۔بلكه اسلام نے اس عقيده كي نفي فرمائی هے ،اس ليے كه ان كا اثر سرے سے هوتا هی نهيں هے ۔ يه جہالت(سابقه اقوام يونانيوں اور نمرديوں)سےچلتی هوئي عرب اور مختلف ممالك ميں پھيلتی چلی  گئ۔ نام نہاد جادو گروں اور قیافہ شناسوں نے اس عقيدے كو اور مضبوط كر ديا ۔ جب كبھي اتفاق سے ايسا هوجاتاتو ستاره پرستی كا يه عقيده اپنی جڑ مضبوط كر ليتا اور جب ايسا نه هوتا تو اپنےكسی عمل كو اس راه ميں ركاوٹ خيال كر ليا جاتا۔اقبال نے اسي ليے كہا تھا۔
ستاره ميري تقدير كي كيا خبر دے گا
وه خود فراخي افلاك ميں هے خوار و زبوں

بالكل جيسے ستارے نظامِ كائنات ميں كسي چيز پر اثرات مسلط نہيں كر سكتے اسی طرح كوئی بھی ايسی چيز انساني زندگي پر موثر نہيں هو سكتي جب تك شريعت اس بارے رهنمائي فراهم نه كردے يا پھر عقل ودانش اس كي تصديق نه كردے۔
یورپ اور ایشیا میں یہ خیال رائج تھا کہ ہفتے کے ہر دن پر ایک ستارے کی حکمرانی ہوتی ہے اور اسی مناسبت سے بعض ایام کو منحوس اور بعض کو متبرک سمجھا جاتا تھا۔اور دنوں كے ناموں كو بھی ستاروں كے ناموں سے منسلك كياجاتا۔توجه فرمائيے:
SUNDAY (سورج کادن)
MONDAY چاند کا دن(MOONکا مخفف)
TUESDAY (مریخ کا دن)(TUESفرانسیسی زبان میں مریخ کو کہتے ہیں۔)
WEDNESDAY (عطارد کا دن)(فرانسیسی میں بدھ وار کوMERCURAYDAYکہا جاتاہے)
THERSDAY (مشتری کا دن)
FRIDAY (زہرہ کا دن)
(قدیم لغت میں THURSمشتری کو اور FRIزہرہ کوکہا جاتاہے)SATURDAY (زحل کا دن)(SATURNانگریزی میں زحل کو کہتے ہیں۔

)
جبکہ اسلام نے مسلمانوں کو توہمات سے آزاد کرنے اورغلط فہمیوں سے بچانے کے لیے انہیں قمری سال دیا جس میں تاریخیں، دن اورموسم بدل بدل کر آتے ہیں اور ہفتے کے سات دنوں کو مخصوص غیر اسلامی ناموں سے آزاد کیاتاکہ مسلمان ستاروں سے ڈرتا نہ رہے۔ہفتے کے دنوں کے اسلامی نام یہ ہیں۔
عربی ترجمہ
یوم الاحد پہلا دن
یوم الاثنین دوسرا دن
یوم الثلاثاء تیسرا دن
یوم الاربعاء چوتھا دن
یوم الخمیس پانچواں دن
یوم الجمعہ جمعہ کا دن
لیکن اس کے باوجود اکثر مسلمان اس توہم پرستی کا شکارنظر آتے ہیں جبکہ یہ بات عقلی ونقلی ہر دو اعتبار سے غلط ،بے بنیاد اور لا یعنی ہے۔ہر روز اخبارات میں ”آپ کا دن کیسا رہے گا؟”کے نام سے اس فعل کا اعادہ کر کےمسلمان جاہلیت کا ثبوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جبکہ مستقبل میں کیا ہونا ہے ،کسی کی تقدیر میں کیا لکھا ہے یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
مندرجه بالا تمهيد كے بعد هم يه بات كه سكتے هيں كه تعويذ توهم پرستی كا ردِ عمل اور بت پرستي كا شاخسانه هے۔

عرب اور تعويذ :

آپﷺ كي بعثت كے وقت بھي عرب كے لوگ نظر بد سے بچنے،بيماريوں سے محفوظ رهنے،سحر آسيب سے حفاظت،

حاسدوں كے حسد سے بچنے اور جان و مال كي حفاظت و بركت كے ليےمختلف قسم كے تعويذ (مثلاً هڈياں،مختلف قسم كي معدنيات،جانوروں كے كھُر اور كاغذ وغيره پر لكھ كر يا منتر پڑھ كر) اپنے گھروں كےدروازوں كي پيشانيوں ،ديواروں اورجسم كے مختلف حصوں پر لٹكاتے اور باندھتے تھے۔اوران كا يه عقيده بھی تھا كه مختلف ارواح(جن چڑيل وغيره)انسان ميں سرايت كر جاتي هيں جن كو نكالنے كے ليے وه جادوگروں اوركاهنوں كے پاس جاتے۔
يہاں يه بات بھي نوٹ كر لينی چاهيے سابقه اقوام اورعرب كے لوگوں ميں جو رسمِ تعويذ پائی جاتی تھي اس كے ساتھ ساتھ وه زبان كے ساتھ بھي تعويذ كرتے تھے جس كو منتر ،رقيه ،جھاڑ پھونك يا دم كها جاتا هے۔ليكن عموماً تعويذ سے مراد كوئي مادي چيز هي لي جاتي هے۔جيسا كه شروع ميں مذكور هے۔
تعويذلٹكانا ،باندھنا هر حال ميں حرام هے!
ذيل ميں پيغمبر دوعالم ﷺ اور صحابه كرام رضوان الله عليه اجمعين كي چند احاديث وآثار اور واقعات رقم كيے جاتے هيں جن سے تعويذ كي شرعي حيثيت از خود عياں هو جائے گي۔

آپﷺكی تعويذ سے نفرت

:
١۔حضرت عقبه بن عامر جهنيؓ بيان فرماتے هيں كه رسول اللهﷺ کی خدمت ميں  دس آدميوں كا ايک وفد بيعت كرنے آيا آپ نے ان دس ميں سے نو آدميوں سے بيعت لے لی اور ايک آدمي سے هاتھ كھينچ ليا يعني بيعت نه لي ۔صحابه ؓ نے استفسار فرمايا تو آپ ﷺگويا هوئے کہ اس نےاپنا رب گلے میں لٹکا رکھا ھے میں کس رب کے لئے اس کی بیعت لوں ؟یعنی اس نےتعويذ باندھا هوا هے ۔ آپﷺ نے يا اس آدمي نے هاتھ ڈال كر وه تعويذ كاٹ ڈالا تو آپﷺ نے اس كي بيعت لے لي اور فرمايا:
جس نے تعويذ لٹكايا اس نے شرك كيا۔

محبت كے تعويذ:
٢۔دم تعويذ اور محبت كے ٹوٹكے شرك هيں۔تعویز کے ذریعے مراد  طلب کرنے والے کے لئے نبیﷺ کی بد دعا !:
٣۔جس نے تعويذ لٹكايا الله اس کی مراد پوري نه كرے۔اورجس نے گھونگا لٹكايا الله اسے نه چھوڑے يعني تباه كردے۔

بازو پر دھاگه وغيره باندھناكيساهے؟

:
٤۔حضرت حذيفهؓ ايک بيمار كی عيادت كے ليے تشريف لےگئے تو كيا ديكھا كه اس نے بازو ميں ايک پٹا سا باندھا هوا هے حضرت حذيفه نے اسےكاٹ كر اتار پھينكا اور قرآن مجيد كي سورہ یوسف کی يه آيت تلاوت فرمائي:اوران ميں سے بہت سےلوگ الله پر ايمان تو ركھتے هيں مگر اس كے ساتھ ساتھ شرک  بھی كرتے هيں۔

جانوروں كے تعويذ

:
انسان تو انسان رسالتِ مآب ﷺ نے جانوروں تک كے گلے ميں تعويذ طرز كي كوئي چيز لٹكانے سے منع فرما ديا۔
٥۔حضرت عباد بن تميم ؓ سے روايت هے كه ابوبشير انصاريؓ نے انہيں بتايا كه وه رسول اللهﷺ كے ساتھ كسي سفر ميں تھے ۔تو آپﷺ نے قاصد كو بھيج كر لوگوں كو حكم فرمايا كه كسي اونٹ كي گردن ميں تانت كي مالا يا كسي قسم كي كوئي مالا باقي نه رهے بلكه كاٹ دي جائے۔

دم كيا هوا دھاگه گلے ميں باندھنا

:
٦۔حضرت عبد الله بن مسعود ؓ كي بيوي حضرت زينبؓ فرماتي هيں جب ميرے شوهر گھر آتے تو دروازے پر پہنچ كر كھنكھارتے اور تھوكتے تاكه  هم محتاط هو جائيں۔(گھر ميں داخل هونے اور مطلع كرنے كا ايك انداز هے)فرماتي هيں ايك دن وه آْئے اور حسبِ سابق كھنكھارا ،اس وقت ميرے پاس ايك بوڑھي عورت تھی جو مجھے حمره(ايك وبائي بيماري كا نام هے،جس میں آنکھ سرخ ھو جاتی ھے)كي وجه سے دم كر رهي تھي ،ميں نے عورت كو چار پائي كے نيچے چھپا ديا ،عبد الله ميرے پاس آئے اور ميرے بغل ميں بيٹھ گئے ،انهوں نے ميرے گلے ميں ايك دھاگا ديكھا ،پوچھا يه كيسا دھاگا هے؟ ميں نےكہا يه دھاگا هے جس ميں ميرے ليے دم كيا گيا هے ،وه كہتي هيں كه يه سن كر عبدالله نے اسے پكڑ كر كاٹ ديا اور كہا بے شك عبد الله كا خاندان شرك سے بے نياز هے، ميں نے رسول اللهﷺ كو سنا آپ فرما رهے تھے۔‘‘دم،تعويذ اور محبت كا منتر سب شرك هيں۔’’

تعويذپر بھروسا هو جاتاهے

:
٧۔عيسيٰ بن عبدالرحمن سے بيان فرماتے هيں كه هم عبدالله بن حكيم كے پاس عيادت كے ليے گئے ۔حالتِ علالت ميں جب ان سے كہا گيا كه آپ صحت يابي كے ليے كوئي چيز(تعويذ وغيره)پہن ليں۔تو انهوں نے كہا ۔ميں كوئي چيز پہن لوں ؟ حالانكه رسول اللهﷺ نے فرمايا:‘‘جس نے كوئي چيز لٹكائي وه اسي كے سپرد كر ديا گيا۔

’’
قرآني اور غير قرآني تعويذ

:
٨۔ابراهيم نخعي رحمه الله فرماتے هيں:صحابه كرام اورتابعين عظام هرطرح كے تعويذ مكرو ہجانتے تھے،خواه قرآن سے هوں يا غير قرآن سے۔
ابراهيم نخعي رحمه الله كي مراد عبدالله بن مسعود كےشاگرد هيں۔مثلاً
١۔علقمه ٢۔اسود ٣۔ابووائل ٤۔حارث بن سويد
٥۔عبيده سلماني ٦۔مسروق ٧۔ربيع بن خثيم
٨۔ سويد بن غفله وغيرھم
٩۔عامر اور سعيد بن جبير اور ان كے علاوه سے قرآني اور غير قرآني تعويذوں كي ممانعت منقول هے۔
حرمتِ تعويذ ميں چند مزيد باتيں

:
دم كي رخصت:

١۔تعويذ كي حرمت كا حكم عام هے۔جس ميں هر قسم كےتعويذ آجاتے هيں۔ورنه جس طرح دم كي اجازت آپﷺسے منقول هے اسي طرح قرآن تعويذ كي اجازت بھي آپﷺسے ثابت هوني چاهيے تھي مگر ايسا نهيں هے۔

اسوء حسنه

:
٢۔آپﷺنے اپني 63ساله زندگي ميں ايك تعويذ بھي نهيں لكھا،نه لكھوايا ،نه پيا، نه پلوايا،اور نه هي ايسا كرنے كا حكم ديااور نه اجازت بلكه اس كے برعكس اسے شرك قرارديا۔

صحابه اور تعويذ

:
٣۔صحابه كرامؓ ميں سے كسي ايك صحابي سے بسندِ صحيح نه تعويذ لكھنا منقول هے اور نه هي پينا ،پلانااور لٹكانا۔

تعويذ اور دورِ حاضر

:
٣۔دورِ حاضر ميں تعويذ كے نام پر عورتوں كا گھروں سےنكلنا،جھوٹے عاملوں،پيروں كا لوگوں كو لوٹنا اسي بات كا متقاضي هے كه تعويذكي حرمت كو ذاتي مفاد اور حرص ولالچ ميں مبتلا ھو کر حلت ميں نه بدلا جائے۔

تعويذ اور توكل

:
٤۔تعويذ سے جہاں انسان كا اللہ پر  توكل خراب هونے كا خدشه هے۔ وهاں  متاع ِ ایمان پر ڈاکا یوں پڑتا ھے کہ انسان الله كي ذات كي بجائے كاغذ وغيره كے ٹكرے پر بھروسا كرنے لگتاهے۔

قرآني تعويذ اور عامل

:
٥۔قرآني تعويذوں كي اجازت جعلي عاملوں اور پيروں كےليے راه هموار كرنے كے مترادف هے۔

تعويذ اورعلم الاعداد

:
٦۔تعويذ كو اكثر هندسوں اور غير معروف لكھائي ميں لكھا جاتا هےاورهمارے عوام ميں چونكه اكثر لوگ اس علم سے ناواقف هيں لهذا ممكن هےكه وه اپني طرف سے كسي قرآن تعويذ كرنے والے پاس جائيں جبكه عامل انهيں شيطاني تعويذ بنا كر دے دے۔

تعويذ اور قرآن كي بے حرمتي

:
٧۔تعويذ پر قرآني آيات لكھنے كے بعداكثر اوقات اسكي بے حرمتي كي جاتي هے۔كبھي بچے كے گلے ميں جس كو پاكي ناپاكي كا كوئي علم نهيں،اور كبھي انسان اسے پہنے هوئے هي بيت الخلاء چلا جاتاهے اور اسي طرح اسے بعض اوقات حالتِ جنابت ميں بھي قبل از وقت اتارنا ممكن نهيں۔مثلاًرات كوحالتِ نيند ميں اگر انسان جنبي هوجائے۔
لهذا تعويذ باندھنا ،لٹكانا،پينا هر حال ميں حرام اورناجائز هے۔
زمانه جاهليت ميں عرب تعويذ كے ساتھ ساتھ دم بھي كياكرتے تھے ۔جس كو هم اپني زبان ميں تعويذ پڑھنا كہہ سكتے هيں ۔ان كے تعويذوں اوردموں ميں بعض ايسے بھي تھے جن ميں شرك كي آميزش تھي۔چند نامعلوم ناموں كے لكھنےاور پڑھنے سے وه لوگ تعويذ كيا كرتے تھے لهذا آپﷺ نے تعويذ كے ساتھ ساتھ دم كو بھي حرام قرار دے ديا۔ليكن اس موضوع كےبارے جب تمام احاديث كو اكٹھا كيا جاتا هے تو هميں معلوم هوتا هے كه آپ نے بعض معاملات ميں دم كرنے كي اجازت دے دي مگر دم لكھنے(يعني تعويذ بنانے) كي اجازت مرحمت نهيں فرمائي۔

دم كرنا جائز هے بشرطيكه اس ميں شرك نه هو
دم ايك طرح كي دعا هے۔جيسے دعا كرنے كے بعد هاتھ پرهاتھ دھرے بيٹھ جانا لغو حركت هے۔بلكه دعا كے ساتھ ساتھ دوا بھي ضرور هےاسي طرح دم كے ساتھ ساتھ مادي اشياء (مثلاً ادويات ،جڑي بوٹياں اور ديگر طريقه علاج)سے بھي اپنا علاج كرانابھي ضروري هے۔مگر تعويذ اس كے برعكس ايك ايسي مادي چيز هے جس پر لامحاله انسان كا ذهن ٹھہر جاتا هے اور وه اسي ميں اپنے مسئلے كا حل سمجھنے لگتاهے۔شريعت نے اسي ليے تعويذ كو حرام اور دم كو جائز قرار ديا۔

غير شركيه دم

:
١۔عوف بن مالك اشجعيؓ كهتے هيں كه هم جاهليت كے زمانه ميں كچھ دم كيا كرتے تھے هم نے حضورﷺ سے عرض كيا كه آپ كا ان كے بارے كيا خيال هے توآپ ﷺنے فرمايا:‘‘اپنے دم ميرے سامنے پيش كرو ۔غير شركيه دم ميں كوئي حرج نهيں۔

نظر بد كا دم

:
٢۔رسول اللهﷺ نے دم كرنے كي رخصت عنايت فرمائي۔نظر بدلگ جانے ميں،ڈنگ ميں اور نمله يعني پسلي ميں دانے اور پھنسياں نكلنے كي صورت ميں۔
آپﷺكا دم:
٣۔حضرت عائشهؓ بيان فرماتي هيں كه رسول الله ﷺ يوں دم فرمايا كرتے تھے۔
بِسْمِ اللَّهِ، تُرْبَةُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِبَعْضِنَا، يُشْفَى سَقِيمُنَا، بِإِذْنِ رَبِّنَا

بچھو كے كاٹنے كا دم

:
٤۔حضرت جابر ؓ بيان فرماتے هيں كه رسول اللهﷺنے دم كرنے سے منع فرما دياتو عمرو بن حزم كے خاندان والے آپﷺ كے پاس آئے تو انهوں نے كہا اے الله كے رسول همارے پاس ايك (منتر)دم هے جس كے ذريعے هم بچھو كے ڈسنے كا علاج كرتے هيں ليكن اب آپﷺ نے دم ناجائز قرار دے ديا هے(اس كے بعد)انهوں نے اپنا دم آپﷺ كو پڑھ كر سناياتو آپ نے فرمايا ميں اس دم ميں كوئي برائي(شرك)نهيں ديكھتا پس تم ميں سے جو اپنے بھائي كو نفع پهنچانا چاهے تو اسے چاهيےكه ضرور نفع پهنچائے۔

معوذتين سے دم

:
٥۔حضرت عليؓ بيان فرماتے هيں كه ايك رات دورانِ نمازحضور ﷺ كي انگلي پر بچھو نے كاٹ ليا تو آپﷺنے اسے بحالتِ نماز اسے اپنے جوتے سے مارڈالا اور سلام پھيرنے كے بعد فرمايابچھو پر خدا كي مار يه نمازي كا لحاظ بھي نهيں كرتا۔(يا آپﷺ نے فرمايا يه نبي اور غير نبي كا لحاظ بھي نهيں كرتا۔)پھر آپﷺنے برتن ميں نمكين پاني منگواكر كاٹنے كي جگه پر ڈالا(يعني ٹكوركي)اور اس پر معوذات(قل اعوذبرب الفلق،قل اعوذ برب الناس)پڑھيں۔

سوتے وقت كا دم

:
٦۔حضرت عائشهؓ بيان فرماتي هيں كه نبيﷺ هررات جب اپنے بستر پر تشريف لے جاتے تو معوذاتين اور قل هو ا لله احد پڑھ كر اپنے دونوں هاتھوں كي هتھيليوں كو جمع كر انميں پھونك مارتےاور سارے بد ن پر جہاں تك هاتھ پہنچتا پھيرتے۔اس عمل كو بالترتيب سر چہرے اور بدن كے اگلے حصے سے شروع كرتے ۔ يه عمل تين دفعه دهراتے۔

سورت فاتحه سے دم

:
٧۔حضرت ابو سعيد خدريؓ فرماتے هيں هم لوگ ايك سفر كےدوران ايك عرب قبيلے كے پاس سے گزرےاور انهوں نے همارے درخوست کرنے كے باوجود هماري مہماني نه كي (يعني هم سے اچھا سلوك نه كيا) اتفاق سے ان كے سردار كو بچھو نے كاٹ ليا جب كوئي افاقه نه هوا تو وه همارے پاس آئے اور كوئي علاج دريافت كيا۔ميں نےكهاں هاں ميرے پاس اس كا علاج هے ميں دم كروں گا ليكن چونكه آپ نے همارے ساتھ اچھاسلوك نهيں كيا اس ليے ميں يه كام بلا معاوضه نہيں كروں گا۔چنانچه تيس بكريوں ميں معامله طے پايا۔ميں نےجاكر سورت فاتحه پڑھ كر اسے دم كيا جس كي بركت سے ان كاسردار صحت ياب هوگيا ۔ بكرياں لينے كے بعد هم ميں سے بعض نے كہا كه آو معاوضه تقسيم كرليں ميں نے كہا كه حضور ﷺ سے پوچھ كر كريں گے آپﷺ نے پورا واقعه سن كر فرمايا كه تجھے كيسے معلوم ھوا كه سورت فاتحه ميں يه بركت هے؟بہرحال تم نے ٹھيك كيا انهيں آپس ميں بانٹ لو اور ميرا حصه بھی نكالو اور ساتھ هي آپﷺنے تبسم فرمايا۔

كيا دم كرنے كا معاوضه ليا جاسكتا هے؟

بعض لوگ اس حديث سے دم كے معاوضے كا استدلال كرتے هيں جبكه حديث كا متن اور عرب كے حالات و واقعات اور تهذيب وتمدن اس كي نفي كرتےهيں۔اس ميں چند امور غور طلب هيں۔
صحابي رسول نے كن حالات ميں معاوضه كا مطالبه كيا؟جبكه وه مجبور تھے اور حالتِ سفر ميں تھے اور سفر بھي عرب كا جهاں دور دور تك پانيكا نام ونشان نه هوتا اور صحرا كي تپتي ريت اور آگ برساتا هوا سورج اوپر سے مسافتكا بوجھ ۔ايسي صورت ميں مهمان نوازي نه كرنے كا مطلب مسافر سے ظلم كي انتها تھي اوربعض اوقات اس ظلم سے مسافر موت كے منہ بھي جا سكتا تھا۔يہي وجه هے كه شريعت نےمسافركا بہر صورت خيال ركھا هے۔اگر ميزبان اس كي مہماني نه كرے تو بامر مجبوري وه ميزبان سے اپنا حق چھين بھي سكتا هے۔ لهذا صحابي نے مجبوراً ان كے ساتھ يه معامله طے كيا ۔ورنه اگر بات يہي هوتي جو آج يهاں همارے تعويذاور دم فروش باور كرواتےهيں تو صحابي نے تو اس مال كو پورے قافلے والوں ميں تقسيم كيا تھا ۔كيا كوئي دم كامعاوضه لينے والا ايسا كرے گا؟دوسري بات يه هے كه ايك لاكھ سے زائد صحابه ميں سےايك صحابي بھي ايسے نهيں جو لوگوں سے دم وغيره كا معاوضه وصول كركے اپنا پيٹ پالتےتھے ۔

دم كرنے كي تين شرطيں

كيونكه تعويذ بالواسطه انسان كے عقيدے پر اثرڈالتا هےاور توكل علي الله ميں خلل پيدا كرتاهے اس ليے اسے قطعي حرام قرار ديا اور اس كےساتھ ساتھ دم كرنے كي رخصت دي گئي ليكن دم ميں بھي اهل علم نے قرآن وسنت كي روشني ميں چند شرائط عائد كي هيں تاكه دم كرنے اور كروانے والے كا عقيده خراب نه هو۔

١۔دم صرف كلامِ الٰهي يا صفاتِ الٰهي سے كيا جائے ۔

٢۔دم عربي زبان ميں هو۔

٣۔يه عقيده هو كه دم بذاتِ خود كوئي فائده نهيں دےسكتا۔بلكه جو كچھ بھي هوگا باذن الله هوگا۔

بلا شبه دم جائز،مباح اور حلال هے ۔آپ ﷺنے خود دم فرمايا۔صحابه كرام رضوان الله عليه اجمعين كو اس كي اجازت دي اور امتِ مسلمه اس كےمسلّمه هونے پر متفق هے ۔باوجود ان تمام باتوں كے پھر بھي آپﷺنے ان لوگوں كو بے حساب جنت كي بشارت دي جو دم كرنے اور شگون لينےسے اجتناب كرتے هوںگے۔
پس ثابت هوا كه تعويذ كي اسلام ميں كوئي گنجائش نهيں نه قرآني اور نه هي غير قرآني تعويذ كي۔اس سے بچنا چاهيے ۔الله پر بھروسا ، توكل اور يقين ركھنا چاهيے۔
خلاصه كلام
تعويذ كي ابتداء شرك سے هوئي۔
تعويذ اور دم زمانه جاهليت كي رسوم هيں۔
قرآني وغير قرآني هر قسم كے تعويذ حرام هيں۔
دم كي رخصت صرف غير شركيه دم كي صورت ميں هے۔
تعويذ اور دم كا كاروبار غير شرعي هے۔
چا ند ستاروں كو انساني زندگي پر موثر سمجھنا كفر هے۔
هر حال ميں الله سے پناه مانگني چاهيے۔
كسي قسم كي بيماري ميں دھاگه ،چھلا ،منكا،گھونگا،نگينه،پٹا وغيره باندھنا،لٹكانا حرام هے۔يه سب تعويذ كي هي مختلف شكليں هيں۔
تعويذ توكل كے منافي هے۔
الله سے دعا هے كه هميں عقيده توحيد پر استقامت نصيبفرمائے اور اس كي راه ميں آنے والي ركاوٹوں سے اجتناب كرنے كي قوت عطافرمائے۔آمين۔